علم: اندھیروں سے روشنی کا سفر

تحریر:شبیر ابن عادل
علم کی ہر دور میں اہمیت اور ضرورت رہی، جن لوگوں نے کامیاب زندگی گزاری، ان کو علم سے روشنی اور راہِ عمل ملی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ علم حاصل کرنے والے کی زندگی ناکام اور نامراد ہو۔ صدیوں سے علم کو کلیدی اہمیت حاصل رہی ہے، کتابوں کا دور شروع ہونے سے قبل علم کا سلسلہ زبانی اور سینہ بہ سینہ تھا۔ انسان کا حافظہ بہت تیز تھا اور ایک دوسرے سے زبانی طور پر علم حاصل کرتے تھے۔ کاغذ کا دور شروع ہونے سے بھی صدیوں قبل کتابیں لکھی جانے لگی تھیں، چمڑ ے پر، درختوں، پتھروں اور دیگر اشیاء پر۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کون سا علم حاصل کیا جائے؟ کیونکہ علم تو سمندر ہے اور کوئی اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکا۔ بنیادی طو رپر ہمیں علم ہونا چاہئے کہ ہمیں کس نے پیدا کیا؟ کیوں پیدا کیا؟کس لئے پیدا کیا؟ ہماری دنیا میں آمد کا مقصد کیا ہے، دنیا میں قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ کیاہے، ہمارے شہر، ہمارے ملک، امت مسلمہ اور دنیا کی تاریخ کیا ہے، ایسا کیا کریں کہ ہماری زندگی کامیاب گزرے، علم اور ادب، شعر وسخن، وغیرہ وغیرہ کیا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب کتابوں ہی سے مل سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا صرف معلومات دے سکتی ہے، علم نہیں۔
ہوش سنبھالنے یعنی لڑکپن سے جوانی کی حدود میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی ہمیں ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے چاہئیں۔
انسان کے مقصد ِ حیات اور زندگی گزارنے کے بنیادی اصولوں کے درست اور جامع جواب ہمیں کوئی انسان دے ہی نہیں سکتا، ان کے جوابات تو ہمارا خالق اور ہمارا ربّ ہی دے سکتا ہے اور اس نے ابتدائے آفرینش سے اس کا اہتمام کیا۔ یعنی آسمانی کتابیں اور انبیاء کی بعثت کا سلسلہ۔ تمام آسمانی کتابوں میں تحریف ہوتی رہی اور سرکش اور مفسد لوگ اور شیطان کے پیروکار انبیاء کو جھٹلاتے رہے۔ صرف آخری آسمانی کتاب یعنی قرآن کریم میں نہ تو کوئی تحریف ہوسکی اور نہ ہی ممکن ہے، کیونکہ ہمارے ربّ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور عملی قرآن یعنی سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی ذات بابرکات۔ قرآن اور سنت کی روشنی میں انسان خاص طور پر مسلمانوں کو ان تمام سوالوں کے جواب مل سکتے ہیں، جن کی تلاش میں اگر زمین اور آسمان ایک کردئیے جائیں تو نہ مل سکیں۔ یہ دونوں انسان کی عملی ہدایت کے لازوال سرچشمے ہیں۔
ہر انسان کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ کامیاب زندگی گزارے، اس کے پاس دولت ہو، گاڑی ہو، خوبصورت شریک حیات اور بچے ہوں اور کوئی غم اس کے قریب نہ آئے۔ مگر محض آرزو کرنے اور دوسروں کی نقالی کرنے سے یہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ قرآن وسنت وہ راستہ دکھاتے ہیں، جن سے دنیا کی زندگی بھی چین اور سکون سے گزرتی ہے اور آخرت میں بھی کامیابی مقدر بن جاتی ہے۔
