غزوہ احزاب ( حصہ دوم)
ایک سال سے زیادہ عرصے کی پیہم فوجی مہمات اور کاروائیوں کے بعد جزیرۃ
العرب پر سکون چھا گیا تھا اور ہر طرف امن و امان اور آشتی و سلامتی کا دور
دورہ ہو گیا تھا ؛ مگر یہود کو جو اپنی خباثتوں ، سازشوں اور دسیسہ کاریوں
کے نتیجے میں طرح طرح کی ذلت و رسوائی کا مزہ چکھ چکے تھے ، اب بھی ہوش
نہیں آیاتھا ۔ انہوں نے غدر و خیانت اور مکر و سازش کے مکروہ نتائج سے کوئی
سبق نہیں سیکھا تھا چنانچہ خیبر منتقل ہونے کے بعد پہلے تو انہوں نے یہ
انتظار کیا کہ دیکھیں مسلمانوں اور بت پرستوں کے درمیان جو فوجی کشاکش چل
رہی ہے اس کا نتیجہ کیاہوتا ہے۔ لیکن جب دیکھا کہ حالات مسلمانوں کے لیے
سازگار ہو گئے ہیں ، گردش لیل و نہار نے ان کے اثر و نفوذ کو مزید وسعت دے
دی ہے ، اور دور دور تک ان کی حکمرانی کاسکہ بیٹھ گیاہے تو انہیں سخت جلن
ہوئی ۔ انہوں نے نئے سرے سے سازش شروع کی اور مسلمانوں پر ایک ایسی آخری
کاری ضرب لگانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے جس کے نتیجے میں ان کا چراغ حیات
ہی گل ہو جائے ۔ لیکن چونکہ انہیں براہ راست مسلمانوں سے ٹکرانے کی جراءت
نہ تھی اس لیے اس مقصد کی خاطر ایک نہایت خوفناک پلان تیار کیا ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنو نضیر کے بیس سردار اور رہنما مکے میں قریش کے پاس
حاضر ہوئے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آمادۂ جنگ کرتے
ہوئے اپنی مدد کا یقین دلایا ۔ قریش نے ان کی بات مان لی ۔ چونکہ وہ احد کے
روز میدان بدر میں مسلمانوں سے صف آرائی کا عہدو پیمان کرکے اس کی خلاف
ورزی کر چکے تھے اس لیے ان کا خیال تھا کہ اب اس مجوزہ جنگی اقدام کے ذریعے
وہ اپنی شہرت بھی بحال کر لیں گے اور اپنی کہی ہوئی بات بھی پوری کر دیں گے
۔
اس کے بعد یہود کا یہ وفد بنو غطفان کے پاس گیا اور قریش ہی کی طرح انہیں
بھی آمادۂ جنگ کیا ۔ وہ بھی تیار ہو گئے ۔ پھراس وفد نے بقیہ قبائل عرب میں
گھوم گھوم کر لوگوں کو جنگ کی ترغیب دی اور ان قبائل کے بھی بہت سے افراد
تیار ہوگئے ۔ غرض اس طرح یہودی سیاست کاروں نے پوری کامیابی کے ساتھ کفر کے
تمام بڑے گروہوں اور جتھوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی دعوت اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر جنگ کے لیے تیار کر لیا۔
اس کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق جنوب سے قریش ، کنانہ اور تہامہ میں
آباد دوسرے حلیف قبائل نے مدینے کی جانب کوچ کیا ۔ ان سب کا سپہ سالار
اعلیٰ ابو سفیان تھا ۔ اور ان کی تعداد چار ہزار تھی ۔ یہ لشکر مرّالظہران
پہنچا تو بنو سلیم بھی اس میں آ شامل ہوئے ۔ اُدھر اسی وقت مشرق کی طرف سے
غطفانی قبائل فزارہ ، مرہ اور اشجع نے کوچ کیا ۔ فزارہ کا سپہ سالار عیینہ
بن حصن تھا ۔ بنو مرہ کا حارث بن عوف اور بنو اشجع کا مسعر بن رخیلہ ۔
انہیں کے ضمن میں بنو اسد اور دیگر قبائل کے بہت سے افراد بھی آئے تھے ۔
ان سارے قبائل نے ایک مقررہ وقت اور مقررہ پروگرام کے مطابق مدینے کار خ
کیا تھا ۔ اس لیے چند دن کے اندر اندر مدینے کے پاس دس ہزار سپاہ کا ایک
زبردست لشکر جمع ہو گیا ۔ یہ اتنا بڑا لشکر تھا کہ غالباً مدینے کی پوری
آبادی ( عورتوں ،بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو ملاکر بھی ) اس کے برابر نہ
تھی ۔ اگر حملہ آوروں کا یہ ٹھا ٹھیں مارتا ہوا سمندر مدینے کی چہار دیواری
تک اچانک پہنچ جاتا تو مسلمانوں کے لیے سخت خطرناک ثابت ہوتا ۔ کچھ عجب
نہیں کہ ان کی جڑ کٹ جاتی اور ان کا مکمل صفایا ہوجاتا لیکن مدینے کی قیادت
نہایت بیدار مغز اور چوکس قیادت تھی ۔ اس کی انگلیاں ہمیشہ حالات کی نبض پر
رہتی تھیں اور وہ حالات کا تجزیہ کرکے آنے والے واقعات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ
بھی لگاتی تھی اور ان سے نمٹنے کے لیے مناسب ترین قدم بھی اٹھاتی تھی ۔
چنانچہ کفار کا لشکرِعظیم جونہی اپنی جگہ سے حرکت میں آیا مدینے کے مخبرین
نے اپنی قیادت کو اس کی اطلاع فراہم کردی ۔
اطلاع پاتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہائی کمان کی مجلس شوریٰ
منعقد کی اور دفاعی منصوبے پر صلاح مشورہ کیا ---------- اہل شوریٰ نے غور
و خوض کے بعد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ایک تجویز متفقہ طور پر
منظور کی ۔ یہ تجویز حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان لفظوں میں پیش کی
تھی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! فارس میں جب ہمارا محاصرہ کیا
جاتا تھا تو ہم اپنے گرد خندق کھود لیتے تھے ۔
یہ بڑی باحکمت دفاعی تجویز تھی ۔ اہل عرب اس سے واقف نہ تھے ۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویز پر فوراً عملدرآمد شروع فرماتے ہوئے ہر دس
آدمی کو چالیس ہاتھ خندق کھودنے کاکام سونپ دیا اور مسلمانوں نے پوری محنت
اور دلجمعی سے خندق کھودنی شروع کردی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس
کام کی ترغیب بھی دیتے تھے اور عملاً اس میں پوری طرح شریک بھی رہتے تھے ۔
چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق میںتھے ۔ لوگ کھدائی کررہے تھے
اور ہم کندھوں پر مٹی ڈھو رہے تھے کہ (اسی اثناء میں ) رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا :
