رفع یدین کے مسئلہ پر ایک دلچسپ مباحثہ

یہ تحقیق بھی میرے نہایت محسن و محترم جناب علامہ اسید الحق عاصم قادری بدایونی دامت برکاتہم العالیہ کی ہے جو کہ ماہنامہ جام نور میں چھپ چکی ہے۔ اور اس کے علاوہ علامہ کی نئی کتاب تحقیق و تفہیم میں بھی یہ مضمون شامل ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

نماز میں کتنی بار رفع یدین کیا جائیگا؟ تکبیر تحریمہ کے وقت،رکوع میں جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت، دونوں سجدوں کے درمیان، دوسری رکعت کے شروع میں؟ اس سلسلہ میں متعدد اور مختلف روایات ہیں، جن سے رفع یدین کرنے یا نہ کرنے کی کل سات صورتیں بنتی ہیں۔ ائمہ مجتہدین نے ان مختلف روایات میں اپنے اپنے اصول ترجیح کے مطابق عمل کیا ہے،امام اعظم ابو حنیفہ نے حضرت سیدنا ابن مسعود کی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کو مسنون قرار دیا ہے،امام دار الھجرۃ امام مالک کا بھی یہی مسلک ہے،جبکہ امام شافعی اور امام اہل سنت امام احمد بن حنبل نے حضرت سیدنا ابن عمر کی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے تین مرتبہ (تکبیر تحریمہ،رکوع میں جاتے وقت،رکوع سے اٹھتے وقت)رفع یدین کو مسنون قرار دیا ہے،ان میں سے کسی بھی امام پر حدیث پاک کی مخالفت کا الزام نہیں لگایا جا سکتا کیوں کہ جس امام کے نزدیک جوحدیث پایۂ صحت کو پہنچ گئی انہوں نے اس پرعمل کیا ،لیکن بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ ان تمام روایات میں صرف سیدنا ابن عمر والی روایت درست ہے اور اگر کوئی امام دلائل کی روشنی میں کسی دوسری روایت پر عمل کرتا ہے تو گویا اس نے حدیث پاک کی مخالفت کی ہے-اسی قسم کے ایک انتہا پسند عالم سے امام زاہد الکوثری کی ایک دلچسپ گفتگو کا خلاصہ ہم یہاں پیش کرنا چاہتے ہیں۔امام زاہد الکوثری (م ۱۳۷۱؁ ھ)ترکی الاصل تھے اور عثمانی دار الخلافہ میں ایک معزز علمی عہدہ پر فائز تھے،سقوط سلطنت عثمانیہ کے بعد آپ قاہرہ(مصر) تشریف لے آئے اور آخر عمر تک یہیں قیام پذیر رہے،آپ ایک زبردست متبحر عالم ،قوی الحفظ محدث، وسیع النظر فقیہ،اور کثیر التصانیف محقق تھے-آپ کے تمام معاصرین نے آپ کی وسعت علم ،دقت نظر اور صلاح و تقویٰ کا اعتراف کیا ہے اور بعض حضرات نے آپ کو اپنے وقت کا ’’ابن عابدین شامی‘‘ قرار دیا ہے -آپ نے ’’عمل بالحدیث‘‘ کے مدعی ایک عالم کے ساتھ اپنی ملاقات اور مسئلۂ رفع یدین پر ان سے گفتگو کا دلچسپ واقعہ اپنی کتاب النکت الطریفہ میں تحریر فرمایا ہے،یہاں ہم اس کا آزاد ترجمہ پیش کرتے ہیں-

امام الکوثری لکھتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ مراکش کے ایک عالم مجھ سے ملاقات کرنے کے لیے تشریف لائے،انہوںنے بتایا کہ وہ پہلے مسلکی اعتبار سے مالکی اور طریقت میں تیجانی سلسلہ سے وابستہ تھے،مگر اب سلفی العقیدہ اور عامل بالحدیث ہیں،اس پر وہ اس طرح اپنی خوشی ومسرت کا اظہار کر رہے تھے کہ گویا پہلے گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے اور اب