قارئین مُحترم گُذشتہ ڈھائی برس
کے دوران میرا چند ایک منکرینِ حدیث کے ساتھ مباحثہ ہُوا ہے حالانکہ یہ
میری فیلڈ نہیں ہے لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تب وہ شہر
کی جانب رُخ کرلیتا ہے بس اِسی طرح کچھ منکر میری جانب دوڑے چلے آتے ہیں
اور میرے نا چاہنے کے باوجود بھی مجھے اکثر اِس بحث میں گھسیٹ لیا جاتا ہے
مگر الحمدُ للہ میرے سوالات کی ترتیب کُچھ اِس طرح کی ہے کہ بَفضلِ خُدا
آخری سوال پوچھنے سے قبل ہی منکرینِ حدیث ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے
کے سر سے سینگ۔ اور شاذ و ناذ ہی کِسی ایسے ڈھیٹ و بے شرم سے واسطہ پڑتا ہے
جو دلیل نہ ہونے کے باوجود بھی اپنی خِفت مِٹانے کیلئے کسی نادان بچے کی
طرح اڑ جاتا ہے جِسے کوئی لاکھ سمجھائے کہ بیٹا روٹی چاند کے برابر نہیں
ہُوتی مگر وہ یہی رٹ لگائے رہتا ہے کہ اگر چاند روٹی سے بڑا ہے تو مجھے ماپ
کر دِکھاؤ۔
حالانکہ شارحین حدیث نے تمام اَحادیث کو لکھنے میں نہایت کمالِ احتیاط سے
کام لیا ہے اور احادیث مُبارکہ کو لکھنے سے پہلے خُوب چھان پھٹک کے بعد ہی
تحریر فرمایا اسما الرجال کا علم دریافت فرمایا تاکہ احادیث مبارکہ میں غلو
نہ ہونے پائے کیونکہ اِن نفوسِ قدسیہ کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی یہ حدیث مبارکہ ہمیشہ نظروں کے سامنے رہتی تھی۔ مفہوم ،، کہ جس نے مجھ
سے کوئی جھوٹی بات منسوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے،،
اور اگر کہیں کوئی راوی اعمال میں کمزور نطر آتا تُو نیچیے راوی کے ضعیف
ہونے کا تذکرہ بھی ضرور فرماتے یہ اُنکی دیانتداری کی سب سے بڑی دلیل ہے
کیونکہ اگر وہ ایسا نہ فرماتے تب آج کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہُوتا کہ کس
حدیث کا راوی ضعیف ہے اور کسکا راوی حسن ہے۔
اور ان تمام شارحین حدیث کے تقوی و پرہیز گاری کی قسمیں آج بھی دُنیا بھر
کے کروڑوں مسلمان کھاتے ہیں اور یہ تمام نُفوسِ قدسیہ علم الحدیث میں
اتھارٹی تسلیم کئے جاتے ہیں جبکہ منکرین حدیث کی تعداد مٹھی بھر شر انگیز
لوگوں پر مبنی ہے جنکی نہ کوئی تعلیمی قابلیت ہے اور نہ ہی کوئی علمی مقام
اسلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے رہنماوں کی وہی پوزیشن ہے جو ماہر طبیبوں
کے سامنے کسی عطائی معالج کی ہوتی ہے بس فرق اتنا ہے کہ عطائی ڈاکٹر کی
دوائی سے جان جانے کا خطرہ رہتا ہے جبکہ ان عطائی مُلاؤں کی صحبت کی وجہ
سے مومن کی سب سے قیمتی شئے ایمان خطرے میں رہتی ہے۔
اگر کبھی زندگی میں کوئی مُنکرِ حدیث آپ سے نیٹ کی دُنیا میں ٹکرا
جائے(کیونکہ سامنے آنے کی ہمت شائد ہی کوئی کرپائے)اور چرب زُبانی سے یہ
ثابت کرنا چاہے کہ اسلام کی بُنیاد صرف قران مجید سے رہنمائی کی صورت میں
ہے اور اَحادیث مبارکہ کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
تب آپ بھی اِن سوالات کو اِسی ترتیب سے معلوم کرلیجئے گا انشاءَ اللہ منکرِ
حدیث وہاں سے ایسے غائب ہوگا جیسے لاحول پڑھنے سے شیطان غائب ہوجاتا ہے
نوٹ
ایک بات کا ضرور دھیان رکھیئے گا جب تک آپکو آپکے سوال کا جواب نہ مِل جائے
آپ کسی دوسری جانب متوجہ ہرگز نہ ہویئے گا کیونکہ اِن سوالات کو دیکھتے ہی
وہ منکر حدیث ٹاپک(موضوع) کا رُخ موڑنے کی کوشش ضرور کرے گا کیونکہ دُنیا
کے کسی منکر حدیث کے پاس ان سوالوں کا جواب ہی موجود نہیں ہے اس لئے اُسکی