اللھم لا عیش الا عیش الآخرۃ فاغفر للمہاجرین والانصَار (1)
’’اے اللہ ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے ۔ پس مہاجرین اور انصار کو بخش
دے ‘‘۔
ایکدوسری روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم خندق کی طرف تشریف لائے تو دیکھا کہ مہاجرین و انصار ایک ٹھنڈی
صبح میں کھودنے کا کام کررہے ہیں ۔ ان کے پاس غلام نہ تھے کہ ان کی بجائے
غلام یہ کام کردیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشقت اور بھوک دیکھ
کر فرمایا :
اللھم ان العیش عیش الاٰخرۃ فاغفر للانصار والمہاجرۃ
’’ اے اللہ ! یقیناً زندگی تو آخرت کی زندگی ہے پس انصار و مہاجرین کو بخش
دے ‘‘۔
انصار و مہاجرین نے ا سکے جواب میں کہا ۔
نحن الذین بایعوا محمدا علی الجہاد ما بقینا ابدا (2)
’’ ہم وہ ہیں کہ ہم نے ہمیشہ کے لیے جب تک کہ باقی رہیں محمد صلی اللہ علیہ
وسلم سے جہاد پر بیعت کی ہے ‘‘۔
صحیح بخاری ہی میں ایک روایت حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
خندق سے مٹی ڈھو رہے تھے یہاں تک کہ غبار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شکم
کی جلد ڈھانک دی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال بہت زیادہ تھے ۔ میں
نے ( اسی حالت میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ
عنہ کے رجزیہ کلمات کہتے ہوئے سنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی ڈھوتے جاتے
تھے اور یہ کہتے جاتے تھے :
اَلّٰھُم لولا اَنتَ مَا اھتَدَینَا وَلا تَصدَّقنَا وَلَا صَلَّینَا
فَاَنزِلَن سَکِْینَۃً عَلَینَا وَثَبِّتَ الاَقدَامَ اِنْ لّا قَینَا
اِنَّ الا ولی رَغِبُوا عَلَینَا وَاِن اَرادُوا فِتنَۃً اَبَینَا
’’ اے اللہ اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے۔ نہ صدقہ دیتے نہ نماز
پڑھتے ۔ پس ہم پر سکینت نازل فرما ۔ اور اگر ٹکراؤ ہو جائے تو ہمارے قدم
ثابت رکھ ۔ انہوں نے ہمارے خلاف لوگوں کوبھڑکایا ہے ۔ اگر انہوں نے کوئی
فتنہ چاہا تو ہم ہرگز سر نہیں جھکائیں گے ‘‘۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری الفاظ
کھینچ کر کہتے تھے ۔ ایک روایت میں آخری شعر اس طرح ہے ۔
اِنَّ الا ولی قَد بَغَوا عَلَینَا وَاِن اَرادُوا فِتنَۃً اَبَینَا (3)
’’ یعنی انہوں نے ہم پر ظلم کیا ہے ۔ اور اگر وہ ہمیں فتنے میں ڈالنا چاہیں
گے تو ہم ہرگز سرنگوں نہ ہوں گے ‘‘۔
مسلمان ایک طرف اس گرم جوشی کے ساتھ کام کررہے تھے تو دوسری طرف اتنی شدت
کی بھوک برداشت کررہے تھے کہ اس کے تصور سے کلیجہ شق ہوتا ہے ۔ چنانچہ حضرت
انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ (اہل خندق) کے پاس دو مٹھی جو لایاجاتا تھا
اور بُو دیتی ہوئی چکنائی کے ساتھ بنا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیاجاتا تھا ۔
لوگ بھوکے ہوتے تھے اور اس کا ذائقہ حلق کے لیے ناخوش گوار ہوتا تھا ۔ اور
اس سے بدبو اٹھ رہی ہوتی تھی ۔ (4)
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
بھوک کا شکوہ کیا اور اپنے شکم کھول کر ایک ایک پتھر دکھلایاتو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا شکم کھول کر دو پتھر دکھلائے ۔ (5)
خندق کی کھدائی کے دوران نبوت کی کئی نشانیاں بھی جلوہ فگن ہوئیں۔ صحیح
بخاری کی روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کے اندر سخت بھوک کے آثار دیکھے تو بکری کا ایک بچہ ذبح کیا اور
ان کی بیوی نے ایک صاع (تقریباً ڈھائی کیلو ) جو پیسا ، پھر رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم سے رازداری کے ساتھ گزارش کی کہ اپنے چند رفقاء کے ہمراہ
تشریف لائیں ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام اہل خندق کو جن کی تعداد
ایک ہزار تھی، ہمراہ لے کر چل پڑے ۔ اور سب لوگوں نے اسی ذرا جتنے کھانے سے
شکم سیر ہوکر کھایا ۔ پھر بھی گوشت کی ہانڈی اپنی حالت پر برقرار رہی اور
بھری کی بھری جوش مارتی رہی اور گوندھا ہوا آٹا اپنی حالت پر برقرار رہا ۔
اس سے روٹی پکائی جاتی رہی ۔ (6)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی بہن خندق کے پاس دو مٹھی کھجور لے کر
آئیں کہ ان کے بھائی اور ماموں کھا لیں گے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے پاس سے گزریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وہ کھجوریں لے لیں
اور ایک کپڑے کے اوپر بکھیر دیں ۔ پھر اہل خندق کو دعوت دی ۔ اہل خندق
انہیں کھا تے گئے اور وہ بڑھتی گئیں ۔ یہاں تک کہ سارے اہل خندق کھا کھا کر
چلے گئے اور کھجوریں تھیں کہ کپڑے کے کناروں سے باہر گر رہی تھیں ۔(7)
انہیں ایام میں ان دو واقعات سے کہیں بڑھ کر ایک اور واقعہ پیش آیا جسے
امام بخاری نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔ حضرت جابر رضی
اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ خندق کھد رہے تھے کہ ایک چٹان نما ٹکڑا آڑے
آگیا ۔ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یہ
چٹان نما ٹکڑا خندق میں حائل ہو گیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
: ’’میں اتر رہا ہوں ‘‘۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے ، آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے شکم پر پتھر بندھا ہوا تھا ---------- ہم نے تین روز سے