ہدایت کی روشنی میں آئے ہیں،انہوں نے مزید فرمایا کہ’’ہر جگہ امت اسلامیہ گمراہی میں مبتلاء ہے ،حدیث پاک کو چھوڑ کر ائمہ کے اقوال و آراء پر عمل کیا جا رہا ہے،لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اب کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں عمل بالحدیث کا جذبہ پیدا نہ ہوگیا ہو،سوائے آپ کے ملک(ترکی )کے ،یہاں اب تک لوگ تقلید کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں،لیکن آپ کے (یعنی امام الکوثری کے)بارے میں سنا ہے کہ آپ اہل حدیث ہیں ،لہٰذا میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کی زیارت کروں۔‘‘یہ کہہ کر موصوف نے بڑی گرم جوشی کا اظہار فرمایا-اب تک میں بالکل خاموش تھا،ایک لمحہ کے لیے میں ترددکا شکار ہوگیا،کیا اپنے بارے میں موصوف کے ’’حسنِ ظن ‘‘کو برقرار رکھوں یا ان کو اپنے مسلک کے بارے میں بتا کران کی ’’دل آزاری‘‘ کردوں؟۔پہلی بات یقینا دھوکا قرار پائیگی جو ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہے جبکہ دوسری صورت ’’الدین النصیحۃ‘‘ کے تحت آئیگی اور یہی مناسب ہے،۔لہٰذا میں نے عرض کیا کہ ’’محترم! آپ مسالک اہل سنت پر ترک حدیث کا الزام لگا کر انتہا پسندی سے کام لے رہے ہیں،جہاں تک مجھے معلوم ہے ان مسالک میں کوئی بھی مسلک ایسا نہیں ہے جو حدیث پر عمل پیرا نہ ہو، یہ الگ بات ہے کہ حدیث کا فہم اور علل حدیث کی معرفت ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے-لہٰذا یا تو آپ ان احادیث کی نشاندہی فرمائیںجن کو ترک کیا جا رہا ہے ورنہ ان مسالک کے ماننے والوں پر خواہ مخواہ ترک حدیث کا الزام لگانا کوئی مناسب بات نہیں ہے۔‘‘ اب آگے جو جملہ آرہا ہے وہ فقہ وحدیث میں امام الکوثری کی گہری نگاہ کا پتا دیتا ہے ،آپ نے فرمایا’’آپ جس مسئلہ میں چاہیں اور ( مسالک اربعہ میں سے) جس مسلک پرچاہیں میں بحث کرنے کو تیار ہوں،آپ ان مسالک میں کسی ایک ایسے مسئلہ کی نشاندہی کریںجس کے خلاف آپ کی نظر میں کوئی واضح حدیث موجود ہو؟یہ جملہ اگرچہ بلا قصد میری زبان سے نکل گیا تھا لیکن میرے مہمان نے کسی ایسے مسئلہ کا انتخاب نہیں کیا جو واقعی مجھے دشواری میں مبتلاء کر دیتا بلکہ انہوں نے فرمایا کہ’’آپ رکوع کے وقت رفع یدین کے مسئلہ ہی کو لے لیں،اس سلسلہ میں متعدد صحیح احادیث موجود ہیں -اس کے باوجود حنفی لوگ رفع یدین نہیں کرتے،کیا یہ حدیث کی مخالفت نہیں ہے؟‘‘-

میں نے (امام الکوثری نے)کہا کہ’’ اولاً تو آپ نے صرف حنفیوں کا نام لیا ہے حالانکہ اس سلسلہ میں امام مالک کا بھی یہی مسلک ہے اور امام سفیان ثوری جو کوفہ میں امام ابو حنیفہ کے مد مقابل تھے ان کا بھی یہی مسلک ہے،دوسری بات یہ کہ رفع یدین کے سلسلہ میں حضرت ابن عمر کی حدیث کے علاوہ باقی کوئی بھی حدیث ایسی نہیں ہے جس میں کوئی نہ کوئی علت نہ ہو،ان عللِ حدیث کی وضاحت الجوہر النقی اور نصب الرایہ وغیرہ کتب میں بالتفصیل موجود ہے،رہی حضرت ابن عمر والی حدیث تو اس پر عرض ہے کہ مجاہد اور عبدالعزیزالحضرمی کی روایت کے مطابق خود حضرت ابن عمر کا عمل اپنی روایت کے خلاف تھا،کسی صحابی راوی کا اپنی ہی روایت کے خلاف عمل کرنا ناقدین حدیث کے نزدیک خود ایک علت قادحہ ہے اور حضرت ابن مسعود کے بارے میں تمام رواۃ کا اتفاق ہے کہ انہوں نے ترک رفع یدین کی روایت کی ہے اور اس پر عمل بھی کیا ہے،حضرت ابن مسعود کی روایت یہ ہے۔’’