پروفیسراظہرمحمودتنہا
احاطہ تجھ سے ہے ممکن کہاں مرے غم کا
زمینِ درد کا میں آسمان ٹھہرا ہوں
’’زندگی کی یہ کتاب تو ایک بارملتی ہے، اِس کے ہرصفحے پر بھی خوشیاں کون
لکھ سکتاہے۔‘‘
متذکرہ شعر اور دیباچہ میں حسرت کے کرب سے معمورپہلی ہی سطر ضلع ا ٹک کے
جواں سال مگر نادار، مفلوک الحال اور معذور شاعر خالدبیزار کی ہے۔ اُس کے
واحد شعری مجموعہ ’’چاندنی سے دِیاجلاتے ہیں‘‘ کی شاعری اسی المیے،
ناآسودگی اور دردوکرب کی غماز ہے جوخالدبیزار کی پوری زندگی کااحاطہ کیے
ہوئے ہے۔ مجموعہ کے دیباچہ میں خالد بیزار اپنے نظریۂ شعر کی بابت خودرقم
طراز ہیں:
’’شعرمیری فطری اظہار کی اساس ہے۔ میں نے زخموں پر سیاست کرنے والی رسموں
سے بغاوت کا یہ فن اپنے اسلاف سے پُرنورعقیدت کے صلے میں حاصل کیا ہے۔ یہی
نہیں، میں نے جبرکی آندھی کے مقابل مزاحمت کے چراغوں کوجلادینے کی روایت
کوسحرتاب کیا ہے۔ میں نے ہمیشہ گھر بچانے کی تگ ودو تو کی ہے مگراپناکوئی
خواب بچانے کی کوشش نہیں کی ہے۔‘‘ (مشمولہ دیباچہ، ص ۹،۸)
۲۰۱۹ء میں ادارہ جمالیات پبلی کیشنز اٹک کے زیرِ اہتمام پہلی بارچھپنے والا
یہ شعری مجموعہ ((چاندنی سے دِیاجلاتے ہیں) ایک ایک حمد، نعت،سلام، تین
آزادنظموں اور انتالیس (۳۹) غزلیات پرمشتمل ہے۔ جس کاانتساب ’’والدہ کے
نام‘‘ ہے۔ دیباچہ خودشاعر خالدبیزار نے تحریر کیا ہے۔ مجموعہ کے مرتبین میں
شہزادحسین بھٹی کامضمون بہ عنوان ’’ہم اِسی شہر کے ستائے ہیں‘‘ اور اقبال
زرقاش کے ’’عرضِ مرتب‘‘ کے علاوہ افسانہ نگاروشاعرارشادعلی کا مضمون
’’رنگوں کی برسات‘‘ بھی شامل ہے۔ جبکہ فلیپ مشہورماہرِ تعلیم اور اٹک کے
نمائندہ شاعر مشتاق عاجز، شاعروپروفیسرنصرت بخاری اور شاعرطاہراسیرکی
تحسینی آراسے مزین ہے۔
خالدبیزار تلخیِ حالات کاپیداکردہ احساسات اور جذبات کا نہایت حساس شاعر
ہے۔ (اگرچہ تخلیق کار سبھی حساس ہوتے ہیں) اس لیے اُس کی ذات اور
اشعاردونوں قابلِ توجہ اورجاذبِ فکر ہیں۔ اس نے روایتی اندازِ شعر اور
موضوعات کے علاوہ اپنے ذاتی ماحول اور اطراف میں بسنے والے دکھوں میں ڈوبے
اور محرومیوں کاشکارانسانوں کے مسائل ومصائب کی سفارت کاری بھی کی ہے۔
میرتقی میر کے شعری مصرعے ’’سراُٹھاتے ہی ہوگئے پائمال‘‘ کے مصداق
خالدبیزار کی زندگی بھی لڑکپن سے جوانی تک مختلف نوعیت کے دکھوں،محرومیوں
،ناکامیوں اورحسرتوں کی کھلی کتاب کی مانند ہے۔’’چاندنی سے دِیاجلاتے ہیں‘‘
کی مستعارچاندنی دراصل باحسرت آنسوؤں اورالم ناک یادوں کی چاندنی ہے جس سے
شاعر نے جِلا بھی پائی ہے اور باقی عمر بھی بسرکرنی ہے۔ یہ کہاجاسکتا ہے کہ
خالدبیزار کی شاعری اِس عہد کاالمیہ بھی ہے اورآئینہ بھی کہ جس کے تناظر
