عبد الرحمن کی شہادت ، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر۔۔۔؟

جب تک اس گوشت پوست کے بنے جسم کے ساتھ روح کا رشتہ قائم و دائم ہے مورخہ آٹھ جون 2011کا سانحہ عظیم بھلاکیسے بھلایا سکے گا۔۔۔ ؟ آٹھ جون کی رات شمالی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر میران شاہ سے پچاس کلومیٹر دور زوئی نارائی کے گاﺅں میں نیٹو فورسز اور امریکی ڈرونز نے کئی میزائل داغ کر پچیس کے قریب افراد کو ابدی نیند سلادیا جن میں عورتیں ، بچے اور مرد سبھی شامل تھے۔آپ بھی کہیں گے کہ ایک دن میں تین تین ڈرونز حملے ہوتے رہے ہیں جن میں ا ب تک پندرہ ہزار کے قریب افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے اور اس سے بھی دگنی تعداد میں قبائلی عوام کو زخمی کیا جا چکا ہے تو بھلا آٹھ جون کا سانحہ اس قلم کار کو کیوں اس قدر رنجید ہ کر گیا۔۔۔؟جی ہاں قارئین!آپ کے ذہن میں اس سوال نے بجا طور پر انگڑائی لی مگر میں اپنا جو غم اور ملا ل آپ کے ساتھ شیئر کرنے لگا ہوں تو میرا ایقان اور وجدان یہی کہہ رہا ہے کہ آپ میری یہ مختصر سی سٹوری سننے کے بعد ضرور نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔آٹھ جون کی رات جب میڈیا پر اس حملے کی خبر چلی تو دیگر اہالیان وطن کی طرح راقم السطور بھی چند لمحے کف ِ افسوس ملنے اور ان قبائلی بھائیوں کے دکھ میں دو چار ٹسوے بہانے کے بعد دنیا کی رنگ رنگینی میں کھو کر اپنی خوشیوں اور مسرتوں میں غلطاں و پیچاں ہو کر رہ گیامگر اس حملے کی پوری شدت اور حدت کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب آج ہی 11جون کو یہ جانکاہ خبر ملی کہ زوئی نارائی پر اس قیامت بر پا کردینے والے حملے میں ہمارا بہت ہی پیارا دوست عبد الرحمن بھی جام شہادت نوش کر گیا ۔اس خبر کے سنتے ہی میر ی حالت کیا ہوگی؟ آپ کو اپنی یہ کیفیت بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔بس میں اتنا کہوں گا کہ اس بہت بڑے صدمے کو کم ازکم میرے جیسا لکھاری بھلا ان صفحات پر کیسے بکھیر سکتا ہے۔۔۔؟ آج اس شخص کی مظلومانہ شہادت کو چوتھا روز گز ر رہا ہے اپنے اس دوست کی انتہائی دکھی اور مظلومانہ شہادت نے مجھے لکھنے اور کچھ سوچنے سمجھنے سے قاصر کر دیا ہے ، سمجھ نہیں آرہی کہ اس شخص کی کن کن صفات کا تذکرہ ہائے وفا کروں اور پھر اپنے دکھ اور درد کو کس طرح کے الفاظ کا جامہ پہنا کر آپ کے گوش گزار کروں۔۔۔؟ بڑی مشکل سے اس دوست سے وابستہ یادیں قلمبند کرنے کی سعی کر رہا ہوں،میرے دل ، دماغ اور حواس بس ایک ہی نکتے پر اٹک کر رہ گئے ہیں کہ اس سچے اور کھرے انسان کو آخر کیوں قتل کیا گیا ۔۔۔؟اس شخص نے آخر کونسا ایسا جر م کیا تھا کہ اس کے خوبصورت جسم کو ٹکڑوں کی صورت ڈوئی نارائی کے پہاڑوں پر بکھیر دیا گیا ۔۔۔؟ عبد الرحمن تو ایک نہایت وجیہہ شکل ، ہنس مکھ اور دلپزیز ، ایک انتہائی بے ضرر اور محبتیں ، مسکراہٹیں بانٹنے والا انسان تھا ۔ہائے افسوس کہ اب اس فرشتہ صورت شخص کی صورت کبھی بھی دیکھنے کو نہ ملے گی ۔ایک صلیبی جنگ نے اسے ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا۔ میں حیران ہوں کہ اس دھرتی کے بیٹے چاہے وہ سپاہی مرید اعوان شہید یا کمانڈو اختر محمود جیسے فوجی جوان ہوں یاقاری نعیم اور عبد الرحمن جیسے ہزاروں عام شہری ،اس مملکت پر کٹتے ، مرتے اور اپنی جوانیاں لٹاتے چلے جا رہے ہیں مگر اس سر زمین پر امن پھر بھی قائم نہیں ہو رہا ۔