کوشش یہی رہے گی کہ دورانِ مباحثہ کوئی دوسری بحث شروع ہوجائے لیکن آپکا
اصرار یہی ہُونا چاہیئے کہ پہلے اصول کیمطابق میرے سوالوں کا جواب دے دُو
اُسکے بعد ہی دوسری بحث کی ابتدا ہوگی اگر آپ نے میرے بتائے ہوئے طریقہ پر
عمل کیا تُو انشاءَ اللہ عزوجل وہ منکر حدیث یا تُو اپنے عقائد سے تائب
ہوجائے گا یا موقع سے ذلیل ہوکر اپنے انجام کو پُہنچے گا ۔
پہلا سوال،
کیا قرانِ مجید کی کسی ایک آیت کے انکار سے کُفر لازم آتا ہے یا نہیں؟
منکر حدیث اس بات کا اقرار کرے گا کہ ہاں قران کی کسی ایک آیت کا اِنکار
بھی کُفر ہے
دوسرا سوال،
کیا قرانِ مجید میں اتباعِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آیتیں موجود ہیں یا
نہیں ؟
منکر حدیث اقرار کرے گا کہ ہاں اتباعِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آیات
قرانِ مجید میں موجود ہیں ۔ اگر منکرِ حدیث انکار کرے تب پہلے سوال کی
روشنی میں خُود کافر ہوجائے گا ۔تب آپ خود کوئی ایک آیت پیش کردیں جیسے
سورہ آل عمران کی آیت نمبر31 اور آیت نمبر32
قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ
وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوۡبَکُمْ ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ
اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللّٰہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے
فرمانبردار ہوجاؤ اللّٰہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور
اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے
قُلْ اَطِیۡعُوا اللہَ وَالرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ
لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیۡنَ
تم فرمادو کہ حکم مانو اللّٰہ اور رسول کا پھر اگر وہ منھ پھیریں تو اللّٰہ
کو خوش نہیں آتے کافر ۔
تیسرا سوال،
جب اتباع کی آیت کو مان لیا جائے تب یہ معلوم کریں کہ وہ نبی آخر الزمان
صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کس طرح سے کرے گا کیونکہ کسی کی تابعداری تب
ہی کی جاسکتی ہے جب کہ جسکی تابعداری کی جارہی اُسکے معمولات زندگی کا علم
ہُو اُسکی سیرت اُسکا کردار اُسکے احکامات اُسکی خُواہش، وہ کس بات پر خوش
ہوتا ہے اور اُسے کیا چیز ناپسند ہے یہ سب باتیں معلوم ہُو ۔
قارئین محترم یہاں آکر منکر حدیث ہوسکتا ہے کہ راہِ فرار حاصل کرلے یا یہ
بھی ممکن ہے کہ جو شخص ابھی تک احادیث مبارکہ پر تنقید کررہا تھا خُود کوئی
حدیث پیش کر بیٹھے میرے ساتھ یہ لطیفہ کئی مرتبہ ہو چُکا ہے کہ اس سوال کے
جواب میں خُود منکر حدیث ایک حدیث اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما سے
روایت کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ جب آپ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے
اخلاق کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ،، کیا تُم نے
قران نہیں پڑھا۔ اسلئے وہ منکر حدیث آپ کو دھوکہ دینے کیلئے کہے گا کہ
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے کیلئے قران کافی ہے ۔ کیونکہ
الحمد سے لیکر والناس تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت موجود ہے۔
چُوتھا سوال،
بھائی پہلی بات تو یہ کہ جب آپ اَحادیث مبارکہ کو مانتے ہی نہیں تب آپ دلیل
یا جواب میں حدیث کیسے پیش کرسکتے ہیں اور دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ
احادیث مبارکہ کا استعمال آپکی نظر میں بھی جائز ہے ورنہ آپ خُود کیسے حدیث
پیش کرسکتے ہیں
تیسری بات یہ جو آپ نے کہا کہ الحمد سے لیکر والناس تک حضور علیہ السلام کی
سیرت موجود ہے یہ بزرگان دین کا قول مبارک ہے یا قران مجید کی آیت ہے اگر
یہ بزرگان دین کا قول ہے تو بھی آپ اس قول کو جواز میں پیش نہیں کرسکتے تھے
کیونکہ آپ لوگ تو اولیاءَ اللہ کے اقوال کو مانتے ہی نہیں پھر اپنی دلیل
میں اقوال کیسے پیش کرسکتے ہیں ۔
لیکن ہم پھر بھی تُمہارے جواب کو قبول کرلیتے ہیں۔ کہ تمام سیرتِ مُصطفٰی ﷺ
قران مجید میں موجود ہے۔ اب چونکہ دعوی آپ کی جانب سے کیا گیا ہے کہ حضور
علیہ السلام کی تمام سیرت قران مجید میں موجود ہے جسمیں ہمیں کوئی شک نہیں
لیکن یہ مُسلم اصول ہے کہ جو دعویٰ کرتا ہے دلیل بھی وہی فراہم کرتا ہے
اور سیرت کے معنٰی ہیں سوانح عُمری یعنی زندگی کے حالات اور واقعات۔
اب ایک طرف قران کہتا ہے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع بھی
کرو اور اطاعت بھی کرو۔
جبکہ دوسری جانب مُنکرینِ حدیث کا دعوی ہے کہ اللہ کریم کے محبوب اعظم صلی
اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اطاعت کیلئے سیرت مُصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم
اور اَحادیث نبوی ﷺ کی ضرورت نہیں کیونکہ قران مجید میں تمام سیرت مُصطفٰی
صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے
اگر حُضور علیہ السلام کی سیرت جاننے کیلئے کُتب اَحادیث کی ضرورت نہیں اور
تمام سیرت مُصطفی قران ہی میں موجود ہے تو۔۔
تو میرا تمام منکرین حدیث سے سوال ہے کہ ۔۔۔
سوال نمبر ۱حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم الصلواۃ کسطرح ادا فرمایا کرتے
تھے
سوال نمبر 2 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم الصلواۃ الفجر ، ظہر ، عصر ،
مغرب ، عشا ، اور تہجد کی کتنی رکعت ادا فرماتے تھے۔
سوال نمبر 3 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارکانِ الصلواۃ میں کیا کیا
تلاوت فرماتے۔
سوال نمبر 4 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم الصلواۃ کا اختتام کیسے فرماتے
اور بعد الصلواۃ کیا عمل فرماتے
منکرین ِ حدیث کو اِن تمام سوالات کے جوابات قران مجید سے حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ثابت کرنے ہیں کیونکہ قران مجید فرقان حمید میں
حُکم اطاعت اور حُکم اتباع بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہے
میرا تمام دُنیا کے منکرین حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو چیلنج ہے کہ
اپنی تمام ذُریت کو جمع کر لیجئے تمام شیطانی قوتوں کو جمع کرلیجئے مگر ان
سوالوں کے جواب نہ تُم سے بن پائیں گے اور نہ ہی تُمہارے معنوی باپ
ذوالخویصرہ کے پاس اِن سوالات کے جوابات تھے ۔
قارئین مُحترم میں پھر آپکی خِدمت میں عرض کرونگا کہ جب آپ سیرت مُصطفٰے
صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ سوالات کریں گے تُو ہوسکتا ہے کہ اس طرح
کی باتوں سے آپکو اُلجھانے کی کوشش کی جائے کہ جناب بچہ اپنے والدین سے
نماز سیکھتا ہے یا آپ سعودیہ چلے جائیں اور وہاں سے نماز سیکھ لیں یا پھر
کیا آپ نے نماز ڈائریکٹ حدیث پڑھ کر سیکھی وغیرہ وغیرہ۔
اب میں اِن تمام سوالات کے جوابات بھی لکھے دیتا ہُوں کہ حِکمت مومن کی
گُمشدہ میراث ہے لیکن مومن کی فراست کا مقابلہ کوئی ابن جہل و ذوالخویصرہ