میں ہم اپنے رویوں اور ان کے نتیجے میں پیداہونے والی کرب ناکی اور بربادی
کی متفرق تصاویر صاف طورپر دیکھ سکتے ہیں۔
ادب ایک نفسیاتی عمل ہے اور درحقیقت شخصیت کے اظہار کانام ہے۔اچھی شاعری بے
شک کسی مخصوص نظریے پرپوری نہ بھی اترتی ہو، پھر بھی اُس کی عظمت پرکوئی
فرق نہیں پڑتا۔ اصلی ادیب ہمیشہ اپنی ذات اور کائنات کے ساتھ سچااورمخلص
رہتاہے۔ ادیب سماج کاایک جزوہونے کی بناپر چوں کہ سماج ہی میں پلتابڑھتا
ہے، اس لیے اس کی حسیات پربدلتی ہوئی سماجی ومعاشرتی اورمعاشی صورتِ حال کے
گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو بہ ہرطور اُس کی تخلیقات میں جگہ پاتے ہیں۔
ڈاکٹر شارب ردولوی بہترین ادب کے متعلق یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں:
’’بہترین ادب کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ اجتماعی خواہشات کی تکمیل کرے۔
ہر شخص کواُس کے ذوق اور معیار کے مطابق ذہنی سکون پہنچائے اوراچھے خیالات
اور صحت بخش تصورات پیش کرے۔ یہ بات اُسی وقت ہوسکتی ہے جب ادب اپنے سماجی
ماحول، تہذیبی، اخلاقی اورمعاشرتی قدروں سے ہم آہنگ ہو۔‘‘ (جدیداُردوتنقید،
اصول ونظریات، لکھنو، اُردواکادمی، ۱۹۷۷ء،ص۲۷)
خالدبیزار کی غزل اُس کی پوری شخصیت کی جلوہ گاہ ہے۔ اُس کی اِس شعوری
شاعری سے اُس کی نارسا آرزوؤں اور بیزاری کے بھرپورتجزیے کے علاوہ اُس کی
شخصیت اورمزاج کی تفہیم بھی ممکن ہے۔ نیزاس سے اُس کے شعری ماحول کی جزئیات
اور متعلقات سے آگاہی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ کسی بھی اچھے شاعر کی طرح اُس
کاروایتی رنگِ شعر بھی دل کش اور مہک دار ہے۔ کچھ غزلیں اور اشعارالگ الگ
اوراپنی جگہ مکمل اکائی ہونے کے باوجود بھی ایک ہی طرح کاموڈ اور کیفیت لیے
محسوس ہوتے ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ خالدبیزار کی غزل اپنی عمومی اور
مجموعی فضا کے اعتبار سے روایت کی پابند نظرآتی ہے۔ اس کے محدود موضوعات کے
سوتے اُس کی ذاتی محسوسات اوراردگردکے ماحول ہی سے پھوٹے ہیں۔
چندمنفرداشعاردیکھیے:
وہ ایک جنبشِ ابرو پہ مل گیا تھا ہمیں
یوں ایک پل میں ملی ہوگی کائنات کسے؟
ہے تیرے طرزِ تکلم کی معترف دنیا
تری زبان سے نکلے تو بات رقص کرے
میکدے پاتے ہیں ترتیب ادا سے تیری
دوستی چاند سے، صہبا سے، صبا سے تیری
میرا، تیرے شباب سے رشتہ
شب کا جو ماہتاب سے رشتہ
البتہ سماج کی کجیوں اور رویوں کی ناہمواری کے بیان میں غزل کے مزاج اور
اسلوب کے برعکس کہیں کہیں خالدبیزار دوٹوک اور واضح انداز میں بات
کرتانظرآتاہے جس سے بعض اوقات تکرار اور سپاٹ پن کارنگ ابھرآیا ہے۔ جبکہ
