غزوہ احزاب( خندق) حصہ سوم
ڈاکٹر ساجد خاکوانی صاحب کی نظر میں
جنگ بدرمیں مسلمانوں کو شاندار فتح عطا ہوئی تھی اورقریش مکہ اپنے زخم
چاٹتے ہوئے واپس لوٹے تھے۔جنگ احد میں جیتی ہوئی بازی نبیﷺ کی نافرمانی کے
باعث الٹ گئی اورمال و زر کی خواہش جب اطاعت و فرمانبرداری پر غالب آگئی تو
تائدایزدی سے محرومی کے باعث مسلمان سپاہ کو اپنے اکثر جوانمردوں سے ہاتھ
دھونا پڑا۔قریش مکہ کو مدینہ سے بہت دور جاکراحساس ہوا کہ وہ جلدبازی وعجلت
میں جیتی ہوئی جنگ نامکمل چھوڑ آئے ہیں،
انہوں نے واپس پلٹ کر مدینہ میں لوٹ مار کرنا چاہی لیکن اب وقت گزر چکا
تھااور اﷲ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے ذات نبویﷺ اور مدینۃ النبی کو محفوظ
رکھاتھا۔تاہم اس جزوی کامیابی سے ان کے وہ حوصلے ایک بار پھرجوان ہو گئے جو
بدر کے موقع پر ٹوٹ پھوٹ گئے تھے اور انہوں نے سمجھ لیاکہ اگر یک بارگی بہت
بڑا حملہ کر دیاجائے تو یثرب میں جڑ پکڑنے والی اس نوخیز کونپل کو نوچا
جاسکتاہے۔چنانچہ اپنے مقام پر پہنچتے ہی انہوں نے اگلے اور فیصلہ کن معرکے
کی تیاریاں شروع کر دیں۔بدرمیں قائم رعب و دبدبہ کے باعث دیگرعرب قبائل نے
مسلمانوں کے خلاف جہاں احد کے معرکے میں قریش سے ہاتھ کھینچ رکھاتھا،احد کے
نتائج کے بعد وہ بھی قریش کا ساتھ دینے پررضامندہوگئے۔
طویل سفارتی و خارجی محنت شاقہ کے نتیجے میں قریش نے عرب کے بہت سے قبائل
کو اپنے ساتھ عسکری اتحادی بنالیا۔یہود اگرچہ مسلمانوں کے حلیف تھے لیکن
اندر سے وہ بھی بغض وکینہ اور حسدوانتقام کے باعث مسلمانوں کے خلاف اپنا
اثرورسوخ بھرپور طریقے سے استعمال کررہے تھے،چنانچہ بنواسد اوربنوسلیم کے
قبائل توقریش سے دیرینہ دوستی و رشتہ داریوں کے باعث اس میدان میں کود پڑے
تھے جبکہ بنوسعداور بنو غطفان کے مردان جنگی کو یہودیوں نے مجبور کیاتھا کہ
وہ اس معرکے میں قریش کاساتھ دیں اور اس نئی ریاست محمدیہ کا قلعہ قمع
کردیں۔یہود کے جو قبائل اپنی بدعہدیوں کے باعث مدینہ سے نکال باہر کیے گئے
تھے وہ خاص طور پران سازشوں میں پیش پیش تھے اور فتح کے نتیجے میں انہوں نے
ان قبائل سے خیبر کی پیداوارمیں سے ایک حصہ دینے کا بھی وعدہ
کرلیاتھا۔چھوٹے بڑے ان قبائل کے لشکرجرارکوقرآن مجید نے ’’احزاب‘‘کانام
دیاہے گویا افواج کا ایک ٹڈی دل تھا جو ایک چھوٹے سے شہر پر امڈآیاتھاکہ اس
بلدمقدس کوگویاصفحہ ہستی سے نابود کر دیاجائے۔اس لشکر کی تعدادچوبیس
ہزارسپاہ تک بھی روایت کی گئی ہے جو شاید اس وقت تک کی تاریخ عرب میں سب سے
بڑا لشکر واقع ہواتھا۔کلی لشکر کی مرکزی کمان قریش نے اپنے ہاتھ میں رکھی
تھی اور ابوسفیان اس کے قلب پر کماندار تھاجبکہ باقی لشکر کو حسب روایت دو
حصوں میمنہ اور میسرہ میں تقسیم کیاگیاتھااور عرب کے دو نامور پہلوان ان
حصوں کی قیادت کررہے تھے۔قریش اس بارے میں بھی مطمئن تھے جو کچھ یہودی
مدینہ میں بچ گئے ہیں وہ قریش کاہی ساتھ دیں گے اور مزید براں مدینہ کے
منافقین سے بھی قریش کو بہت حوصلہ افزاامیدیں تھیں۔
مدینہ کی بیدارمغزقیادت اپنی چشم بصیرت سے یہ منظر صاف دیکھ رہی تھی کیونکہ
احد میں دم واپسیں ابوسفیان اگلی ملاقات کے وعدے کے لیے بدرکاانتخاب کرکے