عبد الرحمن سے میری پہلی ملاقات ڈیر ہ اسماعیل خان میں ایک دوست کے گھر پر ہوئی تھی اور ہم بہت جلد ایک دوسرے کے قریب آگئے تھے، میری نظروں سے عبد الرحمن جیسا وجیہہ شکل ، ہنس مکھ اور دل و دماغ کا صاف نوجوان کبھی نہیں گزرا ،اس نے اپنے ذہن خداداد کے بدولت قرآن پاک حفظ کرلینے کے بعد بی اے تک تعلیم حاصل کر لی تھی ۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں اسے باری تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا دیا تھا اور ہر قسم کے نالج، انگلش ، اردو اور عربی زبانوں میں اسے مہارت ِ تامہ حاصل تھی۔اس کے دوست مجھے بتاتے کہ عبد الرحمن کے اساتذہ اس کی ذہانت ، فطانت اور ذکاوت پر عش عش کرتے ، خیبر پختونخواہ کے جس ادارے میںوہ کبھی زیر تعلیم تھا کہتے ہیں کہ اس کی علمی اور ادبی محفلیں اسی کے دم قدم سے آباد اور شاد تھیں، گویا وہ اپنے ادارے کی امید اور رونق تھا، خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا کے اشعار جب اس کے خوبصورت ہونٹوں پر مچلتے تو عجیب سا سماں باندھ دیتے ۔ اس نے بس زندگی کی چوبیس بہاریں ہی دیکھی تھیں مگر جب ملکی اور عالمی حالات پر اپنی ماہرانہ رائے دیتا تو سماعت کرنے والے یقیناً دم بخود رہ جاتے ۔جب میں اس کی ذہانت اور فطانت سے متاثر ہو کر اس سے اپنے علاقے کے حالات اسی کی زبانی جاننے کی کوشش کرتا تو وہ نہ جانے کیوں سو چ کی بے انت گہرا ئیوں میں ڈوبتا چلا جاتا اور قبائلی علاقوں کے چپے چپے پر پھیلی دکھ ، درد کی کہانیاں جب اس کی زبان پر آتیں تو اس کی آنکھوں سے آنسووں کی ایک لڑی موتیوں کی صورت نظر آتی۔ ظالم ڈرونز حملے اس کی گفتگو کا اہم موضوع ہوتے مگر میں قربان جاﺅں اس نوجوان کی حب الوطنی پر اور اپنی مٹی سے اس قدر محبت پر کہ وہ جب کبھی مجھے فون کرتا تو ہردم اپنی دھرتی کی بقاءاور سلامتی کے لیے ہی دعاگو ہوتا ، وہ ایک ایسے علاقے سے تعلق رکھتا تھا جو سب سے زیادہ ڈرونز حملوں سے متاثر ہو رہا ہے ، میرے خیال میں اس کی آخری کال چار یا پانچ ماہ پیشتر آئی تو میں نے پہلی بار اس کے لب و لہجے میں مایوسی اور ناامیدی کی جھلک محسوس کی ، وہ اپنی دھرتی اور اپنی مٹی کو صیہونی طاقتوں کے ہاتھوں یوں بری طرح سے پائمال اور تار تارہوتے اور اپنے حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کی مسلسل بے حسی پر روتا چلا جا رہا تھا ، میں نے اس دن نوٹ کیا کہ وہ بس اب ٹوٹ چکا تھا ۔

کہنے لگا بھائی جان ! ہمارے علاقے میں کسی وقت بھی کوئی مکان ، گاڑی ، مسجد یا مکتب ڈرون حملے کا نشانہ بن سکتا ہے ، نہ جانے کیوں میں نے اس سے کہہ دیا کہ آپ وہ علاقہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے ہو ۔۔۔؟ بعد میں اس کے رد عمل سے انداز ہ ہوا کہ یہ بات اسے بہت بری لگی تھی ، کہنے لگا اپنی دھرتی ، اپنی مٹی ، اپنی ثقافت کسی صورت بھی چھوڑی نہیں جا سکتی ، کم از کم میرے نزدیک یہ ناممکن سی بات ہے ۔آہ ! اتنے پیارے چاہنے والے کی اس مظلومانہ شہادت کی تفصیلات مجھے معلوم نہیں ہو سکیں ، اور شاید کبھی بھی پتہ نہ چل سکے کہ وہ کن حالات میں خاک و خون میں لت پت ہو کر اور اپنوں کی بے اعتنائی کا شکار ہو کر اس جہاں فانی سے کو چ کر گیا ۔ میں زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ یہ دل جب تک دھڑکے گا اسی کی یادوں کے سہارے دھڑکتا رہے گا ، کب تلک دھڑے گا کچھ معلوم نہیں ۔۔۔؟ انشاءاللہ میرا ایمان اس قدر مضبوط تو ہے ہی کہ مظلوم کا خون جب زمین پر گرتا ہے تو گہرااثر چھوڑتا ہے، ابھی میں ایک معاصر میں پڑھ رہا ہوں کہ بوسنیا کے علاقے سر بنیسا میں ہزاروں مسلمانوں کا قاتل سربیا کا خونی جرنیل راتکو میلاوچ پندرہ سال کے طویل عرصے کے بعد گرفتار کر لیا گیااور اب اس ستر سالہ خونی جرنیل کو بہر صورت اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی اور یوں آخرت کا عذاب تو اس کے مقدر میں ہے ہی مگر دنیا میں بھی اللہ عزہ وجل کی ذات نے اسے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں جیل کی ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں دھکیل دیا۔کراچی سے لے کر طور خم تک اور واہگہ سے لے کر کوئٹہ تک جگہ جگہ بے گناہ لوگوں اور عبد الرحمن جیسوں کا قتل عام کرنے والوں میں بے شک ہمارے بے ضمیر حکمران پوری طرح ملوث ہیں، انشا ءاللہ ایک نہ ایک دن یہ ظالم بھی ضرور قانون کے کٹہرے میں لائے جائیں گے اور ہاں اگر وہ اپنے مکر اور چالاکیوں کے باعث دنیا میں اس سزا سے بچ بھی گئے تو کل جب میدان حشر بپا ہو گا تو باری تعالیٰ ان ظالم حکمرانوں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کردے گا ، اس دن ضرور میرے ان مظلوم اور شہید دوستوں کا ہاتھ ان ظالموں کے گریبانوں تک جا پہنچے گا۔
قریب ہے یارو بروز ِ محشر ،چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر۔۔۔؟
جو چپ رہے گی زبان خنجر ، لہو پکارے گا آستین گا
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 36994 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.