جب ہم نے رو دھوکر ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر ہی لی تو
آسمانوں پر اڑے ہوئے پھرتے تھے ۔خاندان میں شاید پہلی لڑکی تھے جس نے
کمپیوٹر سائنس میں اتنی بڑی ڈگری لی تھی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تھوڑا
تھوڑا غرور سا محسوس ہونے لگا اور بس سمجھ نہیں آتا تھا کہ اب اور مزید کیا
کریں۔ پھر امی ابو کی سمجھ آگیا کہ کیا کرنا ہےیوں ہماری شادی ہو گئی اور
ہم گھر داری کی چکی میں پسنے لگے ہماری ساری ڈگریاں دھری رہ گئیں ہم بچوں
کی پرورش میں ایسے مصروف ہوئے کہ دین دنیا سب بھول گئےدھیرے دھیرے یہ بھی
یاد نہیں رہا کہ ہم نے کس سال کون سی ڈگری لی تھی اب تو صرف بچوں کو ٹیکہ
کب لگنا ھے یہ یاد رھتا تھا ۔ ہم بات بات پر پریشان ھو جاتے اور کچھ نہ بن
پاتا تو رونے لگ جاتے ۔ذمہ داریوں نے ہمیں کمزور کر دیا تھا ہر روز کوئی نہ
کوئی مسئلہ سر اٹھائے ہمارے سامنے کھڑا نظر آتا تھاہم ایک مسئلے سے نمٹتے
اور دوسرے کے لئے تیاررہتے زندگی یوں ہی بہت افراتفری اور تیزی سے گزر رہی
تھی کہ ایک دن ہمارے پیر و مرشد ہمارے والد صاحب کی ساتھ ان کے پیرو مرشد
کے گھر جانے کا شرف حاصل ہوا ۔
اسی سالہ یا اس سے بھی زیادہ نورانی بزرگ چہرے پر جاہوجلال اتنا کہ نظر بھی
نہ ملا سکیں۔ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور
بیٹھنے کا اشارہ کیا ہم قدموں میں ہی بیٹھ گئے ان کے سامنے کرسی پر بیٹھنے
کی جرت نہ تھی
ہم سے خیر خیریت پوچھنے کے بعد کہنے لگے تمہاری قابلیت کیا ہے ہم نے جھٹ
بڑے شان سے کہا ماسٹرز کیا ہے کمپیوٹر سائنس میں ان کے چہرے پر ہلکی سی
مسکراہٹ آئی اور اپنا سوال پھر دہرایا ہم نے پوچھا تمہاری قابلیت کیا ہے؟
اب کی بار ہم لاجواب تھے اور شش و پنج میں پڑ گئے یہ ماسٹرز کی ڈگری ہی تو
ہماری سب سے بڑی کامیابی اور قابلیت کا ثبوت تھی اس کے علاوہ ہم میں اور
کیا ہے؟بہت ٹٹولا مگر صفر، کچھ نہیں ،خالی، لاجواب ہی لوٹے۔ ہم ابو کے مرشد
کو دادا ہی کہتے ہیں دادا شاید ہماری اندرونی کیفیت سمجھ گئے تھے۔ ہم سے
کہنے لگے جاٶ بیٹا دادی کے ساتھ چائے بنا کر لاؤ اورہم دادی سے پوچھ کر
باورچی خانے میں چلے گئے پھر ابو اپنی رسمی ملاقات کے بعد ہمیں واپس گھر لے
آئے۔مگر ہمارا دماغ تو وہی پھنسا ہوا تھا اسی سوال میں کہ بیٹا تمہاری
قابلیت کیا ہے؟ ہم بار بار دہرائے جارہے تھے آخر کیا ہے ھماری قابلیت اتنی
عمر گزر گئی ہم نے آخر کیا سیکھا کیا ہے ہمارا اصل علم ؟
پھر ہم نے شروع سے سوچنے کا آغاز کیا جب الف ب لکھنا سیکھی بولنا سیکھی پھر
لفظ بنانا سیکھے لفظوں سے جملے بنائے اور جملوں سے اپنی باتیں کہنا سیکھ
لیں ۔ اس طرح تعلیمی درجے بڑھتے گئے اور سرٹیفکیٹ اور ڈگریوں کی صورت میں
ہمیں اعزاز ملتا گیا۔ ہر کوئی عزت کرتا اتنی پڑھی لکھی امیر باپ کی بیٹی
ایک سے ایک لباس جوتے میچنگ جیولری جدید آلات سب کچھ تو تھا کچھ حسرت سے
دیکھتے اور کچھ ستائشی نظروں سے ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے
کے پسندیدگی کا اور کامیابی کا معیار مال و دولت شہرت اور منصب ہے ۔ڈاکٹر
عارفہ زہرہ کہتی ہیں کہ ”ہم انسان نہیں طوطے پڑھا رہے ہیں“۔ اور ان کی اس
بات سے ہم مکمل اتفاق رکھتے ہیں ہم بس ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ تعلیمی نصاب