گیاتھااور مسلمانان مدینہ اس پنجہ آزمائی کے لیے ہوشیارباش تھے۔قریش کی
تیاریوں کی لمحہ بہ لمحہ اطلاعات جیسے ہی مدینہ طیبہ میں پہنچناشروع ہوئیں
تومحسن انسانیت نے حکم ربی وامرھم شوری بینھم (اوراے نبیﷺباہمی معاملات میں
مسلمانوں سے مشورہ کیجئے)کے مصداق مجلس مشاورت طلب کی اور اصحاب باصفاکے
سامنے حالات و واقعات کا تفصیلی نقشہ پیش کر کے ان سے مشورہ چاہا۔اپنی کل
فوجی قوت کااندازہ لگاچکنے کے بعد یہ بات واضع ہو گئی کہ ٹکراؤکے نتیجہ میں
سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہ ہوگاکیونکہ ملا جلا کر اور کھینچ تان کربھی کل
تین ہزار افراد ہی جنگ کے قابل نکل پائے تھے اور یہ بھی ابھی ابتدائی
اندازہ تھا،ان میں مزید کتنی کمی ہو سکے گی اس کے بارے میں کچھ بھی قیاس
آرائی قبل از وقت تھی کیونکہ احد کے موقع پر عبداﷲبن ابی نے عین میدان جنگ
میں جو دغا دیاتھا وہ سب کی یادداشت میں ابھی تازہ تھا۔اہل مدینہ کا
دوسراکمزور پہلوان کی داخلی دفاعی حیثیت تھی کیونکہ قریش کے نقصان کے نتیجے
میں ان کا شہر، گھربار،اہل وعیال اور کاروباروتجارت سب کچھ سینکڑوں میل دور
تھاجبکہ مسلمانوں کے نقصان کے نتیجے میں کسی طرح کی بچت توقع عبث تھی ۔ان
حالات میں عمائدین مدینہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور طویل غوروحوض اور گفت و
شنید کے بعدطے ہواکہ براہراست ٹکراؤ سے احترزہی کیاجائے اور شہر کے اندر رہ
کر دشمنوں کامقابلہ کیاجائے۔اس پالیسی کواپناتے ہوئے جو قابل عمل حل سامنے
آ سکا وہ ایک خندق کی کھدائی تھی جس کے نتیجے میں قریش اور ان کے حلیفوں کو
شہر سے دوررکھ کر ان پر اعصابی جنگ مسلط کی جاسکتی تھی اور خندق سے فصیل کا
کام لیاجاناتھااوریوں کثیرالتعداددشمن کو روکاجاناممکن ہوسکتاتھا۔عرب اقوام
اس طرح کے طریقہ حرب سے ناواقف تھے اور ایران سے آئے ہوئے ایک مسلمان ،حضرت
سلمان فارسی نے یہ تجویزپیش کی تھی کیونکہ ایران میں اس طرح سے جنگ کر کے
تو اپنا دفاع کیاجاتاتھا۔محسن انسانیتﷺکو یہ تجویز بہت پسند آئی اورشرف
قبولیت فرمایا۔جس کے بعد آپ ﷺ بذات خود ایک گھوڑے پر سوار ہوئے اور خندق کی
کھدائی کے نقطہ نظر سے مدینہ کے کل اطراف کا جائزہ لینے کے لیے نکل پڑے۔
مدینہ کے جنوب میں بنی قریظہ،یہود مدینہ کی بستیاں تھیں جومیثاق مدینہ کے
باعث پابندتھے کہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدینہ کادفاع کریں گے،چنانچہ
مدینہ کا جنوب یا شہر کی پشت اس لحاظ سے محفوظ ہوچکی۔شہرکے مشرق اور مغرب
میں کھجوروں کے گھنے باغات تھے اور کسی فوج کا یک بارگی نکل کر حملہ آور
ہوجانا یہاں سے ممکن نہ تھا۔اگر کوئی فوج وہاں سے گزرنے کی کوشش بھی کرتی
تو پیش قدمی اتنی سست ہوتی کہ سامنے بیٹھے تیرانداز بڑی آسانی سے بڑھنے
والے ایک ایک سپاہی کو اپنے نشانے پر لے سکتے تھے۔جو جگہیں کھجوروں کے
باغات سے خالی بھی تھیں تو اس لیے کہ وہاں لاوے کی بنی چٹانیں واقع تھیں
اور یہ اتنی پھسلنی اور چکنی تھیں کہ یہاں سے بھی کسی فوج کا سبک رفتاری سے
گزر کر حملہ آور ہونا ممکن نہ ہوسکتاتھا،پس مدینہ کا شمال ہی غیرمحفوظ
