بچوں کو کامیاب بنانے کے دس اصول

ہر انسان کے اندر اللہ تعالی نے خوبیاں اور صلاحیتیں رکھی ہیں ۔ ہر ایک کے اندر کوئی نہ کوئی کمال اور خوبی ضرور پنہاں ہوتی ہے اب یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو تلاش کرے اس کے لئے جدوجہد کرے اور خود پر اعتماد کرے ۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مستقبل میں ایک کامیاب انسان بن جائے ۔ کامیابی و کامرانی اور سرفرازی وسر بلندی اس کا مقدر ہو اور نصیب اچھا بن جائے ۔ عظمت و بلندی اور راحت و سکون اسے میسر ہوجائے وہ سماج اور معاشرہ میں باعزت شہری رہے ،عہدہ و منصب بھی اسے حاصل ہو اور علم و فضل اور فراست و ذہانت اور فہم و ادراک میں بھی لوگ اس کو رشک کی نظر سے دیکھیں اور اسی طرح ہم اپنے بچوں کے لیے بھی یہی سب کچھ چاہتے ہیں کہ وہ ایک عظیم لیڈر بنیں۔ یہ ایک فطرتی بات ہے کہ ان چیزوں کی تمنا اور خواہش تو سبھی کرتے ہیں لیکن یہ مقام و رتبہ اور عزت و وقار انہیں کو ملتا ہے جو تقدیر پر ایمان رکھ کر اس کے لئے تدبیر اور جہد و مشقت کرتا ہے اپنے اندر ہمت عزم اور خود اعتمادی پیدا کرتا ہے؛ کیونکہ قدرت کا قانون ہے کہ اگر آپ میں کوئی قابلیت ہے، تو وہ زیادہ دیر پنہاں نہیں رہ سکتی۔ ہمارا ٹیلنٹ بہت جلد ہمارے ارد گرد کے لوگوں کی نظر میں آنے لگتا ہے، ضروری نہیں کہ یہ عمل شعوری ہو مگر لوگ پھر بھی دوسرے کے ٹیلنٹ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

آپ غور کیجیے کہ ایک ایسا انسان جس میں تدریس کی صلاحیت موجود ہے، جو پیدائشی اُستاد ہے وہ کبھی بھی اپنے کام سے اُکتاتا نہیں ہے۔ دن ہو یا رات وہ یہ کام بخوشی اور جوش و جذبے کے ساتھ جاری رکھتا ہے، جس کا مشاہدہ آپ شب و روز کرتے رہتے ہیں۔آپ بھی اپنے آپ میں اور اپنے بچوں میں ایسے کام کی تلاش کریں جسے کرتے وقت آپ اور آپ کے بچے خوب لطف اندوز ہو،خوشی، اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہو، بوریت،اُکتاہٹ اور تھکان بالکل نہ ہوتی ہو۔اس کے لیے اہم بات یہ ہے کہ بچوں پر پڑھائی میں اچھی کارکردگی کے لیے اتنا زور نہیں دینا چاہیے؛ کیونکہ اس کے دباؤ کی وجہ سے وہ نفسیاتی اور سماجی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچوں کا مستقبل مزید سنور جائے اور کامیاب و کامران ہو کر ہمارے معاشرے کا اچھے انسان بن جائیں تو اس کے لیے ہمیں ذیل میں دس اصولوں کی مستقل پابندی کرنی ہوگی:

1:خود اعتمادی پیدا کریں
خود اعتمادی کامیابی کی علامت اور فلاح و کامرانی کا پہلا زینہ ہے اپنے اندر بغیر خود اعتمادی پیدا کئے منزل کا خواب دیکھنا اور ہدف کو حاصل کرنے کی امید رکھنا یہ دیوانے کا خواب سمجھنے کے مترادف ہے ۔

2:صلاحیتوں کو جانچنا
بچوں کی صلاحیتوں کو جانچنا ضروری ہے جس کی مدد سے یہ بات ابھر کر سامنے آسکتی ہے کہ آیا انھیں کسی قسم کی کوئی ذہنی یا کوئی اور بیماری تو نہیں ہے یا وہ نفسیاتی یا سماجی مسائل کا سامنا تو نہیں کر رہے۔

3:شوق و جذبہ پرکھنا
بچے کے شوق اور صلاحیتوں کو اجاگر کریں
چاہے وہ کوئی کھیل ہو یا فنون لطیفہ میں سے کوئی عمل، بچپن سے ہی بچوں کو کسی مشغلے میں دلچسپی رکھنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرنا مستقبل میں ان کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ان پر کوئی چیز زبردستی نہیں تھوپنی چاہیے۔