تقابل اورتضاد کے وقت معاشرتی اور سماجی رویوں کا بیان چوں کہ اُس کے ذاتی
تجربات واحساسات اور اطراف کے مشاہدے سے صورت پذیر ہوا ہے،زیادہ جان دار
اور دل کش محسوس ہوتاہے۔ یہ سب اُس کی بپتا ہے، اس لیے اس میں خلوص اور
تاثیرزیادہ محسوس ہوتی ہے:
افسوس کوئی ایک بھی پورا نہ ہوسکا
آنکھوں نے کتنے خواب سجائے تھے عید پر
بعداز فنا بھی قبر پہ روتی رہی قضا
میری طرح شباب میں اجڑا کوئی نہیں
میری ناداریوں میں مجھے تم، اجنبی جان کر جارہے ہو
اجنبی ہیں مگر آشنا تھے، اک زمانے سے پہلے ،یہ سوچو
زندگی جب بھی پکارا تُو نے مشکل میں ہمیں
پا برہنہ ہم چلے آئے تری آواز پر
بیزارؔ اِن ستارہ شناسوں کے شہر میں
چہرے کھلی کتاب ہیں، پڑھتا نہیں کوئی
خالدبیزار محنت سے روزی کمانے کاآرزومند اورباعزت شہری کی سی زندگی گزارنے
کے خواب رکھتا ہے۔ وہ اس خودغرض اور مفادپرست زردار معاشرے میں مساوات اور
یکساں انسانی حقوق کاخواہاں ہے:
قبلے کی طرح اپنا قبیلہ ہو ایک بس
اس کے علاوہ میرا تو سپنا کوئی نہیں
مگر خودپسند اورزرپرست معاشرے اور مقتدرطبقوں کے گھناؤنے اورقبیح اقدامات
نے سماج کواندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ ایسے میں خالدبیزار جیسے بے بس مگر
ہمدرد اور پُرخواب تخلیق کار کے لیے معتبر سماجی مقام اور باعزت شہری بننے
کی جملہ راہیں مسدود ہوکررہ گئیں:
کھدر کی پوشاک کی کوئی قدر نہیں
ریشم کے ہر سوٹ کی تیرے شہر میں ہے
اُس نے جس شہر میں بیچا مجھے خالد بیزارؔ
اُس میں قیمت بھی مروت کی کہاں لگتی ہے
ہر ایک شخس کا مجھ سے سلوک تاجر سا
میں جیسے شہر کی کوئی دکان ٹھہرا ہوں
ادب اور ادبی قارئین کے لیے نہ صرف یہ ایک المیہ ہے بلکہ لمحۂ فکریہ بھی ہے
کہ آج کی تاریخ میں ایک بے کس، مفلوک الحال اور جواں سال معذورشاعر
خالدبیزار جسے اپنے والدین کے بڑھاپے میں اُن کاواحدسہارا اور دست و بازو
بنناتھا، اُن کی ضروریات اور آسائشات کی ذمہ داری اُٹھانی تھی مگر اس کے
برعکس اُس کی بوڑھی، ناتواں اور لاچار جنت (ماں) اس معذورکوریڑھی میں ڈالے
ایک بھکارن کی طرح گلیوں گلیوں رُلتی دکھائی دیتی ہے۔ اسی لیے خالدبیزار
اور اس جیسے کئی تخلیق کار مروجہ غیرمنصفانہ سماجی ومعاشی رویوں کی پیداوار
اورمعاشرے کی مجرمانہ بے توجہی اوردھتکار کی جیتی جاگتی تصاویر ہیں۔
شہزادحسین بھٹی نے اپنے مضمون ’’ہم اِسی شہر کے ستائے ہیں‘‘ میں خالدبیزار
کواٹک کاساغرصدیقی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
’’خالدبیزار شعروسخن کااَن تھک راہی آج بیماری، معذوری اور غربت وافلاس کی
چکی میں پس کرریزہ ریزہ ہوچکا ہے۔ چالیس سالہ تعلیم یافتہ یہ شاعرزمانے کی