کچھ چکھا نہ تھا ---------- پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال لے کر مارا
تو وہ چٹان نما ٹکڑا بھر بھرے تودے میں تبدیل ہو گیا ۔ (8)
پھر حضرت براء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ خندق کے موقع پر کھدائی کے
دوران ایک سخت چٹان آپڑی جس سے کدال اچٹ جاتی تھی کچھ ٹوٹتا ہی نہ تھا ۔ ہم
نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا شکوہ کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم تشریف لائے ، کدال لی اور بسم اللہ کہہ کر ایک ضرب لگائی ( تو ایک
ٹکڑا ٹوٹ گیا ) اور فرمایا :’’ اللہ اکبر ! مجھے ملک شام کی کنجیاں دی گئی
ہیں ۔ واللہ ! میں اس وقت وہاں کے سرخ محلوں کے دیکھ رہا ہوں ‘‘۔ پھر دوسری
لگائی تو ایک دوسرا ٹکرا کٹ گیا ، اور فرمایا :’’ اللہ اکبر ! مجھے فارس
دیاگیا ہے ۔ واللہ ! میں اس وقت مدائن کا سفید محل دیکھ رہا ہوں ‘‘۔ پھر
تیسری ضرب لگائی اور فرمایا :’’ بسم اللہ ‘‘۔ تو پھر باقی ماندہ چٹان بھی
کٹ گئی ۔ پھر فرمایا : ’’اللہ اکبر ! مجھے یمن کی کنجیاں دی گئیں ہیں ۔
واللہ ! میں اس وقت اپنی اس جگہ سے صنعاء کے پھاٹک دیکھ رہا ہوں ‘‘۔ (9)
ابن اسحاق نے ایسی ہی روایت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ذکر کی ہے
۔(10)
چونکہ مدینہ شمال کے علاوہ باقی اطراف سے حرّے ( لاوے کی چٹانوں ) پہاڑوں
اور کھجور کے باغات سے گھرا ہوا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہر
اور تجربہ کار فوجی کی حیثیت سے یہ جانتے تھے کہ مدینے پر اتنے بڑے لشکر کی
یورش صرف شمال ہی کی جہت سے ہو سکتی ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
صرف اسی جانب خندق کھدوائی ۔
مسلمانوں نے خندق کھودنے کا کام مسلسل جاری رکھا ۔ دن بھر کھدائی کرتے اور
شام کو گھر پلٹ آتے یہاں تک کہ مدینے کی دیواروں تک کفار کے لشکر جرار کے
پہنچنے سے پہلے مقررہ پروگرام کے مطابق خندق تیار ہو گئی ۔ (11)
ادھر قریش اپنا چار ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پہنچے تو رومہ ، جرف اور
زغابہ کے درمیان مجمع الاسیال میں خیمہ زن ہوئے ؛ اور دوسری طرف سے غطفان
اور ان کے نجدی ہم سفر چھ ہزار کی نفری لے کر آئے تو احد کے مشرقی کنارے
ذنب نقمی میں خیمہ زن ہوئے ۔ جیساکہ قرآن مجید میں مذکور ہے :
وَلَمَّا رَای الْمُؤْمِنُونَ الاَحْزَابَ قَالُوا ہَذَا مَا وَعَدَنَا
اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَصَدَقَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَمَا زَادَہُمْ الَّا
ایْمَاناً وَتَسْلِیْماً(22:33)
’’ اور جب اہل ایمان نے ان جتھوں کو دیکھا تو کہا یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ
اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ ہی
فرمایا تھا ۔ اور اس (حالت) نے ان کے ایمان اور جذبۂ اطاعت کو اور بڑھا دیا
‘‘۔
لیکن منافقین اور کمزور نفس لوگوں کی نظر اس لشکر پر پڑی تو ان کے دل دہل
گئے :۔
وَاذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ مَّا
وَعَدَنَا اللَّہُ وَرَسُولُہُ الَّا غُرُوراً ( 12:33)
’’اور جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے کہہ رہے تھے کہ اللہ
اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ محض فریب تھا‘‘۔
بہرحال اس لشکر سے مقابلے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تین
ہزار مسلمانوں کی نفری لے کر تشریف لائے اور کوہ سلع کی طرف پشت کرکے قلعہ
بندی کی شکل اختیار کرلی ۔ سامنے خندق تھی جو مسلمانوں اور کفار کے درمیان
حائل تھی ۔ مسلمانوں کا شعار (کوڈ لفظ) تھا حم لَا یُنصَرون (حم ان کی مدد
نہ کی جائے )۔ مدینے کا انتظام حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے حوالے
کیا گیا تھا اور عورتوں اور بچوں کو مدینے کے قلعوں اور گڑھیوں میں محفوظ
کردیاگیا تھا ۔
جب مشرکین حملے کی نیت سے مدینے کی طرف بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک چوڑی
سی خندق ان کے اور مدینے کے درمیاں حائل ہے ۔ مجبوراً انہیں محاصرہ کرنا
پڑا ، حالانکہ وہ گھروں سے چلتے وقت اس کے لئے تیار ہوکر نہیں آئے تھے ۔
کیونکہ دفاع کا یہ منصوبہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خود ان کے بقول ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ایسی
چال تھی جس سے عرب واقف ہی نہ تھے ۔ لہٰذا انہوں نے اس معاملے کو سرے سے
اپنے حساب میں داخل ہی نہ کیا تھا ۔
مشرکین خندق کے پاس پہنچ کر غیظ و غضب سے چکر کاٹنے لگے ۔ انہیں ایسے کمزور
نقطے کی تلاش تھی جہاں سے وہ اتر سکیں ۔ ادھر مسلمان ان کی گردش پرپوری
پوری نظر رکھے ہوئے تھے اور ان پر تیر برساتے رہتے تھے تاکہ انہیں خندق کے
قریب آنے کی جراءت نہ ہو ۔ وہ اس میں نہ کود سکیں اور نہ مٹی ڈال کر عبور
کرنے کے لیے راستہ بنا سکیں ۔
ادھر قریش کے شہسواروں کو گوارہ نہ تھا کہ خندق کے پاس محاصرے کے نتائج کے
انتظار میں بے فائدہ پڑے رہیں ۔ یہ ان کی عادت اور شان کے خلاف بات تھی ۔
چنانچہ ان کی ایک جماعت نے جن میں عَمرو بن عبدود ، عکرمہ بن ابی جہل ، اور
ضرار بن خطاب وغیرہ تھے ایک تنگ مقام سے خندق پار کرلی اور ان کے گھوڑے