4:ذہنی اور نفسیاتی ضروریات
اپنے بچے کی ذہنی اور نفسیاتی ضروریات کو سمجھیں،کسی بھی چیز کو سیکھنے کے لیے تجسس کا ہونا سب سے ضروری ہوتا ہے۔ بچے سکول شروع ہونے سے پہلے بہت سے سوالات کرتے ہیں اور کئی بار یہ ممکن ہے کہ ان کو جواب دیتے دیتے آپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے لیکن یہ اُن کی نشو نما کے لیے ضروری ہے۔

5:معلم و مربی سے مشاورت
اساتذہ کے ساتھ مل کر بچے کی ضروریات کے بارے میں بات کریں، ذہین بچوں کو اکثر زیادہ مشکلات سے بھرپور سوالات چاہیے ہوتے ہیں تاکہ ان کے ذہنی نشو نما میں اضافہ ہو اور اس کے لیے ان کو زیادہ مدد کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔ اس کے لیے یہ اہم ہے کہ اساتذہ کے ساتھ اس بارے میں مشورہ کیا جائے۔

6:غلطیوں سے مت گھبرائیں
غلطیاں اور ناکامیاں مستقبل میں کامیابی کی کنجی ہیں اور سیکھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہیں، ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ غلطیوں کو موقع سمجھنا چاہیے؛ تاکہ بچے ان سے سبق سیکھیں اور مستقبل میں بہتر کارکردگی دکھائیں۔

7:وقت کی پابندی
یہ ایک اصولی بات ہے کہ جو لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں تو پھر وقت بھی ان کی قدر کرتا ہے؛ کیونکہ زندگی کا ہر لمحہ وقت کی دہلیز میں نپا تلا ہے، کوئی لمحہ واپس نہیں آسکتا۔ اسی طرح بچپن کا یہ سنہری دور بھی کبھی پلٹ کر نہیں آئے گا، اگر ہم اپنے بچوں کے وقت کا بہترین استعمال کریں تو ہمارے بچے کامیابی کی جانب بہت جلد گامزن ہوتے نظر آئیں گے۔

8:مستقل مزاجی
مستقل مزاجی آپ کا اور آپ کے بچوں کا وہ قیمتی بیش قیمت اثاثہ ہے جو آپ کو کبھی بھی نادم نہ ہونے دے گا ، اس لئے اپنے بھی اور اپنے بچوں کے بھی ہوم ورک اور اسکلز ڈیویلپمنٹ کے لئے شیڈول بنائیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو عین امتحانات کے وقت بچے کی ذہنی صلاحیتیں مفلوج ہو سکتی ہیں اور بچے کے ساتھ ساتھ آپ بھی ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا مستقل مزاجی اور وقت کی پابندی کو کبھی نہ بھولیں۔

9:حوصلہ افزائی کرنا
بچوں کی نشونما کے لیے بہت ضروری ہے کہ کسی بھی چیز کے حصول کے لیے ان کی جانب سے کی گئی کوشش کی داد دینی چاہیے بجائے اصل نتیجے کے۔ بچوں کے سیکھنے کے عمل میں خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے رد عمل سے سیھکتے ہیں، اس لیے ہر اچھے کام پر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، حوصلہ افزائی مایوسی کا شکار کسی بھی فرد کو خوشی سے ہمکنار کرنے اور محنت و کامیابی کی ترغیب دینے کا نام ہے۔ ہم سب کو ایسی حوصلہ افزائی، انعام اور ستائش کی طلب ہر وقت رہتی ہے۔ دنیا کے ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی کی تھپ تھپاہٹ اور کچھ کر دکھانے کی ترغیب ہوتی ہے، جو ناممکن کو بھی ممکن کر دکھاتی ہے۔لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کا حوصلہ بڑھائیں اور انھیں باور کرائیں کہ وہ ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

10 :اصلی ہدف کا تعین
یہ مذکورہ تمام چیزوں کا بخوبی جائزہ لے کر ہم اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کر دیں کہ ان کا دل و دماغ،شعور اور اندرون اِس بے وقعت ہدف اور عظیم ہدف کے درمیان پائے جانے والے فرق کو محسوس کرے اور زندگی کے اہداف پر نظر ثانی کرے۔ اپنے مختصر سے دنیوی ہدف کو حقیقی ہدف کے تابع بنائے اور ابدی زندگی پر نظریں مرکوز کر لے جو کبھی ختم نہ ہونے والی اُخروی زندگی ہے۔ اپنے کارناموں، اپنے اہداف اور اپنے نصب العین کو کتابِ ہدایت میں موجود رہنما خطوط کی روشنی میں نئے سرے سے متعین کرے۔

 

Muhammad Nafees Danish
About the Author: Muhammad Nafees Danish Read More Articles by Muhammad Nafees Danish: 43 Articles with 32933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.