ناانصافیوں، بے روزگاری اور مفلوک الحال زندگی گزارتے گزارتے بسترِ مرگ پر
پڑا ہوا ہے۔ نیز مقامی داعیانِ ادب اُن کا کافی کلام طباعت کی غرض سے اس کے
والدین سے ہتھیاچکے ہیں۔‘‘ (مضمون مشمولہ مجموعہ ،ص۱۳)
غربت، پس ماندگی اور ناآسودگی کے شکارخالدبیزار کااحساسِ محرومی اُس کی غزل
اورنظم دونوں میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ اُس نے حالات کی سنگینی اور
ناانصافی کی متفرق صورتوں کا جامع تجزیہ کیا ہے۔ زمانے کی بے حسی، فرد کی
ناقدری اور سماجی تفاوت کے کئی پہلوؤں کی نقش کشی کی ہے جس سے بہ خوبی
اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ غربت، معاشی بدحالی اور بے بسی وتنہائی ایک عام
آدمی خصوصاًشاعر کی زندگی پر کیسے کیسے اثرات چھوڑتی ہے اور کیسے کیسے کرب
وبلا کاشکاربناتی ہے۔ خالدبیزار کی تلخ زندگی اور شاعری دونوں اس پرعین
شاہد ہیں:
بڑھاؤں ہاتھ ملانے کو، کاٹ کھاتے ہیں
عجیب شہر میں لوگو! میں آن ٹھہرا ہوں
دیکھ وہی بیزارؔ ہے اونچے منصب پر
عادت جس کو جھوٹ کی تیرے شہر میں ہے
زہر مُہرہ کیا کرے گا ہے سپیرا سوچ میں
آدمی کی ذات کو جب آدمی نے ڈس لیا
آج خالدبیزار کی صورتِ حال اقبال ساجد کے اس شعر جیسی ہے کہ:
ایسے گھر میں رہ رہا ہوں دیکھ لے بے شک کوئی
جس کے دروازے کی قسمت میں نہیں دستک کوئی
کسی ہمدردانہ دستک کے متلاشی ہاتھ اور یارانِ دیرینہ کی دید کوترستی نگاہیں
پتھراچکی ہیں۔ مسلسل محرومی اور ناامیدی کے باعث خالدبیزار آج ہوش وحواس
بھی قریب قریب کھوبیٹھا ہے۔ ماں کا جھرایا، معصوم چہرہ اور لاغر بدن بیٹے
کی زندہ لاش کوکھینچتے کھینچتے نڈھال اور بے سکت ہوچکا ہے۔ شہزادبھٹی
کاایسے میں اٹک کے باسیوں(خصوصاً شعرابرادری) سے یہ شکوہ سوفی صد بجا ہے:
’’خالدبیزار کاقصورشاید یہ ہے کہ وہ اٹک جیسے ادبی لحاظ سے پس ماندہ علاقے
(راقم کی رائے میں اٹک ادبی لحاظ سے پس ماندہ نہ ہے) اوربے حس شہر میں
پیداہواہے۔اگروہ داتاکی نگری جیسے کسی بڑے شہر میں پیداہواہوتاتو ادبی
تنظیمیں اُس کی مفلوک الحالی سے بے خبر نہ ہوتیں۔‘‘(مشمولہ مجموعہ، ص ۱۵)
خالدبیزار کے ہاں اہلِ زمانہ کی بے حسی، ناقدری اور نفرت تک کااظہار کہیں
کہیں ضرورملتا ہے مگروہ اس پردے میں درحقیقت اس بات کاآرزومند ہے کہ ایک
معاشرے میں رہنے والے تمام انسان اپنی اپنی ذات اوراناؤں کے جنگل سے باہر
آجائیں۔ شاعرمحبتوں کاپیام براور سفیر ہوتاہے لہٰذا اس بھاری ذمہ داری کے
باعث شکوے کااندازتوضرور اختیارکرتا ہے مگرمایوسی اور ناامیدی اُس کے نزدیک
کفرکے مترادف ہوتی ہے جہاں خالدبیزاریہ کہتاہے:
دورِ حاضر میں پیار کاقصہ
