عالمی سطح پر وبائی صورتحال کے باعث دنیا کو شدید ترین
اقتصادی بحران کا سامنا ہے اور اقتصادی سماجی سرگرمیوں کی مکمل بحالی کے
حوالے سے ابھی بھی غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ ایسے میں چین کی جانب سے دنیا کو
معاشی بحالی کے حوالے سے ایک بڑا "سرپرائز "دیتے ہوئے بتایا گیا کہ سال
2020 میں ملک کی جی ڈی پی پہلی مرتبہ ایک سو ٹریلین یوان کی حد کو عبور
کرتے ہوئے 101.5986ٹریلین یوآن تک جاپہنچی ہے ، جس میں گزشتہ سال کے مقابلے
میں 2.3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔امریکی ڈالرز میں یہ مالیت 15.42ٹریلین ڈالرز
سے زائد بنتی ہے۔یہ امر قابل زکر ہے کہ عالمگیر وبا کے باعث امریکہ سمیت
دنیا کی تمام بڑی معیشتوں کو اس وقت دباو کا سامنا ہے، ایسے میں مالیاتی
منڈیوں میں مندی اور معاشی سرگرمیوں میں گراوٹ کے باوجود چین نے معاشی ترقی
کا اہم سنگ میل عبور کیا ہے جو یقیناً جہاں چین کی مضبوط معاشی پالیسیوں کا
عمدہ مظہر ہے وہاں اقتصادی بحالی کے لیے دنیا کی توانا امید بھی ہے۔بلاشبہ
دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی حیثیت سے چین کی جی ڈی پی میں اضافہ نا صرف چین
بلکہ دنیا کے بہترین مفاد میں بھی ہے ۔ بلومبرگ کے مطابق کووڈ۔19کے بحرانی
دور میں چین کی غیر متوقع تیز رفتار معاشی بحالی ، عالمی معیشت کی بحالی
میں انتہائی مددگار ہے۔
چین کی غیر معمولی معاشی ترقی کا اگر ایک مختصر جائزہ لیا جائے تو چین
نےجہاں وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لئے مستحکم اور تیز تر اقدامات
اٹھائے وہاں انسداد وبا کی سرگرمیوں کو اقتصادی سماجی ترقی سے ہم آہنگ کیا
، جس سے معاشی بحالی کی توانا صورتحال وجود میں آئی ۔کووڈ۔19کے تناظر میں
چین نےغیر ضروری مالیاتی اخراجات میں کمی ، ٹیکس میں ریلیف ، قرضوں کی
فراہمی اور وبائی صورتحال کے تناظر میں کاروباری طبقے کو ہر قسم کی مراعات
اور مالی اعانت فراہم کی ۔چین کا مستحکم صنعتی نظام ، وسیع منڈی میں پائے
جانے والے مواقع ، جدید ٹیکنالوجی کا زبردست استعمال اورملکی و غیر ملکی
سرمایہ کاری کے لیے سازگار کاروباری ماحول چینی معیشت میں ترقی کے کلیدی
عوامل ہیں۔
درحقیقت چینی منڈی سے سامنے آنے والے ثمرات اور جدت کاری کی رفتار ایک
دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ایک ارب چالیس کروڑ افراد پر مشتمل صارفین کی
متحرک منڈی عالمی معاشی خطرات کے تدارک کے لیے چین کی معاشی ترقی کے ایک
مفید موقع میں ڈھل چکی ہے۔چین میں تیزی سے فروغ پاتی ڈیجیٹل معیشت نے ملک
میں کھپت کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چینی حکومت کی جانب سے سلسلہ
وار معاشی پالیسیاں اور اصلاحات روزگار ، بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی
اور مارکیٹ میں سرمایہ کاری کو یقینی بنانے میں نہایت اہم رہی ہیں۔چین نے
وبائی صورتحال کے باوجود عالمی سطح پر تجارتی سرگرمیوں کو رواں رکھنے میں
قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ عالمی تخمینوں کے مطابق چین کی درآمدات و
برآمدات کی مجموعی مالیت توقعات سے کہیں بہتر رہی ہے جبکہ یہ امر قابل زکر
ہے کہ چینی معیشت مثبت اقتصادی شرح نمو کی حامل واحد اہم معیشت بن چکی ہے۔
اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے تازہ ترین عالمی اقتصادی آؤٹ لک میں
پیش گوئی کی گئی ہے کہ چین 2021 میں عالمی معاشی نمو میں ایک تہائی سے
زیادہ حصہ ڈالے گا۔ اس سے قبل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے
2021 میں چین کی معیشت میں 7.9 فیصد تک اضافے کا تخمینہ ظاہر کیا ہے جس کی
بنیادی وجہ وبائی صورتحال پر قابو پاتے ہوئے معاشی سرگرمیوں کی تیز رفتار
بحالی ہے۔
عالمی سطح پر وبائی صورتحال نے ایک مرتبہ پھر دنیا کو بتایا ہے کہ معاشی
عالمگیریت کے موجودہ دور میں کوئی بھی ملک تنہا مسائل سے نہیں نمٹ سکتا ہے
۔ چین نے بنی نوع انسان کےہم نصیب معاشرے کی تشکیل اور مشترکہ مفاد کے تصور
کے تحت عالمی چیلنجز کا حل فراہم کیا ہے۔اقتصادی بحالی کے لیے چین مسلسل
کھلے پن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دنیا کے لیے مزید ترقیاتی امکانات سامنے
لارہا ہے اور دوہری گردش جیسے نئے اقتصادی نمونوں کی بدولت معاشی عالمگیریت
کے فروغ کی مضبوط قوت بن چکا ہے۔اسی باعث عالمی ادارے متفق ہیں کہ عالمی
معاشی نمو کے ایک اہم انجن کی حیثیت سے ، چین عالمی معیشت کی بحالی میں
اپنا قائدانہ کردار جاری رکھے گا۔
|