میرا عنوان ایسا ہے کہ آپ محسوس
کر رہے ہوں گے کہ جیسے میں کسی تیسری دنیا کہ سربراہ کی ترقی یافتہ ملک کے
ناخدا سے ملاقا ت یا بھیک مانگنے کا منظر پیش کر رہا ہوں۔ایسا ہرگز نہیں ہے
۔میں بھلا ایسی جسارت کیوں کر کرسکتا ہوں ۔جبکہ میں نے بچپن سے سن رکھا ہے
”جس کی لاٹھی اسی کی بھینس“۔اور غریبوں کے ہاتھ میں تو پچھلی عمر میں ہی
لاٹھی آتی ہے اور وہ بھی صرف اپنی چارپائی پر بیٹھ کر کسی کٹھ پتلی حاکم کی
طرح چھڑی لہراتے اور للکارتے ہیں جبکہ ان کی پکار کا کسی پر اثر ہی نہیں
ہوتا۔اس لیئے آج آپ کی پیشن گوئی غلط ثابت ہوئی ہے۔ویسے تو ہمہ وقت اس ملک
کے باسی پیشن گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔اور آج کل تو یہ فیشن بن گیاہے۔ہر سات
دنوں میں کسی نہ کسی چینل پر کوئی پامسٹ یا نجومی اپنے علم کے تفاخر میں
شیخی بگھارتے ہوئے نظر آتا ہے۔اپنے اگلے لمحے سے نا آشنا لوگ اپنی چند لگی
لپٹی باتوں میں آپ کی زندگی کے مستقبل کے بارے میں نہایت مفصل انداز میں آپ
کو بتلادیتے ہیں۔
حکومت کے ردوبدل اور نجی زندگی کے تمام شعبہ جات پر تقریر جھاڑنے والے آج
تک قیامت کی حتمی تاریخ نہیں بتا پائے۔عجب ہے اپنی ہی موت سے نابلد لوگ غیب
کی باتیں کرتے ہیں۔بہرحال ہمیں محترم نجومی صاحبان سے کوئی بغض و کدورت
نہیں ہے۔ہم ان کا تہ دل سے احترام کرتے ہیں کیونکہ وہ بھی ہماری مانند بنی
آدم ہیں۔مزید بات کرنا ان کی روزی پر لات مارنے کے مترادف ہے۔کہتے ہیں ”کسی
کے روزگار کا خاتمہ کرنا یا کروانا آسان ہے جبکہ اس کا بندوبست کرنا دشوار
ہے“۔اسی ہی لیئے تو ہمارے امراء(خواہ فوجی ہو ‘نیم فوجی یا سول)یہ مشکل کام
لفظوں ‘ہندسوں اور فگرز میں انجام دیتے ہیں۔کیونکہ پریکٹیکل لائف میں بے
روزگاری کے اختتام کیلئے حکمت عملی اور کفایت شعاری کی اشد ضرورت ہے ۔اشد
ضرورت تو ہمیں اخلاقیات کی بھی ہے۔جسے ہم نے اپنی عملی زندگی میں سے دیس
نکالا دے دیا ہے۔جبکہ سرور کائنات محبوب خداﷺ کا فرمان عالیشان
ہے(مفہوم)”قیامت کے دن مومن کے نامہ اعمال میں سب سے بھاری چیزاس کا اعلیٰ
اخلاق ہوگا“۔اب یہ بھی بھلا کوئی کہنے کی بات ہے ۔ایک صاحب کو میں نے کہتے
ہوئے سنا”عوام میں عدم برداشت ‘کرپشن ‘دورخاپن ودروغ گوئی‘ لوڈ شیڈنگ‘بے
روزگاری‘ اور بادشاہوں کے زیر اثرپایہ تکمیل کو پہنچی“۔ہم اپنی تمام تر
کوتاہیوں کا بوجھ بیچارے سیدھے سادے‘نرم مزاج ‘خوش گفتار‘بلندکردار‘عالی
ظرف‘انمول‘غریب نوااور دردمند سیاستدانوں پر ڈال دیتے ہیں۔جو کہ بہتان کے
زمرے میں آتا ہے۔اور اسلام نے بہتان کی شدید مذمت فرمائی ہے (اور بہتان
