نعرہ کرپشن فری پاکستان

جب سے یہ ملک معرض وجود میں آیا ہے، اس وقت سے سیاستدان، بیوروکریٹ، چھوٹے بڑے ملازم، جاگیردار، وڈیرے، صنعتکار اور تاجر عوام حتی کہ ہر طبقہ کے لوگوں کی اکثریت اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے، جسے ’’کرپشن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ کرپشن مختلف طرح کی ہے، سرکاری ملازم محکمہ کے بجٹ کو خوردبرد اور رشوت لے کر کرپشن کے مرتکب ہوتے ہیں تو صنعتکار بجلی چوری اور ٹیکس بچا کر اس کا حصہ بنتے ہیں، جاگیردار اور وڈیرے آبیانہ، مالیہ بچا کر اور بینکوں سے قرض لے کر خرد برد کرکے اور غریب کا حق مار کر کرپشن کرتے ہیں، کرپشن کی روک تھام کرنے والے ادارے کرپشن کے فروغ کا باعث بنے ہوئے ہیں اس طرح جہاں جس کا داؤ لگتا ہے وہ کرپشن کا مرتکب ہو جاتا ہے، کیونکہ قانون کی گرفت کمزور ہے، کرپشن کے ناسور نے ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، ملک کا ہر بچہ بڑا عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے، ملک کے بڑے بڑے ادارے غیر ملکی بینکوں کے قرضے تلے دبے ہوئے ہیں، ہر حکمران نے اقتدار میں آ کر سب سے پہلا نعرہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کا لگایا، پی ٹی آئی کے کپتان عمران خان اقتدار میں آئے تو انہوں نے بھی کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا ناسور قرار دیا اور کہا کہ یہ (کرپشن) ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے، وہ (عمران خان) سب سے پہلے ملک سے کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور احتساب بلا امتیاز ہو گا۔ اب کپتان کی حکومت کو اڑھائی سال گزر چکے ہیں، ملک میں احتساب بھی ہو رہا ہے لیکن اس کی زد میں اکثریت اپوزیشن جماعتوں کے سیاستدان، ان کے تعلق دار بیورو کریٹس اور شخصیات ہیں۔ تا ہم ان کے ساتھ پی ٹی آئی کی خال خال شخصیات سے بھی کرپشن، لوٹمار اور غیر قانونی اثاثوں کی پوچھ گچھ ہو رہی ہے، توجہ طلب بات یہ ہے کہ کپتان کی حکومت کا آدھا وقت گزر گیا مگر ابھی تک کسی بڑے مگر مچھ سے کرپشن کردہ کوئی قابل ذکر کوئی بڑی رقم برآمد کر کے خزانہ سرکار میں جمع نہیں کرائی جا سکی، حالانکہ کپتان اپنی ہر تقریر میں کرپشن پر خوب لیکچر دیتے اور کہتے ہیں کہ کرپشن کو روکیں گے اور کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے، اسی تناظر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئی بڑے سیاست دانوں، بیورو کریٹس اور اہم سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کو پابند سلاسل بھی کر رکھا ہے،لیکن ان سے لوٹے ہوئے قومی خزانے کی رقم کی برآمدگی آٹے میں نمک کے برابر ہے کیونکہ پکڑے جانے والے بھی سیانے اور پرانے ’’پاپی‘‘ ہیں، وہ محنت و حکمت سے کرپشن کر کے کمائی گئی رقم حکومت کو واپس کرنے کی بجائے چند ماہ یاسال جیل بھگتنے کو ترجیح دیتے نظر آ رہے ہیں، اس صورت میں کپتان کا جو مشن ہے وہ پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا، اور پی ٹی آئی کے کپتان بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح ملک سے کرپشن کے خاتمے کا صرف نعرہ لگاتے نظر آ رہے ہیں؟