خندق اور سلع کے درمیان میں چکر کاٹنے لگے ۔ ادھر سے حضرت علی رضی اللہ عنہ
چند مسلمانوں کے ہمراہ نکلے اور جس مقام سے انہوں نے گھوڑے کدائے تھے اسے
قبضے میں لے کر ان کی واپسی کا راستہ بند کر دیا ۔ اس پر عمرو بن عبدود نے
مبارزت کے لیے للکارا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ دو دو ہاتھ کرنے کے لیے
مقابلہ میں آگئے ۔ اور ایک ایسا فقرہ چست کیا کہ وہ طیش میں آکر گھوڑے سے
کود پڑا ۔ اس کی کوچیں کاٹیں ، اس کے چہرے کو مارا اور حضرت علی رضی اللہ
عنہ کے دوبدو آگیا ۔ بڑا بہادر اور شہ زور تھا ۔ دونوں میں پرزور ٹکر ہوئی
ہر ایک نے دوسرے پر بڑھ بڑھ کر وار کئے ۔ بالآخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے
اس کا کام تمام کردیا ۔ باقی مشرکین بھاگ کر خندق پار چلے گئے ۔ وہ اس قدر
مرعوب تھے کہ عکرمہ نے بھاگتے ہوئے اپنا نیزہ بھی چھوڑ دیا ۔
مشرکین نے کسی کسی دن خندق پار کرنے یا اسے پاٹ کر راستہ بنانے کی بڑی
زبردست کوشش کی لیکن مسلمانوں نے بڑی عمدگی سے انہیں دور رکھا اور انہیں اس
طرح تیروں سے چھلنی کیا اور ایسی پامردی سے ان کی تیر اندازی کا مقابلہ کیا
کہ ان کی ہر کوشش ناکام ہو گئی ۔
اسی طرح کے پرزور مقابلوں کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کی بعض نمازیں بھی فوت ہو گئیں تھیں ۔ چنانچہ صحیحین
میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ،
خندق کے روز آئے اور کفار کو سخت سست کہتے ہوئے کہنے لگے کہ یار سول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم ! آج میں بمشکل سورج ڈوبتے ڈوبتے نماز پڑھ سکا ۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اور میں نے تو واللہ ابھی نماز پڑ ھی
ہی نہیں ہے ۔ اس کے بعد ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بطحان میں
اترے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے وضو فرمایا اور ہم نے بھی وضو
کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑ ھی ۔ یہ سورج ڈوب چکنے
کے بعد کی بات ہے ۔ اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی ۔ (12)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نماز کے فوت ہونے کا اس قدر ملال تھا کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین پر بددعا فرما دی ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے
روز فرمایا : ’’ اللہ ان مشرکین کے لیے ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر
دے جس طرح انہوں نے ہم کو نماز وسطیٰ ( کی ادائیگی) سے مشغول رکھا یہاں تک
کہ سورج ڈوب گیا ۔ (13)
مسند احمد اور مسند شافعی میں مروی ہے کہ مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کو ظہر، عصر ،مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی سے مصروف رکھا چنانچہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ساری نمازیں یکجا پڑھیں ۔ امام نووی فرماتے ہیں
کہ ان روایتوں کے درمیان تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جنگ خندق کا سلسلہ کئی روز
تک جاری رہا ۔ پس کسی دن ایک صورت پیش آئی اور کسی دن دوسری ۔ (14)
یہیں سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ مشرکین کی طرف سے خندق عبور کرنے کی
کوشش اور مسلمانوں کی طرف سے پیہم دفاع کئی روز تک جاری رہا ؛ مگر چونکہ
دونوں فوجوں کے درمیان خندق حائل تھی اس لیے دست بدست اور خونریز جنگ کی
نوبت نہ آسکی ۔ بلکہ صرف تیر اندازی ہوتی رہی ۔
اسی تیراندازی میں فریقین کے چند افراد مارے بھی گئے ---------- لیکن انہیں
انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے ۔ یعنی چھ مسلمان اور دس مشرک جن میں سے ایک یا
دو آدمی تلوار سے قتل کئے گئے تھے ۔
اسی تیر اندازی کے دوران حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بھی ایک تیر لگا
جس سے ان کے بازو کی بڑی رگ کٹ گئی ۔ انہیں حبان بن عرقہ نامی ایک قریشی
مشرک کا تیر لگا تھا ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ( زخمی ہونے کے بعد ) دعا
کی کہ اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ جس قوم نے تیرے رسول کی تکذیب کی اور انہیں
نکال باہر کیا ان سے تیری راہ میں جہاد کرنا مجھے جس قدر محبوب ہے اتنا کسی
اور قوم سے نہیں ۔ اے اللہ ! میں سمجھتا ہوں کہ اب تو نے ہماری اور ان کی
جنگ کو آخری مرحلے تک پہنچا دیا ہے ۔ پس اگر قریش کی جنگ کچھ باقی رہ گئی
ہو تو مجھے ان کے لیے باقی رکھ کہ میں ان سے تیری راہ میں جہاد کروں اور
اگر تو نے لڑائی ختم کر دی ہے تو اسی زخم کو جاری کرکے اسے میری موت کا سبب
بنا دے ۔ (15) ان کی اس دعا کا آخری ٹکڑا یہ تھا کہ (لیکن) مجھے موت نہ دے
یہاں تک کہ بنو قریظہ کے معاملے میں میری آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہو جائے ۔
(16) بہر کیف ایک طرف مسلمان محاذ جنگ پر ان مشکلات سے دوچار تھے تودوسری
طرف سازش و دسیسہ کاری کے سانپ اپنے بلوں میں حرکت کررہے تھے اور اس کوشش
میں تھے کہ مسلمانوں کے جسم میں اپنا زہر اتار دیں ۔ چنانچہ بنو نضیر کا
مجرم اکبر ۔ ۔ ۔ حُیَی بن اَخطب ۔ ۔ ۔ بنو قریظہ کے دیار میں آیا اور ان کے
سردار کعب بن اسد قرظی کے پاس حاضر ہوا ۔ یہ کعب بن اسد وہی شخص ہے جو بنو