لگانے والوں کی آئندہ کے واسطے گواہی بھی قابل قبول نہیں رہتی)۔اس سے ہمیں
کنارہ کش رہنا چاہیئے ۔لیکن ہم اسے ڈرون حملوں والی مذمت جتنی اہمیت دیتے
ہیں۔استغفراللہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔بلکہ دین فطرت نے اس کی نفی کی ہے۔اور
نفی تو ہمارے امراءمہنگائی اور سرحدوں کی خلاف ورزی کی بھی کرتے ہیں۔حتی کہ
بسااوقا ت نہایت اہم امور میں ملکی مفادات کی بھی نفی کرتے ہوئے نہیں
ہچکچاتے(تاریخ گواہ ہے خصوصا سابقہ دور)۔جبکہ آج کل فقط ذاتی مفادات کی
خاطر اپنے ہی جاری کردہ بیانات کی نفی جاری ہے۔اگر ملکی مفادات کی خاطر
ہمارے لیڈر اپنی ذات و پارٹی مفادات کی نفی کردیں تو تاریخ انہیں اچھے
الفاظ سے یاد کرے گی۔باتیں تو بہت ہیں لیکن عمل درآمد ندارد۔انتہا تویہ ہے
کہ جمہوری پارٹیاں وراثتی روپ دھار چکی ہیں ۔جو کہ ملوکیت ہے۔انہیں وجوہات
کی بنا پر پارٹیوں کی تقسیم در تقسیم جاری ہے۔جبکہ مضبوط حزب اقتدار کے
ساتھ اگر طاقتور ترین حزب اختلاف موجود ہو تو یہ بات ملکی مفاد میں جاتی
ہے۔جمہوری پارٹیوں میں نمائندگان کے چناﺅ کے لیئے نچلی سطح تک کے کارکن کی
رائے کو بھی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔تب ہے رائے عامہ کا بھی احترام باقی رہتا
ہے۔رائے تو ہمارے علماءبھی بہت دیتے ہیں۔لیکن آج کل حسن ظن کے بجائے سوئے
ظن سے زیادہ کام لیتے ہیں۔فرمان رسولﷺ ہے”میں ایسا دین لایا ہوں جس میں دن
ہے رات نہیں“۔لیکن شدید اختلاف نے ہمیں اس نہج پر پہنچادیا ہے کہ مسلمان
مسلمان کی گردن زنی کو راہ جنت تصور کرتاہے۔درحقیقت یہ سب کچھ دین کی دوری
یا حسن اختلاف کی کمی ہی ہے۔حدیث مبارک ہے”وہ وقت بھی آئے گا جب لوگ اللہ
کے کلام کو کئی قرائتوں سے پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے بھی نہیں
اترے گا“۔ہم لوگ عملی طور پر اس دور میں شامل ہوچکے ہیں۔آج ہمارے ستر فیصد
سے زائد دفاتر اور تعلیمی اداروں کا آغاز قرآن مجیدکی تلاوت سے ہی ہوتا
ہے۔اور ہم پاک کلام کوچند لمحات ہاتھ باندھ کر اور گردن جھکا کر سننے کے
بعد یہ تصور کرتے ہیں کہ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا۔اور اپنی عملی زندگی میں
اسے یکسر بھلادیتے ہیں۔جبکہ قرآن کا سننا اور اس پر عمل کرنا لازم و ملزوم
ہے۔اخوت‘رواداری ‘جانثاری اور انسانی جان کی عظمت تب ہی ہمارے قلب سے ناپید
ہوئی ہے جب سے ہم نے دین حق سے دوری اختیارکرکہ مادی زندگی کو اپنے اوپر
سوار کر لیا ہے۔ذہنی پریشانی سے نجات اور قلبی سکون اسوقت تک ہمیں میسر
نہیں آئے گاجب تک ہم قرآن و سنت کی ابدی تعلیمات کو اپنی ذاتی زندگی پر
بغیر کسی حیل وحجت کے لاگو نہیں کریں گے۔ |