ملک میں ایک طرف تو کرپشن کاعروج پر ہے تو دوسری طرف ایک واقعہ اس وقت دیکھنے میں آیا ہے جب ایف بی آر کے کمشنر ان لینڈ ریونیو سرگودہا اسد طاہر جپہ نے اپنے ماتحت عملہ کے ہمراہ جامع مسجد گولچوک پہنچ کر اپنے آپ کو عوام کے سامنے احتساب کیلئے پیش کر دیا، یہ جامع مسجد تاریخی حوالوں سے بہت ہی اہمیت کی حامل ہے، نظام مصطفی کی تحریک ہو یا کوئی اور تحریک، سرگودھا کی اس مسجد کا اس میں اہم کردار رہا ہے، یہ مسجد چار اہم بازاروں کے مرکز کے درمیان واقع ہے جس میں تاجروں کی بڑی تعداد نماز کی ادائیگی کرتی ہے تو کمشنر ایف بی آر اسد طاہر جپہ اور اس کے ماتحت عملہ کیلئے تاجروں سے ملاقات کیلئے اس سے اچھی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی تھی، اس مسجد میں ایف بی آر کی ٹیم کا پہنچ کر اپنے آپ کو عوام کے سامنے احتساب کیلئے پیش کرنا یقینی طور پر ایک خوش آئند قدم نظر آ رہا ہے، اسلام میں مسجد تربیت کی بنیاد ہے، لیکن ہم مسلکوں میں تقسیم ہو کر مساجد سے دور ہو کر رہ گئے ہیں، جس کا پوری امت مسلمہ کو نقصان ہو رہا ہے۔ بات ہو رہی تھی کمشنر انکم ٹیکس اسد طاہر جپہ کی مسجد میں پہنچ کر کھلی کچہری لگانے اور اپنے آپ کو عوام کے سامنے احتساب کیلئے پیش کرنے کی تو اس سے قبل وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پنجاب پولیس کی جانب سے ہر ضلع کی بڑی مساجد میں کھلی کچہریوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دم توڑ گیا ہے اور پولیس کی کھلی کچہریاں دفاتر اور تھانوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں، اب ایف بی آر حکام نے ٹیکس کا ہدف پورا کرنے کیلئے مسجد میں بیٹھ کر تاجروں کو ٹیکس کی ادائیگی کی تلقین کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہورہی تھی ملک میں کرپشن کے بڑھتے ہوئے کینسر کی توکپتان جی آپ بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر کے ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا عزم لے کر اقتدار میں آئے تھے اور آپ کا نعرہ تھا کہ احتساب بلا امتیاز ہو گا اور کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے تو کپتان جی عرض ہے کہ احتساب سب کا کریں، لیکن یہ بلا امتیاز ہونا چاہئے، اور ایسی پالیسی مرتب کریں کہ کرپٹ عناصر سے لوٹی ہوئی رقوم برآمد ہوں، ورنہ تو پکڑے جانے والے چور، لٹیرے اور کرپشن کے مرتکب، جیلوں میں پڑے رہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ وہ تو جیلوں اور سرکار پر بوجھ ہیں، کیونکہ اس طرح تو وہ سرکاری خزانے پر بوجھ اور سرکار کے خرچ پر"پل" رہے ہیں کپتان جی آپ کو بچ، بچا سوچ سنبھل کر اس بارے قدم اٹھانا ہو گا، اپنی کابینہ اور اپنے ارد گرد ساتھیوں پر بھی کڑی نظر رکھنا ہو گی۔ کرپشن زدہ عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہو گا تب یہ ملک ترقی کرے گا اور آپ اور قوم کا ریاست مدینہ کا خواب پورا ہو گا۔ کپتان جی اگر ایسا نہ کر پائے تو تاریخ میں آپ کا نام بھی ماضی کے سیاستدانوں کی طرح کا لکھا جائے گا جو ملک سے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگاتے رہے اور اب خود کرپشن زدہ کہلا رہے ہیں۔
 

Akram Aamir
About the Author: Akram Aamir Read More Articles by Akram Aamir: 50 Articles with 35624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.