قریظہ کی طرف سے عہدو پیمان کرنے کا مجاز و مختار تھا اور جس نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ جنگ کے مواقع پر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی مدد کرے گا ( جیسا کہ پچھلے صفحات میں گزر چکا ہے )۔ حُیَی نے
آکر اس کے دروازے پر دستک دی تو اس نے دروازہ اندر سے بند کر لیا ؛ مگرحیی
اس سے ایسی ایسی باتیں کرتا رہا کہ آخر کار اس نے دروازہ کھول ہی دیا ۔ حیی
نے کہا : ’’ اے کعب ! میں تمہارے پاس ہمیشہ کی عزت اور( فوجوں کا) بحر بے
کراں لے کر آیا ہوں ۔ میں نے قریش کو اس کے سرداروں اور قائدین سمیت لاکر
رومہ کے مجمع الاسیال میں اتار دیا ہے اور بنو غطفان کو ان کے قائدین اور
سرداروں سمیت اُحد کے پاس ذنب نقمی میں خیمہ زن کر دیا ہے ۔ ان لوگوں نے
مجھ سے عہد و پیمان کیا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے
ساتھیوں کا مکمل صفایا کیے بغیر یہاں سے نہ ٹلیں گے ‘‘۔
کعب نے کہا : ’’ خدا کی قسم تم میرے پاس ہمیشہ کی ذلت اور ( فوجوں کا )
برسا ہوا بادل لے کر آئے ہو جو صرف گرج چمک رہا ہے ، مگر اس میں رہ کچھ
نہیں گیا ہے ۔ حیی! تجھ پر افسوس ! مجھے میرے حال پر چھوڑ دے ۔ میں نے محمد
صلی اللہ علیہ وسلم میں صدق و وفا کے سوا کچھ نہیں دیکھا ہے ‘‘۔
مگر حیی اس کو فریب دہی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا رہا ۔ یہاں تک کہ
اسے رام کرہی لیا ۔ البتہ اسے اس مقصد کے لئے یہ عہدو پیمان کرنا پڑا کہ
اگر قریش نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم کئے بغیر واپسی کی راہ لی تو
میں بھی تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہوجاؤں گا ۔پھر جو انجام تمہارا
ہو گا وہی میرا بھی ہوگا ۔ حیی کے اس پیمان وفا کے بعد کعب بن اسد نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا عہد توڑ دیا اور مسلمانوں کے ساتھ طے
کی ہوئی ذمّے داریوں سے بری ہو کر ان کے خلاف مشرکین کی جانب سے جنگ میں
شریک ہو گیا ۔ (17)
اس کے بعد قریظہ کے یہود عملی طور پرجنگی کاروائیوں میں مصروف ہوگئے ۔ ابن
اسحاق کا بیان ہے کہ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا ، حضرت حسان بن
ثابت رضی اللہ عنہ کے فارع نامی قلعے کے اندر تھیں ۔ حضرت حسان رضی اللہ
عنہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ وہیں تھے ۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں
کہ ہمارے پاس سے ایک یہودی گزرا اور قلعے کا چکر کاٹنے لگا ۔ یہ اس وقت کی
بات ہے جب بنو قریظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا عہدوپیمان
توڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بر سر پیکار ہو چکے تھے اور ہمارے اور ان
کے درمیان کوئی نہ تھا جو ہمارا دفاع کرتا ----------- رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم مسلمانوں سمیت دشمن کے بالمقابل پھنسے ہوئے تھے ۔ اگر ہم پر کوئی
حملہ آور ہوجاتا تو آپ انہیں چھوڑ کر آ نہیں سکتے تھے ۔ اس لیے میں نے کہا
: ’’ اے حسان ! یہ یہودی ----------- جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ دیکھ رہے ہیں
، قلعے کا چکر لگا رہا ہے اور مجھے خدا کی قسم اندیشہ ہے کہ یہ باقی یہود
کو بھی ہماری کمزوری سے آگاہ کردے گا ۔ ۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ ہماری مدد کو
نہیں آسکتے لہٰذا آپ جائیے اور اسے قتل کر دیجئے ‘‘ ۔ حضرت حسان رضی اللہ
عنہ نے کہا واللہ آپ جانتی ہیں کہ میں اس کام کا آدمی نہیں ۔ حضرت صفیہ رضی
اللہ عنہ کہتی ہیں اب میں نے خود اپنی کمر باندھی ۔ پھر ستون کی ایک لکڑی
لی ۔ اور اس کے بعد قلعے سے اتر کر اس یہودی کے پاس پہنچی اور لکڑی سے مار
مار کر اس کا خاتمہ کردیا۔ اس کے بعد قلعے میں واپس آئی اور حسان رضی اللہ
عنہ سے کہا : ’’ جائیے اس کے ہتھیار اور اسباب اتار لیجئے ۔ چونکہ وہ مرد
ہے اس لیے میں نے اس کے ہتھیار نہیں اتارے ۔ حسان رضی اللہ عنہ نے کہا ،
مجھے اس کے ہتھیار اورسامان کی کوئی ضرورت نہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بچوں اور عورتوں کی حفاظت پر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی پھوپھی کے اس جانبازانہ کارنامے کا بڑا گہرا اور اچھا اثر پڑا
۔ اس کاروائی سے غالباً یہود نے سمجھا کہ ان قلعوں اور گڑھیوں میں بھی
مسلمانوں کا حفاظتی لشکر موجود ہے ۔ ---------- حالانکہ وہاں کوئی لشکر نہ
تھا ------------ اسی لیے یہود کو دوبارہ اس قسم کی جراءت نہ ہوئی ۔ البتہ
وہ بت پرست حملہ آوروں کے ساتھ اپنے اتحاد اور انضمام کا عملی ثبوت پیش
کرنے کے لیے انہیں مسلسل رسد پہنچاتے رہے حتیٰ کہ مسلمانوں نے ان کی رسد کے
بیس اونٹوں پر قبضہ بھی کرلیا ۔
بہرحال یہود کی عہد شکنی کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم
ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اس کی تحقیق کی طرف توجہ فرمائی
تاکہ بنو قریظہ کا مؤقف واضح ہو جائے اور اس کی روشنی مین فوجی نقطۂ نظر سے
جو اقدام مناسب ہو اختیار کیا جائے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر
کی تحقیق کے لیے حضرت سعد بن معاذ ، سعد بن عبادہ ، عبداللہ بن رواحہ اور
خوات بن جبیر رضی اللہ عنہم کو روانہ فرمایا اور ہدایت کی کہ جاؤ ! دیکھو !
