امریکہ میں ٹرمپ کے حامی کپیٹل ہل پرحملہ آورتھے اورعین اسی وقت ایک امریکی
این جی اواسلام آبادمیں جمہوریت کے حوالے سے سیمینارمنعقدکررہی تھی جس میں
ملک بھرسے ایک درجن سے زائدمختلف مسالک کے علماء کرام جبے اورقبے پہنے
امریکی جمہوریت کی تعریف میں زمین اورآسمان کے قلابے ملارہے تھے ،یہ ،،مولوی
نما ،،مخلوق بقول ان کے کچھ عرصہ قبل ہی مشرف،، باجمہوریت ،،ہوئے تھے ورنہ
اس سے قبل وہ جمہوریت کوباطل کہتے تھے ، خدانخواستہ اگرامریکی این جی
او،،پیس اینڈایجوکیشن فاؤنڈیشن ،،انہیں اس حوالے سے آگہی فراہم نہ کرتی
تودنیاکے ساتھ ساتھ ان کی آخرت بھی خراب ہوجاتی اب یہ سارے فرحاں وشاداں
تھے کہ اس این جی اوکی بدولت انہیں دونوں جہانوں میں کامیابی کاپروانہ مل
گیاہے ۔
یہ پیس اینڈایجوکشن فاؤنڈیشن کاکمال ہے کہ ان کے نزدیک کچھ عرصہ قبل دہشت
گردی پاکستان کابہت بڑامسئلہ تھی خاص کرکے مذہبی دہشت گردی ۔ورنہ دہشت گردی
توآج بھی ہورہی ہے بلوچستان سے ضم شدہ قبائلی اضلااع تک آئے روزسیکورٹی
فورسسزاورمعصوم لوگ نشانہ بن رہے ہیں مگرفنڈزمذہبی دہشت گردی کی مذمت کے
لیے ملتے تھے اس لیے آج ہونے والے دہشت گردی کے خلاف یہ کوئی
سیمیناراورورکشاپ منعقدنہیں کرتے ،دہشت گردی کے حوالے سے ان کی اپنی ایک
خاص تعریف ہے جس طرح امریکہ میں ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے کانگریس پرحملہ
جمہوری اقدارکے منافی نہیں اسی طرح پاکستانی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے
دہشت گردی نہیں اگرچہ ان حملوں میں ہزاروں بے گناہ بوڑھے ،بچے اورعورتیں
نشانہ بنیں ۔
گزشتہ چندسالوں میں پیس اینڈایجوکیشن سمیت دیگراین جی اوزنے ایک خاص ایجنڈے
کے تحت مدارس اورعلماء کے خلاف زہریلاپروپیگنڈہ کیا مدارس اورعلماء کاتعلق
دہشت گردی سے جوڑادینی مدارس کے خلاف جھوٹی رپورٹس بنابناکراپنے آقاؤں
کوبھیجیں اورلاکھوں ڈالرکے فنڈزحاصل کیے اگرچہ ان فنڈزسے چندخاندانوں
کوتوفائدہ ہوامگرریاست پاکستان اوردینی اداروں کاشدیدنقصان پہنچایہ ان ہی
منفی رپورٹس کانتیجہ ہے کہ آج ہم ایف اے ٹی ایف کی شکنجے میں ہیں جس کے
بعدوقف املاک ایکٹ جیسے کالے قوانین نافذکیے جارہے ہیں اورجہادی تنظیموں کے
رہنماؤں کوگرفتارکرکے ان پرجھوٹے مقدمات بنائے جارہے ہیں یہ این جی
اوزاوران کے کارندے خو ش ہیں کہ انہوں نے ریاست پاکستان اورمدارس کی بڑی
خدمت کی ہے ۔
ادارہ امن وتعلیم نے دہشت گردی کے بعد نصاب میں تبدیلی کی مہم شروع کی اور
اس حوالے سے ایسی سفارشات پیش کیں جواسلام ،نظریہ پاکستان اورہمارے آئین کے
سراسرخلاف تھیں مگرموجودہ حکومت نے برسراقتدارآنے کے بعد نصاب تبدیلی کے
