پاکستان کی قابل فخر بیٹی ‘ارفع کریم رندھاوا کی یاد میں

"ارفع کریم" 2 فروری 1995 ء کو رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو شیخ زید ہسپتال لاہور میں کرنل امجد کریم رندھاوا کے گھر پیدا ہوئی ۔ ارفع کریم شروع ہی سے تمام بچوں سے ذہانت میں برتر تھیں۔ یہ بچی ایک سال کی عمر میں ہی زمین پر چلتے ہوئے پھلوں اور سبزیوں کے نام اپنی توتلی زبان سے پکارنے لگی تھی ۔اس منفرد بچی کی ذہنی اور جسمانی تربیت میں جہاں اس کے والدین کا ہاتھ تھا وہاں ورثے میں ملنے والی دادا چوہدری عبدالکریم رندھاوا کی ذہانت بھی پیش پیش تھی ۔ چوہدری عبدالکریم رندھاوا کا شمار تاندلیانوالہ شہر کے ذہین ترین ٗ صاحب علم اور باصلاحیت انسانوں میں ہوتا ہے ۔ چوہدری عبدالکریم رندھاوا کسی سکول ٗ کالج یا یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے نہیں تھے پھر بھی وہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال ؒ کی کلیات اقبال ٗ حضرت بلھے شاہ ؒ ٗ سید وارث شاہ ؒ ٗ محمد بخش ؒ ٗ حضرت شاہ حسین ؒ ٗ حضرت بابافرید ؒ کے کلام کے حافظ تصور کئے جاتے تھے ۔جب ارفع کو دادا کی آغوش میں دیا گیا تو انہوں نے اس بچی کا نام "ارفع کریم" رکھتے ہوئے دعائیہ انداز میں فرمایا کہ یہ بچی نہایت قابل اور ذہین ہوگی اور اس کی ذہانت کے چرچے دنیا بھر میں سنے جائیں گے ۔ارفع کریم نے صرف تین سال کی عمر میں قرآن پاک صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھ لیا تھا‘ تیسواں سپارہ اسے تقریبا زبانی یاد ہوگیا ۔جبکہ دنیاوی تعلیم کا آغاز صرف ایک سال بعد ہی شروع کردیا تھا ۔ارفع جس چیز یا تحریر کو ایک بار دیکھ لیتی اس کے دماغ میں وہ نقش ہوجاتی ۔ سوا سال کی عمر میں نعت پڑھنے ٗ قومی ترانہ اور گیت گانے لگی تھی ۔ ارفع تین سال کی تھی جب اس کی دادی نے ارفع کو چھ کلمے ٗ دعائے قنوت ٗ اور مکمل نماز بالکل صحیح تلفظ کے ساتھ زبانی یاد کروادی تھی ۔ارفع کریم نے او لیول ( جسے میٹرک کے برابر تصور کیاجاتا ہے ) میں دس مضامین میں 100 فیصد نمبر حاصل کرکے ریکارڈ قائم کردیا۔وہ چھوٹی سی عمر میں ہی نہ صرف کلیات اقبال جیسی مشکل کتابیں آسانی سے پڑھ لیتی بلکہ علامہ اقبال کے شعروں کی بالکل صحیح تشریح کرلیتی ۔ ادب کے ساتھ ساتھ انگلش زبان میں کمیپوٹرٹیکنالوجی کے ممتاز ماہرین اور پروفیسروں کی کتابیں اس کے مطالعے میں شامل تھیں ۔ارفع کو اﷲ تعالی نے یہ اعزاز بخشا تھا کہ وہ جو کلام ایک بار سنتی وہ کلام اس کے دماغ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ۔ عام طور پر پانچ سال کی عمر میں بچے سکول پڑھنے جاتے ہیں لیکن ارفع نے ضد کرکے تین سال کی عمر میں سکول جانا شروع کردیا تھا ۔بعدازاں پڑھائی کے ساتھ ساتھ نعت خوانی کے مقابلوں ٗ بحث و مباحثے ٗ موسیقی اور بیت بازی میں اپنی عمر کے بچوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ پھر جب اس کا رجحان کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی جانب ہوا تو اس نے اپنی زندگی کی پہلی دہائی مکمل کرنے سے قبل ہی دنیا کی کم ترین مائیکرو سافٹ پروفیشنل کا اعزاز حاصل کرلیا ۔2005ء میں مائیکرو سافٹ ہیڈ کوارٹر کی جانب سے ارفع کریم کو امریکہ آنے کی باقاعدہ دعوت ملی ۔ مائیکرو سافٹ کے انجینئراس کم سن پاکستانی بچی کی ذہانت کو پرکھنا چاہتے تھے ۔ ارفع اپنے والد کے ساتھ جب امریکہ میں مائیکرو سافٹ کے ہیڈکوارٹر پہنچی تو اس کمسن ذہین بچی نے نہ صرف مائیکرو سافٹ کے تمام ماہرین اور انجینئرز کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ امریکی اخبارات و رسائل کی جانب سے ارفع کریم پر آرٹیکل ٗ فیچراور مضامین بھی شائع کئے گئے ۔ بل گیٹس جیسے مصروف ترین شخص نے جس کے پاس کسی کو دینے کے لیے ایک سیکنڈ کا وقت بھی نہیں ہوتا، ارفع کریم سے نہ صرف اس نے دس منٹ کی خصوصی ملاقات کی بلکہ اسکی صلاحیتوں کااعتراف کرتے ہوئے ان کی بھرپور پذیرائی بھی کی ۔اور کہا ارفع جب بھی چاہے گی میں خود اس کے خوابوں کوعملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان جاؤں گا ۔کہا یہ جاتا ہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات کے پس منظر میں کئے گئے تنقیدی سوالات کے جواب ارفع کریم نے اس قدر کمال مہارت اور اعتماد کے ساتھ دیئے کہ انگریز حیرت زدہ رہ گئے اور پکار اٹھے کہ اس بچی کے دماغ میں قدرت نے کوئی انسائیکلوپیڈیا فکس کررکھا ہے اس سے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ کسی اور شعبے کے بارے میں بھی سوال کیاجاتا تو لمحہ بھر تاخیر کئے بغیر صحیح جواب دیتیں ۔2006ء میں مائیکرو سافٹ کے بین الاقوامی ماہرین کی کانفرنس سپین کے شہر بارسلونا میں منعقد ہوئی جس میں دنیا بھر سے منتخب پانچ ہزار آئی ٹی ماہرین کو مدعو کیاگیا تھا ۔ کمپیوٹر کے حوالے سے اس عظیم الشان کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی ایک گیارہ سالہ بچی "ارفع کریم" کررہی تھی ۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا " اپنے زمانے سے آگے بڑھوGet ahead of the game"اس کانفرنس میں ارفع کریم کے مقالے نے دنیا بھر کے کمپیوٹر ماہرین سے نہ صرف حقیقی معنوں میں داد وصول کی بلکہ حیرت اور تجسس کے کئی در وا کردیئے ۔سپین میں ایک ہفتہ قیام کے دوران کئی بین الاقوامی ٹی وی چینلز پر ارفع کے انٹرویو نشر ہوئے اور ماہرین ٹیکنالوجی کے بے شمار وفود نے ننھی منھی ارفع کریم سے اعزاز سمجھ کر ملاقات کی ۔سپین میں ذہانت اور مائیکرو سافٹ ٹیکنالوجی میں مہارت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو سائبر پرنس (Cyber Pricess)کا خطا ب دیاگیا ۔اتنی چھوٹی سی عمر میں ارفع کریم نے فاطمہ جناح گولڈ میڈل ٗ سلام پاکستان ایوارڈ ٗ صدارتی ایوارڈ تمغہ حسن کارکردگی حاصل کیے۔ کامیابیوں اور کامرانیوں کا سفر یونہی ہی جاری تھا کہ وہ منحوس گھڑی سر پر آ پہنچی جب 22 دسمبر 2011 کی شب اس کے سر میں درد کا شدید احساس ہوا ۔ طبیعت زیادہ بگڑنے پر اسے سی ایم ایچ ہسپتال لاہور میں داخل کروا دیا گیا یہ درد اتنا شدید تھا کہ دل اور دماغ دونوں شدید متاثر ہوئے اور ارفع کومے میں چلی گئی ۔24 دن مسلسل بے ہوش رہنے کے بعد ملکی اور غیر ملکی ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود 14 جنوری 2012 کی شب ارفع کریم رندھاوا اس دنیا سے رخصت ہوگئی ۔پاکستانی قوم کی اس ذہین ترین بچی کو فوت ہوئے 9سال ہوچلے ہیں لیکن آج بھی ہر پاکستانی کے ذہنوں میں ارفع کریم رندھاوا کا نام تازہ ہے۔لاہور میں فیروز پور روڈ پر ایک بلند و بالا جدید ترین عمارت بھی ارفع کریم ٹاورکے نام سے منسوب ہے اس 17منزلہ جدید ترین عمارت میں ارفع سوفٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک یونیورسٹی ہے جہاں پاکستانی قوم کے سینکڑوں نوجوان کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔



 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 661933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.