کر ہی نہیں سکتا
دُنیا کا ہر بچہ اپنے والدین کا مکلف ہوتا ہے تو تمام دینی اور دُنیاوی
حرکات و سکنات اُنہی کو دیکھ کر سیکھتا ہے اسی واسطے اگر کوئی غلطی والدین
کو دیکھ کر کرلے تو اسکا عتاب اُس بچہ پر نہیں بلکہ والدین پر ہُوگا۔
لیکن جونہی وہ بچہ بالغ ہوجائے گا تب دین کا علم سیکھنا اُس پر فرض ہوجائے
گا۔
لہذا اگر کسی جگہہ والدین کو نماز کے ارکان معلوم نہیں اور وہ غلط سلط نماز
ادا کرتے ہیں جسکی وجہ سے بچہ بھی غلط طریقے سے نماز پڑھتا ہے ۔ تو بالغ
ہونے کے بعد وہ نوجوان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تو ایسے ہی نماز پڑھوں گا
جیسے میرے والدین پڑھتے ہیں۔
کیونکہ قرانِ مجید میں اللہ کریم ایسے سرکش لوگوں کیلئے ارشاد فرماتا ہے۔
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ قَالُوۡا بَلْ
نَتَّبِعُ مَاۤ اَلْفَیۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَلَوْ کَانَ
اٰبَآؤُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ شَیۡئًا وَّلَا یَہۡتَدُوۡنَ
اور جب ان سے کہا جائے اللّٰہ کے اتارے پر چلو تو کہیں بلکہ ہم تو اس پر
چلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل
رکھتے ہوں نہ ہدایت
سورہ البقرہ آیت نمبر 170
اسلئے اب یہ مت کہنا کہ ہم نماز سعودیوں کو دیکھ کر پڑہتے ہیں یا اپنے ماں
باپ کو دیکھ کر پڑہتے ہیں کیونکہ نہ ہی دین کے معاملے میں قران مجید میں
ماں باپ کی اطاعت کا حُکم ہے اور نہ ہی سعودیوں کی اتباع کا حُکم ہے اور
ویسے بھی سعودی عرب کی اتباع کرنے سے پہلے یہ ضرور جان لو کہ سعودی بھی
منکرین حدیث سے اُتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی دُنیا بھر میں پھیلے ایک ارب
سے زائد مسلمان کرتے ہیں۔
اور ہمیں اس بات میں قطعی دلچسپی نہیں کہ آپ نماز کسکو دیکھ کر پڑھ رہے ہیں
ہماری دلچسپی تو صرف اس بات میں ہے کہ آپکو اتباع رسول اور اطاعت مُصطفٰی
صلی اللہ علیہ قبول ہے یا نہیں اور اگر ہے تو آپ طریقہ نماز میں اس اتباع
کو کہاں سے لیتے ہیں
اگر قران مجید سے حضور علیہ السلام کے نماز پرھنے کا طریقہ نِکالا ہے تو بس
ہمیں بھی وہ آیت بتادیں جسمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ادائیگی نماز
کا طریقہ لکھا ہے ورنہ ثابت ہوجائے گا کہ تمام منکرین حدیث دُنیا کے سب سے
بڑے جھوٹے ہیں۔
اور دُنیا کے تمام منکرین حدیث اور اُنکی ذریت کو میرا چیلنج ہے کہ وہ
قیامت تک نہ میرے سوالوں کے جواب لا سکیں گے اور نہ ہی خُود کو سچا ثابت کر
پائیں گے کیونکہ ( منکر حدیث صرف حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار
نہیں کرتے بلکہ انکار حدیث کی وجہ سے کئی قرانی آیات کا بھی انکار کرتے
ہیں) اسلئے میرا اگلا کالم اِسی موضوع پر ہُوگا،، کیا انکار حدیث نبوی ﷺ کے
بعد کوئی مسلمان رِہ سکتا ہے،، میں قران مجید کی روشنی میں دلائل سے ثابت
کرونگا کہ انکار حدیث نبوی ﷺ دراصل انکار قران مجید ہے اس لئے کوئی منکر
حدیث مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔
تمام قارئین سے مدنی التجا ہے کہ میرے لئے بھی دُعا فرمائیں گرمیوں کی آمد
کیساتھ ہی عارضہ جگر میں گرفتار ہُوں جسکی وجہ سے لکھنے لکھانے کا معاملہ
بھی کافی حد تک موقوف ہے اللہ کریم تمام مسلمانوں کے ایمان ، جان ، مال کی
حَفاظت فرمائے
(آمین بجاہِ النبی الامین وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم) |