ہزاروں خواہشیں ایسی
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
|
شبیر ابن عادل اب تو معاشرے میں رجحان یہ ہے کہ نوجوان جاب حاصل کرنے سے قبل ہی پُرتعیش یا لگژری زندگی گزارنے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ کار، بنگلہ اور اعلیٰ معیارِ زندگی، بے حساب پیسہ۔۔۔۔!!! جس میں بنیادی اہمیت پیزا، برگر اور اسی قسم کی چیزیں ہوتی ہیں اور ان کے آن لائن آرڈرہوتے ہیں۔ اِن کے علاوہ نوجوانوں کی جنسِ مخالف سے آزادانہ میل جول اور اس کے وسیع راستے، اپنا زیادہ تر وقت موبائل پر نازیبا سائٹس پر ویڈیوز دیکھنے میں گزارنا اور دیگر آرزوئیں اور خواہشیں۔ جو ختم ہی نہیں ہوتیں، اور بقول مرزا غالبؔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے میرے ارمان، لیکن پھربھی کم نکلے لیکن ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اپنی ان خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے بنیادی کام ہی نہیں کرتی اور نہ ہی اس کی امنگ ہے۔ یعنی اعلیٰ تعلیم کا حصول اور بہترین جاب یا کاروبار کے لئے عملی اقدامات۔ اُن میں سے اکثر کسی معجزے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ یعنی یا تو اگر باپ امیر ہے تو اس کی دولت، ورنہ کسی امیر لڑکی کے خوا ب، جس سے شادی کرکے دولت مل جائے یا پرائز بانڈ یا کوئی لاٹری نکل آئے۔ زندگی میں اس کمال کے ہونے تک ان کے مشغلے جاری رہتے ہیں اور عملی زندگی میں قدم رکھنے تک نوجوان اپنے اخراجات اتنے بڑھا لیتے ہیں کہ انہیں پچیس تیس ہزار روپے کی نوکری بے وقعت لگتی ہے اور اگر وہ ایسی نوکری کر بھی لیں تو اپنی شامیں فضول سے ریستورانوں میں گزار کر اور مضر صحت کھانے یا junk foods کے اخراجات میں مہینے کے ابتدائی دوہفتوں ہی میں اپنی تنخواہیں اُڑا دیتے ہیں۔ میرے ذہن میں اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہی زندگی ہے؟ کبھی نوجوانوں پر غصہ بھی آتا ہے۔ مگر اس میں ان کا کیا قصور ہے؟ ان کے والدین نے ان کی تربیت پر توجہ ہی نہیں دی، کیونکہ وہ بھی تربیت کے نا آشنا ہیں۔ اور نہ ہی اساتذہ یا کسی بھی ریاستی ادارے نے اپنے نوجوانوں کی تربیت اور انہیں زندگی کے اصل مقاصد سے آگاہ کیا اور اس حوالے سے کبھی کوئی پلاننگ کی ہی نہیں گئی۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم پر تو تھوڑی بہت توجہ دے دی جاتی ہے۔ مگر تربیت کے لفظ سے وہ نا آشنا ہیں یا دانستہ طور پر اس حوالے سے کچھ کرتے ہی نہیں۔ میڈیا کی طرف نگاہ ڈالیں تو تربیت تو بہت دور کی بات ہے، وہ نوجوانوں کو رقص و موسیقی اور عریانی اور فحاشی کے طوفان میں غرق کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ میں چالیس سال میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں) میں گزارنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میڈیا خاص طور پر ٹیلی ویژن ہمارے معاشرے کے لئے زہر سے زیادہ خوفناک ہے۔ جبکہ موبائل فون تو اس سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس میں سوشل میڈیا بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے معاشرے کے ہر فرد کو سوچنا چاہئے اور صرف سوچنا ہی نہیں بلکہ فکرمندی، دردمندی اور پوری تڑپ کے ساتھ اس حوالے سے عملی اقدامات کرنے ناگزیر ہیں۔ نوجوانوں کی صحیح سمت میں رہنمائی، معاشرے کے ایک مفید، ذمہ دار اور دوسروں کے کام آنے والے شہری کے طور پر ان کی تربیت اور اس حوالے سے دیگر عملی اقدامات میں بنیادی کام تو ریاست کا ہے۔ لیکن اگر ریاست خوابِ غفلت میں پڑی ہو تو ہمیں انتظار کرنا چاہئے کہ ریاست اور اس کے ادارے جب نیند سے جاگیں گے، تب ہی کچھ ہوسکے گا؟ نہیں، ریاست کے جاگنے اور ہوش میں آنے کا انتظار معاشرے کو مزید تباہی اور بربادی کی طر ف دھکیل دے گا۔ اس کے لئے ہر سطح پر مختلف نجی اداروں، جماعتوں اور تنظیموں اور لوگوں کو انفرادی طور پر اس سنگین مسئلے کا ادارک کرنا ہوگا اور اس کے تدارک کے لئے پوری دردمندی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اس سوچ کے ساتھ کہ گویا کسی کی لانچ سمندر میں ڈوب رہی ہو اور وہ اسے بچانے کی دیوانہ وار کوشش کررہا ہو۔ کیونکہ سمندر میں لانچ ڈوبنے کانتیجہ موت ہوتا ہے۔ اول تو اس امر کا ادراک کہ زندگی کیا ہے؟ کس نے ہمیں زندگی دی؟ اور ہمیں اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا؟ اس کا جواب کوئی سائنس دان، فلسفی یا دنیا کے ترقی یافتہ ملک کے نامور دانشور نہیں دے سکتے۔ بلکہ اس کا جوا ب اسی ذات سے مل سکتا ہے، جس نے نہ صرف انسان بلکہ پوری کائنات کو پید اکیا۔ یعنی ذاتِ باری تعالیٰ اور اُن کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔ ہمیں قرآن وسنت کے بنیادی ماخذ سے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہوں گے۔ نفسانی خواہشات کو پورا کرنا تو زندگی نہیں۔ ایسی زندگی تو حیوان بھی گزارتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ یعنی ہم سوچنے سمجھنے اور کسی کام کوکرنے یا نہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمار ے وجود کے دوحصے ہیں، جسمانی اور روحانی۔ ہم اپنی پوری زندگی جسمانی یا نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ جس سے ہمارا جسم تو طاقتور ہوجاتا ہے۔ مگر روح کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ روحانی بالیدگی کے لئے روح کو تسکین دینے والے اعمال ضروری ہیں اور ان کے بغیر روح کمزور ہی رہے گی۔ جسمانی غذا زمین سے حاصل ہوتی ہے اور روحانی غذا آسمان سے۔ اس بات کو سمجھیں۔ اپنے بچوں اور بچیوں یعنی نوجوانوں کو ہمیں اس بنیادی حقیقت سے آگاہ کرنا ہوگا۔ اس کام کے لئے پہلے تو افراد کو تیا رکیا جائے کہ وہ اس حوالے سے اپنے اپنے گھر وں میں کام کریں۔ بہت سے لوگ یہ کام پہلے سے کررہے ہیں۔ ان کو مزید واضح تصور دینا ہوگا۔ نوجوانوں کی اصلاح اُس طریقے سے تو نہیں ہوسکتی، جیسی مطلوب ہے۔ کیونکہ پورے معاشرے کا اسٹرکچر ایک خاص ڈگر پر چل رہا ہے اور شاید اس حوالے سے کوئی بھی کوشش بارآور نہ ہوسکے۔ لیکن کوشش کرنے میں کیاحرج ہے۔ نوجوانوں اور معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے مندرجہ ذیل حکمت عملی بھی مفید ثابت ہوسکتی ہے: مختلف ورکشاپس اور اجتماعات کے ذریعے نوجوانوں کو ان کی زندگی کا اصل مقصد یاد دلانا۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کیا چاہتے ہیں؟ یعنی متوازن اور مفید زندگی کیسے گزاری جائے ٭ انہیں یہ یقین دلایا جائے کہ قرآن و سنت پر عمل کرکے دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ دین پر عمل کا مقصد دنیا میں قلاش اور مفلوک الحال زندگی گزارنا نہیں۔ ٭ اس حوالے سے مختلف تعلیمی اداروں کو تیار کرنا کہ وہ طلبا وطالبات کی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں۔ ٭ ایسے خاندانوں کو وجود میں لانا، جو مطلوبہ زندگی گزاریں۔ یعنی ایسے نوجوان جن کا دنیا میں کوئی نہیں، جب وہ شادی کریں تو اپنے خاندان کی بنیاداسلام کے ابدی اصولوں پر رکھ سکیں یعنی ان کا گھر ہر لحاظ سے مثالی ہو، اس میں نہ تو ٹیلی ویژن ہو اور نہ موبائل فون کا دیوانہ وار استعمال۔ اگر ٹیلی ویژن ہو تو کیبل کی لعنت نہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹیلی ویژن، موبائل، لیپ ٹاپ، Tabاور جدید دور کی اس طرح کی اشیاء ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہیں۔ لیکن ایک مصیبت یہ ہے کہ ان کا استعمال مکمل طور پر ترک کرنا ممکن نہیں۔ ایسے خاندان اپنے بچوں کے پیدا ہوتے ہی ان کی تربیت پر پوری توجہ دیں۔ جب وہ تھوڑے بڑے ہوں تو قرآن سمیت ان کی دینی تعلیم کا پہلے بندوبست کریں۔ پھر انہیں اسکولوں میں داخل کرائیں۔ اور نام نہاد انگلش اسکولوں میں نہیں اور نہ ہی مخلوط تعلیم والے اسکولوں میں۔ مذکورہ خاندانوں کو اپنی زندگیاں اپنے بچوں کی مثالی تعلیم و تربیت پر وقف کرنا ہوں گی۔ اگر لوگ اپنے بجائے اپنے بچوں پر توجہ دینا شروع کردیں اور انہیں خود رو جھاڑیوں کی طرح نہ بڑھنے دیں بلکہ ایک مالی کی طرح کام کریں جس کی نظر ہر وقت پودوں پر ہوتی ہے انہیں کب پانی دینا ہے، کب دھوپ سے بچانا ہے، اگر ان کی شاخیں ادھر ادھر ہورہی ہوں تو انہیں کسی ڈوری سے باندھنا، اگر کچھ شاخیں فالتو ہوں تو انہیں تراشنا۔ مالی کی محنت سے گلشن گلشن بنتا ہے۔ اسی طرح ہمیں اپنے بچوں پر ہر پل توجہ دینا ہوگی۔ انہیں وقت کی آندھی سے بچانا اور ان کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کی ذمہ داری ہماری ہے کیونکہ وہ ہمارے بچے ہیں۔ لیکن بچوں کی تربیت کی عمر چھ سے چودہ سال کے درمیان ہوتی ہے، اگر آپ بچے کے پندرہ سال ہونے کے بعد اسے تربیت دینا شروع کریں گے تو وقت گزر چکا ہوگا ہرچیز کا ایک وقت ہوتا ہے بچوں کی تربیت کا مطلب انہیں مارنا پیٹنا ہرگز نہیں، کبھی کبھار جب وہ نہ مانیں تو انہیں مارا پیٹا بھی جائے لیکن بہت کم عمری سے بچوں کی ذہن سازی کی جائے اور ان کی پیدائش سے قبل ہی پہلے تو اپنے کردار اور افعال پر توجہ دی جائے اور ان کے پیدا ہونے کے بعد ہی ان کے سامنے ایسے کاموں سے گریز کیا جائے جو ناپسندیدہ ہیں اور اچھے کام کئے جائیں اور انہیں بہت پیار سے اچھی اچھی باتیں اور واقعات اور کہانیاں سنا کر ان کی تربیت کی جائے۔ بچے ایک سادہ کاغذ کی مانند ہوتے ہیں، آپ ان پر جو چاہیں لکھ سکتے ہیں لیکن ایک بار پھر بتادوں کہ ایک خاص عمر تک ان کی شخصیت اور ذہن سادہ کاغذ رہتا ہے اگر آپ اس پر کچھ نہیں لکھیں گے تو معاشرہ لکھ دے گا اور پھر آپ لاکھ کوششوں کے باوجود اسے مٹا نہیں سکیں گے۔ اس لئے دیر مت کریں اور ابھی سے آغاز کریں۔
|