تھااور خندق کے لیے موزوں بھی تھا۔اگرچہ ابتداَلاوے کی چٹانوں کے درمیان
نیم گولائی کی نقشے میں خندق کی منظوری دی گئی لیکن بعد میں اسے کچھ اور
طوالت بھی دے دی گئی تاکہ دفاع کومضبوط تر کردیاجائے۔مدینہ کے تین
ہزارمردان جنگی صباہ ومساء اس کام میں جت گئے،جہاں جہاں کھدائی کے آلات کم
پڑے وہاں پڑوسیوں سے اور یہودیوں سے عاریتاَلے لیے گئے ،مٹی اٹھااٹھاکر
باہر پھینکنے کے لیے مسلمانوں نے شدیدسردی کے باوجود اپنے تن کے کپڑے پیش
کر دیے۔دس دس افراد کی ٹولیاں بنائی گئیں اور ہر ٹولی کو بیس گزکے
برابرخندق کھودنے کی عسکری سعادت حاصل ہوئی،خندق پندہ فٹ چوڑی اور پندرہ فٹ
گہری تھی، کہیں کہیں اس سے کم یا اس سے قدرے زیادہ بھی تھی کیونکہ پتھریلی
زمین کے باعث زمین کی کل حالت یکساں نہ تھی۔اور خندق کی کل لمبائی ساڑھے
تین میل کی طوالت کو چھو رہی تھی۔
خندق کے دوران ایک کارکن حاضرخدمت ہوااور عرض کی کہ اتنے دنوں سے کھانا
نہیں کھایا،قیادتﷺنے ان دنوں سے زیادہ ایام گنواکرفرمایاکہ تب سے شکم خالی
ہے،ایک اور کارکن نے اپنے پیٹ سے دامن اٹھایااور ایک پتھردکھایاکہ پیٹ خالی
ہے اور پتھراس لیے باندھاکہ بھوک تنگ نہ کرے ،قیادتﷺنے دامن مبارک اٹھایا
تو دو پتھربندھے تھے۔پس یہ طے ہوگیاکہ قیادت پہلے قربانی دے گی اور کارکن
بعد میں اورقیادت کے لیے قربانی کا حجم و کمیت زیادہ ہوگا اور کارکن کے لیے
کم۔یہ حالات دیکھ کر ایک مسلمان حاضرخدمت اقدسﷺہوااورکان میں عرض کی کہ
گھرکے کل راشن اور بکری کے ایک بچے سے بس تھوڑے سے لوگوں کاکھانا تیار
ہواہے آپﷺتشریف لے آئیں۔تھوڑی دیر بعد مسلمانوں کی ایک کثیر تعدادنبیﷺکے
جلومیں اس مسلمان کے گھر وارد ہوگئی۔آپ ﷺ میزبان کی کیفیت سمجھ گئے اور حکم
دیا کہ ہنڈیاسے تھالی اٹھائے بغیر سالن نکالتے رہواور اوپرسے رومال ہٹائے
بغیرروٹیاں نکالتے رہو۔سب مسلمانوں نے سیرہوکر کھانا کھایا اور سب کے جانے
کے بعد بھی اہل خانہ کے لیے وافر مقدار میں ہنوز کھانا باقی تھا۔دوران
کھدائی محسن انسانیت ﷺسے عرض کی گئی ایک جگہ سخت چٹان آڑے آگئی ہے اور بڑے
بڑے زورآوروں سے بھی توٹنے نہیں پارہی،دست مبارک میں کدال تھامی کہ
عمرمبارک اٹھاون برس کے آس پاس تھی لیکن قوت ایمانی نے پہلی ضرب پر ایران
کی فتح کی نوید سنائی ،دوسری ضرب پر روم کی تسخیر کا مژدہ دہن مبارک سے
نکلا،تیسری ضرب پر فرمایاکہ خدا کی قسم بحرین کے سرخ محلات میں اپنی آنکھوں
سے دیکھ رہاہوں جبکہ چوتھی ضرب پر وہ چٹان پاش پاش ہو گئی۔کوئی دانشور
پوچھتاکہ مختصرسے دشمن سے مقابلے کے لیے تو سپاہ اس قدر ناکافی ہے کہ
دوبدومقابلے سے بچنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں،آلات میسر نہیں ہیں اور ادھارپر
لیے گئے ہیں ،کھانے کو راشن نہیں ہے اور پیٹ پر پتھر باندھ رکھے ہیں جبکہ
خواب دیکھے جارہے ہیں روم و ایران جیسی عالمی طاقتورترین سلطنوں کی فتوحات
کے؟؟؟
لیکن سچے نبی کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس کی پیشین گوئیاں سچ ثابت ہوتی
ہیں اور آسمان نے دیکھاکہ جیسا ارشادفرمایاتھا بعینہ ویساہی ہوا۔جہاں عقل
کارسوخ ختم ہوتاہے وہیں سے معرفت کے سفر کاآغاز ہوتاہے.
اللہ پاک کمی معاف فرماۓ.آمین
|