آنکھ کااک سراب سے رشتہ
وہاں اُس کے ہاں امیدانہ لہجہ بھی موجود ہے۔ اندازِ بیاں عام فہم اور قدرے
سلیس ہے۔دراصل شاعر کے پیشِ نظر اہمیت اپنی بات کے ابلاغ کی ہے:
میں روز رکھتا ہوں دہلیز پر چراغ نیا
کہ شام ڈھلتے بھٹک کر ہی کوئی آجائے
شاعری میں موضوع اور فکرکی اہمیت اور دل کشی دراصل اس کی پیش کش کے انداز
اور اسلوب سے دوچند ہوتی ہے۔ خالدبیزار کے ہاں اظہار وابلاغ کاروایتی انداز
موجود ہے۔ شعری زبان اور لفظیات موضوع سے ہم آہنگ ہے۔ کہیں کہیں انگریزی
الفاظ کااستعمال بھی ملتا ہے۔ بیانیہ اور براہِ راست خطابیہ انداز ہے۔ کہیں
کہیں بالواسطہ سلیقے سے بھی بات کی گئی ہے۔ تشبیہات واستعارات غیرمبہم اور
نسبتاً واضح ہیں۔ لب ولہجہ عموماًدھیماہے تاہم کہیں کہیں بلند آہنگی کی
آمیزش بھی ملتی ہے۔ غزلیات کی بحریں کہیں چھوٹی اور کہیں متوسط ہیں۔
خالدبیزار نے ردیفوں سے بھرپورکام لیا ہے جن سے شاعرانہ لَے میں روانی پیدا
ہوئی ہے اور ابلاغ آسان ہوگیاہے۔ دونوں سے، صحراکی چاندنی، رقص کرے،
خداحافظ، ڈس لیااور عید پر۔ جیسی ردیفیں اُردوکے شعری سرمائے میں جہاں
نادراورقیمتی اضافہ ہیں، وہیں ان ردیفوں کی حامل غزلیات کے اشعاربھرپور
جذبات اوراحساسات سے مملو ہیں جوقاری کے دل کوجھنجھوڑ دیتے ہیں۔
علمِ بیان اور صنائع کے استعمال سے کلام میں تاثیر اور حسن پیدا
ہوتاہے۔خالدنے شعوری طورپراس کابھی اہتمام کیاہے۔ اگرچہ اس سے شاعر کی فکری
وسعت اور گہرائی کااندازہ کرنا مشکل ہے نیز ان میں پیچیدگی اور تہ داری کی
بجائے سیدھاساداابلاغ ہوا ہے، البتہ خالدبیزار نے اپنے تجربے اورمشاہدے
کوکہیں کہیں تصویروں میں بھی پیش کیا ہے۔ ایسے امیجز اور تمثالوں سے ان کی
شاعری کاجمالیاتی اسلوب دلچسپ اور دل کش ہوگیا ہے۔ یہ تمثالیں کہیں حرکی
،بصری اور کہیں سمعی ہیں:
تھا کبھی ایک پھول شاخوں پر
نوحہ لکھتی ہے دھول شاخوں پر
لکھتی جائے چمن میں بادِصبا
باغبانوں کی بھول شاخوں پر
بھیگی پلکیں روک رہی تھیں
رختِ سفر جب باندھ لیا تھا
جب صحرا میں آنکھ لگی تھی
پیاس نے ماتھا چوم لیاتھا
ناصرکاظمی کے ’’پہلی بارش‘‘ کی نظموں کے انداز، اسلوب اور بحوروقوافی کو
مدِنظررکھ کر خالدبیزار نے یہ غزل لکھی ہے اورایک شعر میں ناصر کاایک مصرعہ
’’میں نے جب لکھنا سیکھاتھا‘‘بھی مستعار لیا ہے۔
اسی طرح چندنئی تراکیب کااختراع بھی خالدبیزار کے مشاہدے کی تیزی پر دلالت
کرتا ہے۔ اوہام کی فصیل، چراغِ حسرت، امنگوں کی بانسری، سطرِ حزیں، اور
دلہن بنی حسرت بالکل نئے مرکبات ہیں جو شاعر کے فکرونظر سے موافقت رکھتے
ہیں۔مزیدبرآں تشبیہاتی واستعاراتی حوالے اور صنائع لفظی ومعنوی کے استعمال