حوالے سے ان سفارشات پرکافی حدتک عمل کیاہے اورباقی جورہ گئی ہیں ان پربھی
پیش رفت جاری ہے یکساں نصاب کاجھانسہ بھی اسی مہم کاحصہ ہے ان کی کوشش ہے
کہ مسلم نوجوانوں اوراسلامی معاشرے سے مزاحمت کے جذبے کوختم کردیاجائے کیوں
کہ مسلمانوں کی مزاحمت کی طاقت سے یہ استعماری طاقتیں خوفزدہ ہیں اس لیے وہ
مسلمان ممالک کے نصاب تعلیم سے عزیمت ،جہاد،ناموس رسالت اورمزاحمت کوکھرچنے
کی کوشش کررہے ہیں ،اس کے لیے بناوٹی ملاں تیارکیے جارہے ہیں جویہ
باورکروارہے ہیں کہ نصاب تعلیم میں یہ تبدیلیاں نہ کی گئیں توہم بہت پیچھے
رہے جائیں گے ۔
ؒ
اب جمہوریت ان این جی اوزکے نشانے پرہے ،اس وقت اسلام آبادسے کراچی تک
جمہوریت کے فروغ کے لیے مختلف تنظیمیں پروگرامات منعقدکررہی ہیں ان
پروگرامات میں خاص طورپرمولوی نمامخلوق کو بڑے اہتمام سے بلاکرانہیں
جمہوریت کادرس دیاجارہاہے پیس اینڈایجوکیشن کے ڈائریکٹرغلام مرتضی نے مجھے
بتایاکہ ہم آٹھ سوسے زائد علما کرام و مذہبی قائدین کوجمہوریت مشن کاحصہ
بناچکے ہیں ملک میں لاکھوں علماء کرام میں سے یہ آٹھ سووہ خو ش نصیب ہیں کہ
جنھیں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جمہوریت کے چیمپئن ہونے کاسرٹیفیکٹ جاری
کیاہے حالانکہ یہ سارے ملک کرالیکشن میں حصہ لیں توآٹھ سوووٹ بھی حاصل نہیں
کرسکتے کیوں کہ بڑے ہوٹلوں میں این جی اوزکے خرچ پرجمہوریت کاسبق پڑھناآسان
ہے جبکہ عوام میں رہے کرعوام کی خدمت کرنا ،عوام کی بات کرنا عوام کے حقوق
کے لیے سڑکوں پرنکلنا اوراس راستے میں صعوبتیں برداشت کرنامشکل ہے ۔
گزشتہ تین سالوں میں اسلامی نظریاتی کونسل نے ان این جی اوزکوکافی مددفراہم
کی کیوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی چھتری تلے متعددپروگرامات منعقدکیے گئے
اورہورہے ہیں اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے اس کی آڑمیں بین
الاقوامی ایجنڈے کوآگے بڑھانے اورفروغ دینے کامقصدیہ تھا کہ کسی کواعتراض
نہیں ہوسکتاتھا اس حوالے سے ضروری تحقیقات ہونی چاہیے کہ اسلامی نظریاتی
کونسل نے غیرملکی این جی اوزکے ساتھ جومعاہدے کیے ان کی کیاحیثیت ہے
اورآئین وقانون میں اس کی گنجائش موجود تھی ؟
ان ورکشاپس اورسیمینارزمیں امریکی جمہوریت کی مثال دے کرعلماء کویہ
باورکرایاجارہاہے کہ امریکہ کی بنیاد جمہوری روایات پر رکھی گئی ہے، جہاں
کی جمہوری روایات اور جمہوری نظام دنیا کے متعدد مملک میں بطور ماڈل اپنایا
گیا اور امریکہ گذشتہ کئی دہائیوں سے مشرق وسطی، افریقی اور ایشیائی ممالک
میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور اس کو بنیاد بنا کر کئی
ممالک جیسا کہ عراق، شام، ویتنام اور افغانستان کوتباہ وبربادکرچکاہے ،