ألااصلی بکم صلاۃ رسول اللہ ﷺ ، فصلی،فلم یرفع یدیہ الا فی أول مرۃ‘‘(کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھاؤں؟پھر آپ نے یعنی ابن مسعود نے نماز پڑھائی،اور پہلی مرتبہ (یعنی تکبیر تحریمہ ) کے سوا رفع یدین نہیں کیا) یہ حدیث سنن نسائی ،ابو داؤد اور ترمذی میں ہے ،اسی معنیٰ کی اور بھی متعدد احادیث ہیںمثلاً سنن ابی داؤد میں حضرت براء کی یہ حدیث ’’کان النبی ﷺ اذا افتتح الصلاۃرفع یدیہ الیٰ قریب من اذنیہ ثم لا یعود‘‘(نبی ﷺ جب نماز شروع کیا کرتے تھے تو کانوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے پھر دوبارہ نہیں اٹھاتے تھے)یہ سن کر میرے مہمان نے فوراً اعتراض کیاکہ’’ثم لا یعود (پھر دوبارہ نہیں اٹھاتے تھے) کے لفظ کے ساتھ جو روایت ہے اس میں یزید بن أبی زیاد منفرد ہیں‘‘ ۔ اس پر میں نے کہا کہ ’’ ہاں!بعض لوگوں نے اس روایت پر یہ اعتراض کیا ہے لیکن اس کی متابعت حکم بن عتیبہ اور عیسیٰ بن أبی لیلیٰ کی روایات سے ہوتی ہے جو ابو داؤد ،طحاوی اور بیہقی میں موجود ہے،اور یہ دونوں ثقہ ہیں،اس کے علاوہ ہشیم ،اسماعیل بن زکریا اور یونس وغیرہ کے متابعات بھی موجود ہیںلہٰذا یزید بن أبی زیاد کے منفرد ہونے کو علت قرار دینا درست نہیں ہے-‘پھر میں نے اپنے مہمان کو الجوہر النقی،امام العینی کی بنایہ اور علامہ الاتقانی کا رسالہ وغیرہ دکھایاجس میں اس مسئلہ کے واضح دلائل موجود ہیں،اس کے بعد میں نے کہاکہ’’اب شاید آپ کو معلوم ہوگیا ہوگاکہ ترک رفع یدین احادیث صحیحہ صریحہ کے مخالف نہیں ہے بلکہ دونوں جانب (یعنی رفع یدین اور ترک رفع یدین) حدیث کی روشنی میں دلائل موجود ہیں،علامہ ابن قیم نے ان مسائل میں اپنی شدت پسندی کے باوجوداپنی بعض کتب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے، لیکن آپ تو علامہ ابن قیم سے بھی بڑھ کر شدت پسند ی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ ترک رفع یدین کو ان مسائل میں شمار کرتے ہیں جن میں بالکل واضح طور پر حدیث کی مخالفت کی گئی ہے،بلکہ امام ابن ابی شیبہ نے بھی اس مسئلہ کو ان مسائل میں شمار نہیں کیا ہے جن میں ان کے نزدیک امام ابو حنیفہ نے حدیث کی مخالفت کی ہے گویا امام ابن ابی شیبہ بھی اس اختلاف کے باوجود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ترک رفع یدین حدیث کے مخالف نہیں ہے‘‘اس گفتگو کے بعد میرے مہمان کو یقینا اس بات کا علم ہو گیا ہوگا کہ میں ان کی’’ مفروضہ اصطلاح ‘‘میں اہل حدیث نہیں ہوں- (۱)
(جامِ نور جنوری ۲۰۰۶ء)
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 440392 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.