سے اسلوبی شان میں دلکشی پیدا ہوگئی ہے۔ چنداشعار دیکھیے:
جیسے ایک شرابی پی کر توڑ دے ساغر مستی سے
ہم بھی ایسے ٹوٹ چکے ہیں جیسے ہم پیمانے تھے
پھول اک شاخ کے تھے آج جدا ہوتے ہیں
خون روتی ہے گلے مل کے صبا دونوں سے
جو بھی رکھتے ہو دِیا بام پہ جل بجھتا ہے
دشمنی ایسی ہے بیزارؔ ہوا سے تیری
وہ رنگِ اعتبار ہے بس کچھ نہ پوچھیے
بجھتی ہوئی یہ شمع ہے، جلتی ہوئی کبھی
تیرگی میرے مقدر کی ادا پہ ہنس پڑی
جب مجھے میرے ہی گھر کی روشنی نے ڈس لیا
مشہورشاعر، مشتاق عاجز مجموعہ کے فلیپ میں رقم طراز ہیں:
’’خالدبیزار کے کلام میں اس کی ناہموارزندگی کے تمام پہلوجھلک رہے ہیں۔خالد
نے اپنی تمام ترشعری قوت کومجتمع کرکے غزل کواظہار کی راہ دکھائی ہے۔ اس نے
خارجی رجحانات کو اپنی داخلی کیفیات سے مملو کرکے جس انداز سے اپنے ہنر
کااظہار کیا ہے، وہ یقینا قابلِ تحسین ہے۔‘‘
افسانہ نگاروشاعر ارشادعلی اپنے مضمون’’رنگوں کی برسات‘‘ میں خالدبیزار کی
شاعری کی بابت لکھتے ہیں:
’’خالدنے غزل کے لطیف مصرعوں کومشکل پسندی کے بوجھ تلے دبنے نہیں دیا بل کہ
پیرایۂ اظہار کوآسان بنانے کی سعی کی ہے اور لمبی بحروں کے ساتھ ساتھ چھوٹی
بحروں میں بھی نفسِ مضمون کو نہایت سلیقہ سے باندھا ہے۔‘‘
آج یوں محسوس ہوتاہے کہ بیزار محض خالد کاتخلص تھا جب کہ اٹک کے مقامی
تخلیق کار اور ادبی تنظیمات سے وابستگان اپنے ہم پیشہ خالد سے بیزار رہے یا
ہوچکے ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے خالدبیزار پس ماندگی اور گمنامی کی تیرہ وتار
زندگی کے شب وروز تنہاگزاررہا ہے اورناصرکاظمی کے شعری مصرعے کے مصداق
’’مدت سے کوئی آیا نہ گیا،سنسان پڑی ہے گھر کی فضا‘‘ بے یارومددگار پڑارہتی
زندگی کی سانسیں گن رہا ہے۔ وہ خالد بیزار جو کسی زمانہ میں اٹک کی ادبی
تنظیموں کی جان تھا۔پروفیسرنصرت بخاری نے مجموعہ کے فلیپ پر اس بات کاتذکرہ
توکیا ہے مگر اُس بے حسی اور کوتاہی کاذکرنصرت بخاری نے نہیں کیا جس کے ہم
سب بہ حیثیت ادبی برادری مرتکب ہوئے ہیں۔ وگرنہ خالد بیزارآج اس کرب ناکی
سے ہرگزدوچار نہ ہوتااور اٹک کے ادبی افق پرخالدبیزارایک ستارے کی طرح دمک
رہا ہوتا۔
اٹک کے ساتھ پنڈی ڈویژن کی ادبی تنظیموں کی بھی ذمہ داری ہے کہ خالدبیزار
کے کلام اور خود اُس کی جان پرفی الفور توجہ دی جائے۔ اس کے لیے کسی مناسب
ماہانہ وظیفے کاانتظام کیاجائے۔ شہزادحسین بھٹی ،اقبال زرقاش اور ان کے
احباب مبارکباد اور تحسین کے حقدار ہیں کہ انھوں نے ’’دیرآیددرست آید‘‘ کے
مصداق خالدبیزار کے تخلیقی سرمائے کونہ صرف ایک کتابی صورت میں
چھپواکرمحفوظ کردیابل کہ خالدبیزار کے تعارف اور اہمیت کابھی جتن کیا ہے۔
|