بنی قریظہ کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ واقعی صحیح ہے یا نہیں ؟ اگر
صحیح ہے تو واپس آکر صرف مجھے بتادینا اور وہ بھی صرف اشاروں اشاروں میں ۔
تاکہ لوگوں کے حوصلے پست نہ ہوں ۔ اور اگر وہ عہدو پیمان پر قائم ہیں تو
پھر لوگوں کے درمیان علانیہ اس کا ذکر کردینا ۔ جب یہ لوگ بنو قریظہ کے
قریب پہنچے تو انہیں انتہائی خباثت پر آمادہ پایا ۔ انہوں نے اعلانیہ
گالیاں بکیں ، دشمنی کی باتیں کیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
اہانت کی۔ کہنے لگے :’’اللہ کا رسول کون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ہمارے اور محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی عہد ہے نہ پیمان ‘‘۔ یہ سن کر وہ لوگ واپس
آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر صورتحال کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا ، عضل اور قارہ ۔ مقصود یہ تھا کہ جس طرح عضل
اور قارہ نے اصحاب رجیع کے ساتھ بد عہدی کی تھی اسی طرح یہود بھی بد عہدی
پر تلے ہوئے ہیں ۔
باوجود یکہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اخفائے حقیقت کی کوشش کی لیکن
عام لوگوں کو صورتحال کا علم ہو گیا اور اس طرح ایک خوفناک خطرہ ان کے
سامنے مجسم ہو گیا ۔
درحقیقت اس وقت مسلمان نہایت نازک صورتحال سے دوچار تھے ۔ پیچھے بنو قریظہ
تھے جس کا حملہ روکنے کے لیے ان کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی نہ تھا ؛
آگے مشرکین کا لشکر جرار تھا جنہیں چھوڑ کر ہٹنا ممکن نہ تھا ۔ پھر مسلمان
عورتیں اور بچے تھے جو کسی حفاظتی انتظام کے بغیر بد عہد یہودیوں کے قریب
ہی تھے اس لیے لوگوں میں سخت اضطراب برپا ہوا جس کی کیفیت اس آیت میں بیان
کی گئی ہے :
وَاذْ زَاغَتْ الابْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ
بِاللَّہِ الظُّنُونَاoہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا
زِلْزَالاً شَدِیْدا (10/11:33)
’’ اور جب نگاہیں کج ہو گئیں ، دل حلق میں آگئے ، اور تم لوگ اللہ کے ساتھ
طرح طرح کے گمان کرنے لگے ۔ اس وقت مومنوں کی آزمائش کی گئی اور انہیں شدت
سے جھنجھوڑ دیا گیا‘‘ ۔
پھر اسی موقع پر بعض منافقین کے نفاق نے بھی سر نکالا ؛ چنانچہ وہ کہنے لگے
کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم توہم سے وعدے کرتے تھے کہ ہم قیصر و کسریٰ کے
خزانے پائیں گے اور یہاں یہ حالت ہے کہ پیشاب پائخانے کے لیے نکلنے میں بھی
جان کی خیر نہیں ۔ بعض اور منافقین نے اپنی قوم کے اشراف کے سامنے یہاں تک
کہاکہ ہمارے گھر دشمن کے سامنے کھلے پڑے ہیں ۔ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم اپنے
گھروں کو واپس چلے جائیں کیونکہ ہمارے گھر شہر سے باہر ہیں ۔ نوبت یہاں تک
پہنچ چکی تھی کہ بنو سلمہ کے قدم اکھڑ رہے تھے اور وہ پسپائی کی سوچ رہے
تھے ۔ ان ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے :
وَاذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ مَّا
وَعَدَنَا اللَّہُ وَرَسُولُہُ الَّا غُرُوراً oوَاذْ قَالَت طَّائِفَۃٌ
مِّنْہُمْ یَااَہْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوا وَیَستاْذِنُ
فَرِیْقٌ مِّنْہُمُ النَّبِیَّ یَقُولُونَ انَّ بُیُوتَنَا عَوْرَۃٌ وَمَا
ہِیَ بِعَوْرَۃٍ ان یُرِیْدُونَ الَّا فِرَاراً (12/13:33)
’’ اور جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے کہہ رہے تھے کہ ہم
سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وعدہ کیا ہے وہ فریب کے
سوا کچھ نہیں ۔ اور جب ان کی ایک جماعت نے کہا کہ اے اہل یثرب ! تمہارے لیے
ٹھہرنے کی گنجائش نہیں لہٰذا واپس چلو ۔ اور ان ایک فریق نبی صلی اللہ علیہ
وسلم سے اجازت مانگ رہا تھا ۔ کہتا تھا ، ہمارے گھر خالی پڑے ہیں ۔ حالانکہ
وہ خالی نہیں پڑے تھے ۔ یہ لوگ محض فرار چاہتے تھے‘‘۔
ایک طرف لشکرکا یہ حال تھا ۔ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ
کیفیت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کی بد عہدی کی خبر سن کر
اپنا سر اور چہرہ کپڑے سے ڈھک لیا اور دیر تک چت لیٹے رہے ۔ اس کیفیت کو
دیکھ کر لوگوں کا اضطراب اورزیادہ بڑھ گیا ؛ لیکن اس کے بعد آپ صلی اللہ
علیہ وسلم پر اُمید کی روح غالب آگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ اکبر
کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ، مسلمانو! اللہ کی مدد اور فتح کی
خوشخبری سن لو ! اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش آمدہ حالات سے
نمٹنے کا پروگرام بنایا اور اسی پروگرام کے ایک جزو کے طور پر مدینے کی
نگرانی کے لیے فوج میں سے کچھ محافظ بھیجتے رہے تاکہ مسلمانوں کو غافل دیکھ
کر یہود کی طرف سے عورتوں اور بچوں پر اچانک کوئی حملہ نہ ہوجائے ۔ لیکن اس
موقع پر ایک فیصلہ کن اقدام کی ضرورت تھی جس کے ذریعے دشمن کے مختلف گروہوں
کو ایک دوسرے سے بے تعلق کر دیا جائے ۔ اس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے سوچا کہ بنو غطفان کے دونوں سرداروں عُیینَہ بن حصن اور حارث بن