مگردودن قبل امریکیوں نے وہ جمہوری تماشالگایاکہ ہمارے ملک کے یوتھیے بھی
شرماگئے ،کیوں کہ 2014 کے دھرنے کے دوران پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان
عوامی تحریک کے حامیوں نے بھی پارلیمان اور پی ٹی وی کی عمارت پر اسی طرح
کاحملہ کیاتھامگرفرق یہ تھا کہ ٹرمپ کے حامیوں نے طاقتورحلقوں کی ایماء کے
بغیریہ حملہ کیا ۔
این جی اوزکی بھرپورمحنت اورجدوجہدکے باوجود بھی ملک پاکستان میں جمہوری
مخالف قوتیں موجود ہیں مگران کی ہمت نہیں کہ یہ ان کے خلاف آوازاٹھائیں اس
وقت بھی جمہوری وزیراعظم کٹھ پتلی بن چکاہے جس کے پاس اقتدارہے اختیارات
نہیں ہیں اگراسی قسم کی جمہوریت کے فروغ کے لیے یہ ساری مشقیں کی جارہی ہیں
توپاکستانی اس سے ویسے بھی عاجزآچکے ہیں اوراگرٹرمپ والی جمہوریت کوفروغ
دیناہے تویہ جمہوری تماشاہم بہت پہلے دیکھ چکے ہیں ،یہ این جی اوزآمریت کے
دورمیں خوب پلتی پھولتی ہیں کبھی بھی آمریت کے خلاف پروگرام نہیں کرتیں ۔
جہاں تک علماء کوجمہوریت کاسبق پڑھانے کی بات ہے توجمعیت علماء اسلام
پاکستان کے سربراہ مولانافضل الرحمن اوران کی جماعت اول دن سے عملی
طورپرعلماء کوجمہوریت کاسبق پڑھارہی ہے اس وقت بھی تین لاکھ سے زائدعلماء
کرام وبزرگان دین مولانافضل الرحمن کے ساتھ کھڑے ہیں امریکہ کواپناسب سے
بڑاایوارڈمولانافضل الرحمن کودیناچاہیے کہ جومدارس اورعلماء میں رہتے ہوئے
بھرپورجمہوری جدوجہدکررہے ہیں اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کے متفقہ
قائدہیں مولانافضل الرحمن نے تمام ترپروپیگنڈے اورہتھکنڈوں کے باوجود
جمہوریت اورآئین کے راستے کونہیں چھوڑاجبکہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ
امریکی ویورپی این جی اوزلاکھوں ڈالرخرچ کرکے بھی جمہوریت کے فروغ کے لیے
کوئی کرداراادانہیں کرسکی ہیں کوئی ایک ایسامولوی تیارنہیں کرسکی ہیں
جویونین کونسل کی سطح کاالیکن جیت سکے ۔
ملک میں بے شمارافرادہیں جوجمہوریت کونہیں مانتے اوران کایہ طرزعمل بھی
جمہوری معاشرے کاحصہ ہے کیوں کہ جمہوری معاشرے میں کوئی کسی پرجبرنہیں
کرسکتاہرکسی کوآزادی اظہارکاحق ہے اگروفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں لال
مسجدکے مولاناعبدالعزیزآج بھی ببانگ دہل جمہوریت کوکفریہ نظام کہتے ہیں
توآپ انہیں ذبردستی جمہوریت پرایمان لانے پرمجبورنہیں کرسکتے ،اگران حالات
میں بھی کوئی خلافت یااسلامی نظام کی بات کرتاہے تویہ اس کابنیادی حق ہے
اوراختلاف رائے جمہوریت کاحسن ہے ان ڈالرخوراین جی اوزسے یہی کہیں گے کہ آپ
جمہوریت کادرس ضروردیں مگرامریکی تابعداری پرمجبورنہ کریں ۔
|