معاشرتی و اجتماعی زندگی کے تقریباً تمام ہی شعبوں میں
باہمی رنجشوں ،رقابتوں اور ناموافقتوں کا کھیل جاری رہتا ہے، کبھی کسی نے
کوئی عیب اُچھال دیا، کوئی جملہ کس دیا، یا بھرے مجمع میں لوگوں کے سامنے
ذلیل و رُسوا کردیا اور مجمع نے ایک زور دار قہقہ لگادیا تو اِس سے فطرتی
طور پر انسان کے دل و دماغ پر اُداسی چھا جاتی ہے، طبیعت تلملا اُٹھتی ہے،
اور روح تڑپ کر رہ جاتی ہے۔ اِنسان کو اﷲ تعالیٰ نے انتہائی محترم اور قابل
عزت بنایا ہے، اِس لئے اسلام اِس قسم کی تمام گھٹیا و رذیل حرکات و خرافات
کی مکمل طور پر نفی کرتا ہے، جس میں احترام انسانیت کی تذلیل و توہین کو
اپنی طبعی تفریح اور و روحانی تسکین کا ذریعہ بنایا جائے۔ہاں! کوئی ایسی
صورت ہو کہ جس میں کسی انسان کی توہین و تنقیص اور ہتک و تذلیل کا پہلو
مفقود ہو، اور اُس سے اُس کے نقائص و عیوب کا اُچھالنا مقصود نہ ہو تو
اخلاقی اور شرعی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اپنے بیوی بچوں، عزیز و اقارب
اور بے تکلف دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ باہمی ہنسی مزاح اور دل لگی کرنے
کی نہ صرف یہ کہ اسلام اجازت دیتا ہے، بلکہ اِس کی حوصلہ افزائی بھی
کرتاہے۔
چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے ایک آدمی نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے
پوچھا کہ: ’’کیا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مزاح فرمایا کرتے تھے؟۔‘‘ حضرت ابن
عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: ’’ہاں!‘‘ اُس آدمی نے کہا: ’’آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کا مزاح کیسا ہوتا تھا؟۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہمانے حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم کے مزاح کا یہ قصہ سنایا کہ : ’’آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی ایک
زوجۂ مطہرہ کو کھلا کپڑے پہننے کو دیا اور فرمایا: ’’اسے پہن لو اور اﷲ کا
شکر ادا کرو اور نئی دُلہن کی طرح اِس کا دامن گھسیٹ کر چلو!‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’ایک مرتبہ نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے، تو اُن کے ایک بیٹے
کو بڑا غمگین دیکھا، جس کی کنیت ’’ابو عمیر‘‘ تھی، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
کا معمول یہ تھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جب ابو عمیر کو دیکھا کرتے تو اُس
سے مزاح فرمایا کرتے۔ چنانچہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا بات ہے
ابو عمیر ! غمگین نظر آرہے ہو؟۔‘‘ گھر والوں نے بتایا کہ: ’’ اِس کا نُغیر
(لال چڑیا یا بلبل) پرندہ مرگیا ہے، جس سے یہ کھیلا کرتا تھا(اِس لئے غمگین
نظر آرہا ہے)۔‘‘ اِس پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اُس سے (دل لگی کے لئے)
فرمانے لگے: ’’اے ابو عمیر! تمہارے نُغیر پرندے کا کیا بنا؟‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے
ایک دفعہ مجھے از راہِ مزاح فرمایا: ’’ او دو کان والے!‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’ ایک آدمی حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم کی خدمت میں آیا اور اُس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اپنے لئے سواری
مانگی تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہم تمہیں اونٹنی کا بچہ دیں
گے۔‘‘ اُس نے عرض کیا: ’’یارسول اﷲ ( صلی اﷲ علیہ وسلم)! میں اُونٹنی کے
بچہ کا کیا کروں گا؟(مجھے تو سواری کے لئے جانور چاہیے وہ بچہ تو سواری کے
کام نہیں آسکے گا۔‘‘) حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر اونٹ اُونٹنی
کا بچہ ہی تو ہوتا ہے۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’ دیہات کے رہنے والے ایک
صحابی کا نام ’’زاہر‘‘ تھا ، وہ گاؤں سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے
(سبزی ترکاری وغیرہ) ہدیہ لایا کرتے ، اور جب یہ واپس جانے لگتے تو حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم اُنہیں شہر کی چیزیں دے دیا کرتے،اورآپ صلی اﷲ علیہ وسلم
فرماتے: ’’زاہر ہمارا ’’دیہات‘‘ ہے، اور ہم اُس کے ’’شہر‘‘ ہیں۔‘‘ حضور صلی
اﷲ علیہ وسلم کو اِن سے بڑی محبت تھی،لیکن تھے یہ بدصورت۔ ایک مرتبہ حضرت
زاہر رضی اﷲ عنہ اپنا سامان بیچ رہے تھے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیچھے
سے جاکر اُن کی ’’کولی‘‘ ایسی بھری کہ وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہ دیکھ
سکیں، یعنی اُن کی کمر اپنے سینے سے لگا کر اُن کی بغلوں کے نیچے سے دونوں
ہاتھ لے جاکر اُن کی آنکھوں پر رکھ دیئے۔ حضرت زاہر رضی اﷲ عنہ نے کہا:
’’مجھے چھوڑ دو! یہ کون ہے؟۔‘‘ پھر پیچھے مڑکر دیکھا تو حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم کو پہچان لیا، اور اپنی پیٹھ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سینے سے اچھی
طرح چمٹانے لگے، اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بطورِ مزاح فرمانے لگے: ’’اِس
غلام کو کون خریدے گا؟‘‘ حضرت زاہر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اﷲ(
صلی اﷲ علیہ وسلم)! اگر آپ مجھے بیچیں گے تو مجھے کھوٹا اور کم قیمت پائیں
گے۔‘‘ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لیکن تم اﷲ کے نزدیک کھوٹے اور
کم قیمت نہیں ہو، بلکہ اﷲ کے ہاں تمہاری بڑی قیمت ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
کے ساتھ سفر میں گئی ، میں اس وقت نوعمر لڑکی تھی ، میرے جسم پر گوشت بھی
کم تھا اور میرا بدن بھاری نہیں تھا ، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں سے
فرمایا : ’’ آپ لوگ آگے چلے جائیں ‘‘چنانچہ سب چلے گئے ، تو مجھ سے فرمایا
: ’’ آؤ! میں تم سے دوڑ میں مقابلہ کروں ‘‘چنانچہ ہم دونوں میں مقابلہ ہوا
تو میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے آگے نکل گئی اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
خاموش رہے ۔پھر میرے جسم پر گوشت زیادہ ہوگیا اور میرا بدن بھاری ہوگیا اور
میں پہلے قصہ کو بھول گئی ، تو پھر میں آپ کے ساتھ سفر میں گئی ، آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا : ’’ آگے چلے جاؤ‘‘ لوگ چلے گئے ، پھر مجھ سے
فرمایا : ’’ آؤ!میں تم سے دوڑ میں مقابلہ کروں ‘‘ چنانچہ ہم دونوں میں
مقابلہ ہوا تو حضورا مجھ سے آگے نکل گئے ، حضور اہنسنے لگے اور فرمایا: ’’
یہ پہلی دوڑ کے بدلہ میں ہے ‘‘ ( اب معاملہ برابر ہوگیا )۔
حضرت حسن رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’ایک بوڑھی عورت نے حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: ’’یا رسول اﷲ( صلی اﷲ علیہ وسلم)! آپ
دُعاء فرمائیں کہ: ’’ اﷲ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کردے۔‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا: ’’اے اُم فلاں! جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہیں جائے گی۔‘‘
وہ عورت روتے ہوئے واپس جانے لگی، تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اسے بتادو کہ وہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہ ہوگی( بلکہ جوان
کنواری بن کر جنت میں جائے گی۔) کیوں کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ترجمہ: ہم
نے (وہاں کی) اِن عورتوں کو خاص طور پر بنایا ہے۔ یعنی ہم نے اِن کو ایسا
بنایا ہے کہ وہ کنواریاں ہیں۔‘‘
حضرت عو ف بن مالک اشجعی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’میں ’’غزوۂ تبوک‘‘
میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم چمڑے
کے ایک چھوٹے خیمہ میں تشریف فرماتھے، میں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سلام
کیا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا، اور فرمایا: ’’اندر آجاؤ!‘‘
میں نے عرض کیا: ’’کیا سارا ہی آجاؤں؟‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سارے ہی آجاؤ!۔‘‘
حضرت بکر بن عبد اﷲرضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے
صحابہؓ مزاح میں ایک دوسرے پر’’ خربوزے‘‘ پھینکتے تھے، لیکن جب حقیقت اور
کام کا وقت ہوتا تو اُس وقت وہ مردِ میداں ہوتے۔‘‘ (یعنی اُس وقت مزاح نہیں
کرتے تھے، جب کام نہیں ہوتا تو کبھی کبھار کرتے تھے۔)
شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے انہیں مقدس ہستیو ں کے بارے میں کہا تھا:
ہو حلقہ یاراں تو’’ بریشم‘‘ کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو ’’فولاد‘‘ ہے مؤمن
حاصل یہ کہ حدودِ شرعیہ کے اندر رہتے ہوئے کسی کی پھبتی اُڑائے بغیر، کسی
تذلیل و تنقیص کیے بغیر، کسی کے عیوب و نقائص اُچھالے بغیر اپنے بیوی بچوں،
رشتہ داروں، عزیز و اقارب اور دوستوں کے ساتھ گاہے بگاہے ہنسی مذاح اور دل
لگی کرنا نہ صرف یہ کہ اسلام میں جائز و مستحسن ہے بلکہ اسلام اِس کی تعریف
بھی کرتا ہے اور کھلے دل سے اِس کی تائید بھی کرتا ہے۔
|