عوف سے مدینے کی ایک تہائی پیداوار پر مصالحت کر لیں تاکہ یہ دونوں سردار
اپنے اپنے قبیلے لے کر واپس چلے جائیں اور مسلمان تنہا قریش پر جن کی طاقت
کا بار بار اندازہ لگایا جا چکا تھا ، ضرب کاری لگانے کے لیے فارغ ہو جائیں
۔ اس تجویز پر کچھ گفت و شنید بھی ہوئی مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے اس
تجویز کے بارے میں مشورہ کیا تو ان دونوںنے بیک زبان عرض کیا کہ یا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگراللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم
دیا ہے تب تو بلا چون و چرا تسلیم ہے اور اگر محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم
ہماری خاطرایسا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ۔ جب ہم لوگ اور
یہ لوگ دونوں شرک و بت پرستی پر تھے تب تو یہ لوگ میزبانی یا خرید و فروخت
کے سوا کسی اور صورت سے ایک دانے کی بھی طمع نہیں کر سکتے تھے تو بھلا اب
جب کہ اللہ نے ہمیں ہدایتِاسلام سے سرفراز فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے ذریعے عزت بخشی ہے ، ہم انہیں اپنا مال دیں گے ؟ واللہ ہم تو انہیں
صرف اپنی تلوار دیں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی رائے کو
درست قرار دیا اور فرمایا کہ جب میں نے دیکھا کہ سارا عرب ایک کمان کھینچ
کر تم پرپل پڑا ہے تو محض تمہاری خاطر میں نے یہ کام کرنا چاہا تھا ۔
پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الحمد للہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دشمن ذلیل
ہو گئے ۔ ان کی جمعیت شکست کھا گئی اور ان کی قوت ٹوٹ گئی ۔ ہوا یہ کہ بنو
غطفان کے ایک صاحب جن کا نام نُعیم بن مسعود بن عامر اشجعی تھا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم ! میں مسلمان ہو گیا ہوں لیکن میری قوم کو میرے اسلام
لانے کا علم نہیں لہٰذا آپ مجھے کوئی حکم فرمائیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا ، تم فقط ایک آدمی ہو ( لہٰذا کوئی فوجی اقدم تو نہیں
کر سکتے ) البتہ جس قدر ممکن ہو ان کی حوصلہ شکنی کرو ۔ کیوں جنگ تو حکمت
عملی کا نام ہے ۔ اس پر حضرت نُعیم رضی اللہ عنہ فوراًہی بنو قریظہ کے ہاں
پہنچے ۔ جاہلیت میں ان اسے ان کا بڑا میل جول تھا ۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے
کہا ، آپ لوگ جانتے ہیں کہ مجھے آ پ لوگوں سے محبت اور خصوصی تعلق ہے ۔
انہوں نے کہا ، جی ہاں ۔ نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا ، اچھا تو سنیے کہ قریش
کا معاملہ آپ لوگوں سے مختلف ہے ۔ یہ علا قہ آپ کا اپنا علاقہ ہے ۔ یہاں آپ
کا گھر بار ہے ، مال ودولت ہے ، بال بچے ہیں ۔ آپ اسے چھوڑ کر کہیں اور
نہیں جا سکتے مگر جب قریش و غطفان محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے آئے
تو آپ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ان کا ساتھ دیا ۔ ظاہر ہے ان کا
یہاں نہ گھر بار ہے ، نہ مال و دولت ہے نہ بال بچے ہیں اس لیے انہیں موقع
ملا تو کوئی قدم اٹھائیں گے ورنہ بوریا بستر باندھ کر رخصت ہو جائیں گے ۔
پھر آپ لوگ ہوں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے ۔ لہٰذا وہ جیسے
چاہیں گے آپ سے انتقام لیں گے ۔ اس پر بنو قریظہ چونکے اوربولے نعیم !
بتائیے اب کیا کیا جا سکتا ہے ؟ انہوں نے کہا ، دیکھئے ! قریش جب تک آپ
لوگوں کو اپنے کچھ آدمی یرغمال کے طور پر نہ دیں ، آپ ان کے ساتھ جنگ میں
شریک نہ ہوں ۔ قریظہ نے کہا ، آپ نے بہت مناسب رائے دی ہے ۔
اس کے بعد حضرت نُعَیم رضی اللہ عنہ سیدھے قریش کے پاس پہنچے اور بولے : ’’
آپ لوگوں سے مجھے جو محبت اور جذبۂ خیر خواہی ہے اسے تو آپ جانتے ہی ہیں؟
‘‘ انہوں نے کہا: ’’ جی ہاں ! ‘‘ حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ اچھا
تو سنیے کہ یہود نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقاء سے جو عہد
شکنی کی تھی اس پر وہ نادم ہیں اور اب ان میں یہ مراسلت ہوئی ہے کہ وہ (
یہود ) آپ لوگوں سے کچھ یرغمال حاصل کرکے ان ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے
حوالے کر دیں گے اور پھر آپ لوگوں کے خلاف محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا
معاملہ استوار کر لیں گے ۔ لہٰذا اگروہ یرغمال طلب کریں تو آپ ہرگز نہ دیں
‘‘ ۔ اس کے بعد غطفان کے پاس جا کر بھی یہی بات دہرائی (اور ان کے بھی کان
کھڑے ہوگئے )۔
اس کے بعد جمعہ اور سینچر کی درمیانی رات کو قریش نے یہود کے پاس یہ پیغام
بھیجا کہ ہمارا قیام کسی سازگار اور موزوں جگہ پرنہیں ہے ۔
گھوڑے اور اونٹ مر رہے ہیں ۔ لہٰذا اِدھر سے آپ لوگ اور اُدھر سے ہم لوگ
اٹھیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کردیں ۔ لیکن یہود نے جواب میں
کہلایاکہ آج سینچر کا دن ہے اور آپ جانتے ہی کہ ہم سے پہلے جن لوگوں نے اس
دن کے بارے میں حکمِ شریعت کی خلاف ورزی کی تھی انہیں کیسے عذاب سے دوچار
ہونا پڑا تھا ۔ علاوہ ازیں آپ لوگ جب تک اپنے کچھ آدمی ہمیں بطور یرغمال نہ
دے دیں ہم لڑائی میں شریک نہ ہوں گے ۔ قاصد جب یہ جواب لے کر واپس آئے تو
