ڈاکٹر مراد ہوف مین مرحوم
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
|
تحریر: شبیر ابن عادل جرمنی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ولفریڈ ہوف مین نے انچاس (49) سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور اسلام کا اتنا گہرا مطالعہ کیا کہ بہت مختصر عمر میں یورپ میں اسلام کے عظیم مفکر اور داعی بن گئے ۔ ان کا 13 جنوری 2020 کو انتقال ہوگیا۔ لیکن اتنے کم عرصے میں انہوں نے مغربی معاشرے کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے متعدد کتابیں لکھیں اور خاص طور پر قرآن کریم کا جرمن زبان میں بہت سلیس اور عام فہم ترجمہ بھی کیا ۔ مراد ہوف مین 6 جولائی1931 ء کو اُسچا فنبرگ (جرمنی) کے ایک کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے نیو یارک میں یونین کالج سے گریجویشن کیا اور پھر میونخ یونی ورسٹی سے قانون کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ہارورڈ یونی ورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی۔ وہ نیٹوکے انفارمیشن اور الجزائراورمراکش میں جرمنی کے سفیر جیسی اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ ہوف مین نے 25 دسمبر 1980 کو اسلام قبول کیا۔قبول اسلام کے متعلق انھوں نے ماہنامہ الدعوۃ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ میں 1962ء میں الجزائر کے جرمن سفارت خانے میں تعینات تھا، اس دوران الجزائر کے باشندے اپنی جنگ آزادی لڑ رہے تھے اور وہاں کے دس لاکھ اہل ایمان نے آزادی کی خاطر اپنی جانیں قربان کردی تھیں۔ جس سے میں بہت متاثر ہوا اور میں نے اسلام کے متعلق پڑھنا شروع کیا۔جس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کردی تھیں۔پھر میں نے اسلام کو سمجھنے کے لیے عربی زبان سیکھی اور قرآن مقدس کو پڑھنا شروع کیا۔ جوں جوں میں اس کی گہرائیوں میں اترتا گیا، اس کے ساتھ تعلق خاطر پختہ سے پختہ تر ہوتا گیا۔ یوں اس کتاب انقلاب کے ساتھ میرا یہ تعلق قائم ودائم ہوگیا۔ یہ مقدس کتاب علم وفکر کا محور اور دل کی تمام بیماریوں کے لیے نسخۂ کیمیا ہے ۔ مراد ہوف مین نے ایک انٹرویو میں بتایا: ’’یوں اسلام نے میری روحانی ضرورتوں کو اطمینان اور یک سوئی کے ساتھ میری زندگی کو متوازن بنا دیا۔اور سب سے حیرت انگیز تجربہ یہ ہوا کہ قبولِ اسلام کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے مجھے گلے سے لگالیا۔ پھر جب میں نے نیٹوکےمشیر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تو اسلام کے خلاف مغرب کی سازشوں کا علم ہوا۔ ایک دن میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یورپ کی نوجوان نسل عیسائیت سے کیوں دُوری اختیار کرتی جارہی ہے؟ تو جواب ملا: ’’ان کو کسی متبادل کی تلاش ہے‘‘۔ اسی لیے میں نے1985 ء میں اپنی پہلی کتاب ایک جرمن مسلم کاروزنامچہ لکھی اور1993ء میں اسلام بطور متبادل شائع کی۔ اسلام بطور متبادل میں جب انہوں نے مغرب کو دعوت دی کہ آپ اسلام کے جھنڈے تلے ہی زندگی گزاریں تو جرمنی میں سیاست دانوں، پادریوں ، صحافیوں اور نام نہاد حقوقِ نسواں کے علَم برداروں نے ان کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں ’بنیاد پرست‘ کہا۔ ہوف مین سفارت کاری سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ ترکی منتقل ہوگئے اور اپنا سارا وقت دعوتی کام پر صرف کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی فکر وتہذیب کی پستی وزوال پر علمی سطح کا کام کیا مراد ہوف مین بین الاقوامی سطح کے علمی وفکری جرائد میں لکھتے رہے ہیں، جس میں برطانیہ کا Encounter اور American Journal of Social Science قابل ذکر ہیں۔ موصوف ’دی اسلامک فاؤنڈیشن‘ برطانیہ کے رسالے دی مسلم ورلڈ بک ریویو کے مستقل تبصرہ نگاروں میں شامل رہے ہیں۔ ان کی زیادہ تر کتابوں اور مقالات کا موضوع مغربی دنیا میں اسلام کی نمائندگی ہے۔ 13 جنوری 2020 کو ان کا انتقال ہوگیا۔ لیکن قبول اسلام کے بعد انہوں نے یورپ میں اسلام کی ترویج کے لئے جو کام کیا اور ہزاروں دلوں میں اسلام کی جو شمع روشن کی اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
|