کو گھول کر پی لیتے ہیں لکھنا اور پڑھنا بھی جان جاتے ہیں مگر مفہوم نہیں
جان سکتے بڑے عہدے بھی مل جاتے ہیں۔بہت اقتدار بھی ہوتا ہے مال و دولت بھی
ہوتی ہے مگر قابلیت نہیں ہوتی اپنی تعلیم کو اپنی قابلیت بڑھانے کا ذریعہ
تو شاید ہی کوئی سمجھتا ہے۔ ہم نے قابلیت و صلاحیت علمی لیاقت پر سوچنا
سمجھنا اور فکر کرنا چھوڑ دیا ہے۔
اب یہ اصل قابلیت ہے کیا؟ یہاں ہم ابلیس کی مثال لیتے ہیں۔ فرشتوں کو علم
سکھانے والا خود کتنا بڑا عالم ہوگا اس کو نہ جانے کون کون سے علوم پر
مہارت حاصل ہوگی مگر اس کے غرور اَنا اور ایک نافرمانی نے تا قیامت کے لیے
اسے مردود کر دیا تو پہلی بات، چاہے آپ کے پاس کتنا ہی علم کیوں نہ ہو جائے
آپ اللہ کے فرمانبردار نہیں تو آپ کے اندر کوئی قابلیت نہیں پھر ابوجہل کی
مثال لے لیں
ابوجہل کو اس کی دانائی اور عقلمندی کی بنیاد پر ابوالحکم کہا جاتا تھا مگر
اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن اور دین کا انکاری تھا
یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جان کا پیاسا بن گیا تھا تو اللہ
کے حکم سے وہ نیست و نابود ہوا اور قیامت میں بھی نامراد ہی رہے گاکیونکہ
اس نے اپنے علم کو نافرمانی کا چولا پہنا دیا تھا اور انسانی خدمت کے بجائے
دشمنی اختیار کی۔
پھر فرعون کی بات کریں تو مال و دولت بادشاہت سب کچھ تھا مگر کبھی کسی کو
فائدہ نہیں پہنچایا ہمیشہ اپنے آپ کو اللہ کے برابر ثابت کرنے کی کوشش کی۔
اپنے رتبے کا استعمال کرکے اپنے مال و دولت سے لوگوں کی مجبوریاں خریدیں۔
اپنے لئے آسانیاں کرنے کے لئے لوگوں پر ظلم ڈھائے۔اب اللہ نے اس کو قیامت
تک کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا ہےاس کی کوئی دولت کوئی رتبہ اس کے کام
نہیں آیااور آخر کار وہ جہنم رسید ہوگا
اصل قابلیت تو حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی تھی جن کے قدم زمین پر پڑتے
اور آواز آسمانوں پر سنائی دیتی بظاہر معمولی شکل و صورت کے غلام نہ مال نہ
دولت بس دل اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے بھرا
ہوا اور ان کے بتائے ہوئے طریقوں کو دل و جان سے اپنایا اور دنیاوی چیزوں
سے بری ہو گئے فکر و فاقہ نہ رہا ۔
زندگی کا مقصد انسانیت کے کام آنا اور اللہ کے قریب ہونا ہی ہماری اصل
قابلیت ہونی چاہیے۔کوئی بھی ہنر اپناٸیں مقصد دنیا میں اچھے کام کرنا ہو
اور معاشی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔ ایک مومن تو اپنی زبان سے بھی لوگوں
میں محبت اور آسانیاں بانٹھ سکتا ہے مومن کا ہرفعل عبادت ہے اٹھنا بیٹھنا
کھانا اور زندگی کے دوسرے امور ۔ہر کام سنت نبوی کے حساب سے انجام دیا جائے
تو ہر لمحہ عبادت ہے۔اگر کوئی شخص سنت نبوی کی پیروی کرے تو اس کی قابلیت
بڑھتی جائے گی کیسی قابلیت؟ وہ قابلیت جو آپ کو اللہ سے قریب کر دے گی۔ وہ
قابلیت جس کی بنا پر آپ جنت میں داخل ہونے کے قابل ھونگے ۔جی جناب ہاتھ میں
دنیاوی ڈگری لے کر نہیں اعمال نامہ دکھا کر ہی جنت میں داخل ہوں گے تو اصل
قابلیت وہ ہے جس سے ہمارا اعمال نامہ اس قابل ہو جائے کہ ہم جنت میں جانے
کے اہل ہوں تو کیا ہماری دنیاوی تعلیم ہمیں اس اہل بنا رہی ہے یا ہم اصلی
قابلیت حاصل کرنے کے لئے اپنی تعلیم کی مدد لے رہے ہیں ؟
ایک شاعر کا شعر ہے
ہمارے عیب میں جس سے مدد ملے ہم کو
ہمیں ہے آج کل ایسے کسی ہنر کی تلاش |