جنید بغدادی :آپ کا نام جُنیدبن محمد ہے ،نسبت بغدادی،
کنیت ابوالقاسم ہے اورالقابات سیِّدُ الطائفہ،طاؤس العلماء ، اور لسانُ
القوم ہیں ۔ولادتِ ۲۱۸ھ ۔میں بغداد شریف میں ہوئی،آپ کے والد حضرت سیِّدُنا
محمد بن جنید شیشہ کی تجارت کرتے تھے اور نہاوند کے رہنے والے تھے ۔ حضرت
جنید شروع میں بھی یہی تجارت کرتے تھےاسی نسبت سے آپ کے نام کے ساتھ زجاج،
اور قواریری کی نسبت بھی لگائی جاتی تھی (یعنی:شیشے کا کام کرنے والا ) اور
اس وقت آپ کا معمول تھا کہ بلاناغہ اپنی دوکان پر تشریف لے جاتے اوروہاں
روزآنہ تین سو یا چار سو رکعت نماز نفل ادا کرتے،اور تیس ہزار تسبیح پڑھا
کرتے تھے ،پھر آپ نے اپنی دکان کو چھوڑ دیا اور اپنے شیخ حضرت سری سقطی کی
بارگاہ میں حاضر ہوئے جو آپ کے ماموں تھے اور ایک عظیم ولی تھے اور ان کے
مکان کی ایک کوٹھڑی میں خلوت گزیں ہو کر چالیس سال تک اللہ تعالی کی عبادت
کی،آپ کا معمول تھا کہ عشاء کی نماز کے بعدروزآنہ چار سو رکعت نفل پڑھا
کرتے تھے بیس سال تک آپ کا معمول رہا کہ ہفتے میں صرف ایک دن کھانا کھاتے
تھے ۔(طبقات الشافعیۃ الکبری للسبکی ، ج:۲،ص:۲۶۰)
جنیدبغدادی کا عشقِ الہی :
سید الطائفہ حضرت جنیدبغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیمار ہوئے ۔ آپ کا
قارورہ (یعنی پیشاب )ایک طبیب نصرانی کے پاس گیا ۔ بغور دیکھتا رہا پھر
دفعتاً (یعنی اچانک )کہا : اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہﷺ لوگو ں نے سبب پوچھا ۔
کہا:''میں دیکھتاہوں یہ قارورہ ایسے شخص کا ہے جس کا جگر عشقِ الٰہی (عَزَّوَجَلَّ)نے
کباب کر دیا ۔''(ملفوظات اعلی حضرت:ص:۱۵۷)
جنیدبغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایمانی فراست
یمن کے ایک نصرانی (یعنی عیسائی)نے یہ صحیح حدیث سُنی کہ حضور اقدسﷺ فرماتے
ہیں :اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہ، یَنْظُرُ
بِنُورِاللہ۔مسلمان کی فراست سے ڈروکہ وہ اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے نور سے
دیکھتا ہے۔ اس نصرانی نے چاہا کہ امتحان کرے ، ادھر کے نصاریٰ زُنَّار
باندھتے ہیں ، اس نے زنار نیچے چھپایا اور اوپر مسلمانی لباس پہنا ، عمامہ
باندھا اور مسلمان بن کر مشائخ کرام کی مجلسوں پر دورہ شروع کیا ۔ ہر ایک
کے پاس جاتا اور حدیث کے معنی پوچھتا ۔ وہ کچھ فرمادیتے، یہ دوسرے کے پاس
حاضر ہوتا ۔ یوں ہی بغداد شریف آیا اور حضرت سید الطائفہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کی مجلسِ وعظ میں حاضر ہوا ۔ عرض کی: ''یا سید ی ! اس حدیث کے معنی کیا
ہیں :'' اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہ، یَنْظُرُ بِنُورِ اللہ''
فرمایا :اس کے یہ معنی ہیں کہ'' زنار توڑ اور نصرانیت چھوڑ ، اسلام لا۔ ''
وہ یہ سنتے ہی بے تاب ہوا اور کلمہ شہادت پڑھا ۔اور کہا: ''یاسیدی میں اتنے
مشائخ کرام کے پاس گیا اور کسی نے مجھے نہ پہچانا ۔ '' فرمایا :سب نے
پہچانا ، مگر تجھ سے تَعَرُّض نہ کیا ( یعنی پوچھ گچھ نہ کی) کہ تیرا اسلام
میرے ہاتھ پر لکھا ہے ۔ (ملفوظات اعلی حضرت:ص:۱۵۷)
انتقال کے وقت کا منظر :
ابوبکر عطار کہتے ہیں :حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے انتقال
کے وقت میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ وہی موجود تھا ،آپ اس کیفیت میں بھی
بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے ،حتی کہ جب پیروں سے جان نکل گئی ، پاؤں کو آپ
حرکت نہیں دے پارہے تھے تب بھی آپ نے نماز جاری رکھی جب آپ نے سلام پھیرا
تو حضرت ابو محمد جریری نے آپ سے کہا :اگرآپ اب کچھ دیرکے لیے لیٹ جاتے
تو اچھا تھا ۔آپ نے فرمایا :اللہ اکبر !اے ابو محمد !یہ وقت فائدہ اٹھانے
کا ہے ،اور اسی طرح ذکر اللہ کرتے ہوئے آپ کا انتقال ہو گیا ۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وصال ماہِ شوّال میں بروزِ ہفتہ ۲۹۷ھ۔ یا
۲۹۸ھ۔میں ہوا ۔ آپ کامزار بھی بغداد شریف میں شونیزیہ کے علاقے میں واقع
ہے۔(طبقات الشافعیۃ الکبری للسبکی ، ج:۲،ص:۲۶۰)اللہ تعالی ہمیں سید الطائفہ
کے فیضان سے دنیا و آخرت میں مستفیض فرمائے!
|