جس وقت بھی یہ احساس ہوجائے کہ علم حاصل کرنا ہے اور اندھیروں سے روشنی میں آنا ہے تو ایک لمحہ ضائع کئے بغیراپنے چوبیس گھنٹوں کا شیڈول تیار کرنا اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہئے۔ پہلے دس دن تو اس امر کا جائزہ لیاجانا چاہئے کہ ہمارے دن اور رات کن کاموں میں صرف ہوتے ہیں۔ اس پریکٹس سے معلوم ہوجائے گا کہ ہمارا وقت کن کاموں میں گزرتا ہے۔ طالبعلم اپنی تدریسی سرگرمیوں، جوان اپنے حصول روزگار، خواتین اپنے گھریلو کاموں اور بوڑھے دیگر کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن دس دن اپنی مصروفیات کو تحریری صورت دینے سے معلوم ہوجائے گا کہ ہمارا وقت کن کن کاموں میں صرف ہورہا ہے۔ اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم روزانہ اوسطاً پانچ چھ گھنٹے ضائع کردیتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ سونے، کھانے پینے، نہانے دھونے، سفر کرنے اور دیگر کام سست رفتاری سے کرنے میں۔ خاص طورپر موجودہ دور میں موبائل فون وقت ضائع کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے اور دوسرا نمبر ٹیلی ویژن اور دوستوں کا ہے۔
اگر کامیاب زندگی گزارنی ہے تو چوبیس گھنٹے کا ٹائم ٹیبل بنا کر فالتو کاموں سے جان چھڑا نا ہوگی۔ دیگر اچھے کاموں کے ساتھ ساتھ ہر فرد آسانی کے ساتھ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ مطالعہ کے لئے وقف کرسکتا ہے۔ میں تو ہر ایک کو یہی مشورہ دوں گا کہ صبح سویرے جلد بیدار ہوکر فرائض و واجبات سے فارغ ہوکر قرآن کریم کی تلاوت، ترجمہ اور تفسیر، احادیث اور سیرت النبیﷺ
اور حیات صحابہ کرام ؓ اور اولیائے کرام ؒکا تھوڑا تھوڑا مطالعہ کرنا چاہئے۔
ان کے علاوہ ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے، جن میں آپ کو دلچسپی ہو اور دل لگے اور ان کے مطالعہ کے دوران آپ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجائیں، جو آپ کے دل ودماغ کو تازگی بخشیں اور انہیں روشن کردیں۔ اگر آپ نوجوان ہیں تو مطالعہ سے پہلے اپنے بڑوں اور اساتذہ سے مشورہ کرلیں۔
تعلیمی اداروں میں زیادہ تر وہ علم حاصل کیا جاتا ہے، جو اچھے روزگار کی ضمانت دے سکے، لیکن یہاں اس علم پر زور دیا جارہا ہے، جو آدمی کو انسان بناسکے اور انسانیت سکھا سکے۔ اس حوالے سے مندرجہ بالا موضوعات کے علاوہ ادب، شاعری، سیاحت، جغرافیہ اور کہانیوں کے علاوہ تاریخ کا مطالعہ بھی بہت کارآمد ہے۔ خاص طورپر اپنے وطن پاکستان کی تاریخ، اسلام کی تاریخ، اور تاریخ عالم۔ جس کی بدولت ہمیں گزری ہوئی اقوام اور عہد حاضر کے بارے میں آگاہی حاصل ہوسکے گی۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ علم سمندر ہے، ہمیں یہ غور کرنا ہے کہ ہم اس سمندر سے کتنا استفادہ کریں، جو ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کردے۔
مطالعہ کے لئے اپنے چوبیس گھنٹوں میں سے اوقات مقرر کرنے چاہئیں۔ جیسے صبح کا وقت اوررات کو سونے سے پیشتر۔ اس کے علاوہ کم از کم ایک کتاب ساتھ رہنا چاہئے، جسے سفر میں اور مختلف مقامات پر انتظار کے دوران پڑھا جاسکے۔
مطالعہ کے ساتھ اسے جذب کرنا بھی ضروری ہے، یعنی وہ آپ کے ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہوجائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ جو کچھ پڑھا ہو،اس کے نوٹس لئے جائیں اور اس کے بارے میں اپنے اہل خانہ اور قریبی دوستوں سے گفتگو کی جائے۔ تاکہ نہ صرف یہ کہ دوسرے اس سے مستفید ہوں، بلکہ وہ آپ کے اندر جذب ہوجائے۔
کوشش کریں کہ فضول کتابوں کے مطالعہ میں وقت ضائع نہ کریں، بلکہ ایسا علم حاصل کریں جو نافع ہو، نافع سے مراد یہ نہیں کہ اس کی بدولت آپ کو بہت سے پیسے مل جائیں۔ بلکہ اس کی بدولت آپ اچھے انسان بن جائیں، اپنے ربّ کے بندے،
دوسروں سے محبت کرنے والے اور دوسروں کے کام آنے والے۔ اسی کو علم نافع کہا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ا للہ سے علم نافع کا سوال کرو اور غیر نافع علم سے پناہ مانگو!۔
shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.