قریش اور غطفان نے کہا : ’’ واللہ نُعیم نے سچ ہی کہا تھا ‘‘۔ چنانچہ انہوں
نے یہود کو کہلا بھیجا کہ خدا کی قسم ! ہم آپ کو کوئی آدمی نہ دیں گے ، بس
آپ لوگ ہمارے ساتھ ہی نکل پڑیں اور ( دونوں طرف سے ) محمد صلی اللہ علیہ
وسلم پر ہلہ بول دیا جائے ۔ یہ سن کر قریظہ نے باہم کہا ، واللہ نعیم نے ہم
سے سچ ہی کہا تھا ، اس طرح دونوں فریق کا اعتماد ایک دوسرے سے اٹھ گیا ۔ ان
کی صفوں میں پھوٹ پڑ گئی اور ان کے حوصلے ٹوٹ گئے ۔
اس دوران مسلمان اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکررہے تھے :
اَلّٰلھُمَّ استُرْ عَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا
’’ اے اللہ ہماری پردہ پوشی فرما اور ہمیں خطرات سے مامون کردے ‘‘۔ اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرما رہے تھے :
اَلّٰلھُمَّ مُنزِلَ الکِتَابِ سَریعَ الحِسَابِ اھزِمِ الاَحزَابَ
اَلّٰلھُم اھْزِمھُمْ وَ زَلزِلھُم (19)
’’ اے اللہ ! کتاب اتارنے والے اور جلد حساب لینے والے ؛ ان لشکروں کو شکست
دے ۔ اے اللہ ! انہیں شکست دے اور جھنجھوڑ کر رکھ دے‘‘ ۔
بالآخر اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی دعائین سن
لیں ۔ چنانچہ مشرکین کی صفوں میں پھوٹ پڑ جانے اور بددلی و پست ہمتی سرایت
کرجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر تند ہواؤں کا طوفان بھیج دیا جس نے ان
کے خیمے اکھیڑ دئیے ، ہانڈیاں الٹ دیں ، طنابوں کی کھونٹیاں اکھاڑ دیں ،
کسی چیز کو قرار نہ رہا اور اس کے ساتھ ہی فرشتوں کا لشکر بھیج دیا جس نے
انہیں ہلا ڈالا اور ان کے دلوںمیں رُعب اور خوف ڈال دیا ۔
اسی سرد اور کڑکڑاتی ہوئی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت
حُذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو کفار کی خبر لانے کے لیے بھیجا ۔ موصوف ان
کے محاذ میں پہنچے تو وہاں ٹھیک یہی حالت بپا تھی اور مشرکین واپسی کے لیے
تیار ہوچکے تھے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے خدمتِ نبوی میں واپس آکر ان کی
روانگی کی اطلاع دی ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی تو (
دیکھا کہ میدان صاف ہے ) اللہ نے دشمن کو کسی خیر کے حصول کا موقع دئیے
بغیر اس کے غیظ و غضب سمیت واپس کر دیا ہے اور ان سے جنگ کے لیے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کو کافی ہو گیا ہے ۔ الغرض اس طرح اللہ نے اپنا وعدہ پورا
کیا ، اپنے لشکر کو عزت بخشی ، اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے ہی سارے
لشکروں کو شکست دی ۔ چنانچہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس
آگئے ۔
غزوہ خندق صحیح ترین قول کے مطابق شوال 5ھ میں پیش آیا تھا اور مشرکین نے
ایک ماہ یا تقریباً ایک ماہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں
کا محاصرہ جاری رکھا تھا ۔ تمام مآخذ پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے
کہ محاصرے کا آغاز شوال میں ہوا تھا اور خاتمہ ذی قعدہ میں۔ ابن سعد کا
بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس روز خندق سے واپس ہوئے بدھ کا
دن تھا ۔ اور ذی قعدہ کے ختم ہونے میں صرف سات دن باقی تھے۔
جنگ احزاب درحقیقت نقصان جان و مال کی جنگ نہ تھی بلکہ اعصاب کی جنگ تھی ۔
اس میں کوئی خون ریز معرکہ پیش نہیں آیا لیکن پھر بھی یہ اسلامی تاریخ کی
ایک فیصلہ کن جنگ تھی ۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں مشرکین کے حوصلے ٹوٹ گئے
اور یہ واضح ہو گیا کہ عرب کی کوئی بھی قوت
مسلمانوں کی اس چھوٹی سی طاقت کو جو مدینے میں نشوونما پا رہی ہے ختم نہیں
کر سکتی ۔ کیونکہ جنگِ احزاب میں جتنی بڑی طاقت فراہم ہو گئی تھی اس سے بڑی
طاقت فراہم کرنا عربوں کے بس کی بات نہ تھی اس لیے رسول اللہ احزاب کی
واپسی کے بعد فرمایا :
اَلاٰن نَغزُو ھُم وَلاَ یَغزُونَا ، نَحنُ نَسِیرُ اِلَیہِم (20)
’’ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے وہ ہم پر چڑھائی نہ کریں گے اب ہمارا لشکر
ان کی طرف جائے گا ‘‘ ۔
بھاہی محمد نعیم صاحب
-: رکن مکتبہ اسلامیہ کی کاوش اور
مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری صاحب مرحوم کی تحریر سے ایک جھلک
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حوالہ جات :
1-صحیح بخاری باب غزوہ خندق 588/2
2 -صحیح بخاری 397/1, 588/2
3-صحیح بخاری 589/2
4-یضاً 588/2
5-جامع تر مذی ، مشکوۃ المصابیح 448/2
6-یہ واقعہ صحیح بخاری میں مروی ہے دیکھئے 588, 589/2
7-ابن ہشام 218/2
8-صحیح بخاری 588/2
9-سنن نسائی 56/2، مسند احمد ، یہ الفاظ نسائی کے نہیں ہیں ۔ اور نسائی میں
عن رجل من الصحابہ ہے ۔
10-ابن ہشام 219/2
11-ابن ہشام 220, 221/3
12-صحیح بخاری 590/2
13-صحیح بخاری590/2
14-مختصر السیرۃ للشیخ عبداللہ ص287، شرح مسلم للنووی 227/1
15-صحیح بخاری591/2
16-ابن ہشام 227/2
17-ابن ہشام 220, 221/2
18-ابن ہشام 228/2
19-صحیح بخاری کتاب الجہاد411/1، کتاب المغازی 590/2
20-صحیح بخاری 590/2
اللہ کمی معاف فرماۓ.آمین
|