کربلا اور حسینؓ (قسط دوم)

کربلا اور حسینؓ
(قسط دوم)
تحریر: شبیر ابن عادل
ایک دن حضور اکرم ﷺ نے ام المومنین ام سلمیٰ ؓ سے فرمایا کہ ام سلمیٰ ؓ آج مجھ سے ایک فرشتہ ملاقات کی غرض سے آرہا ہے، بہت ہی خاص۔ تم کسی کو دروازے سے اندر مت آنے دینا۔ چنانچہ ام سلمیٰ ؓ پہرے پر کھڑی ہوگئیں۔ تھوڑی دیر میں حضرت حسین ؓ آگئے، جو اس وقت ایک چھوٹے اور معصوم سے بچے تھے۔ وہ اندر جانے لگے تو حضرت ام سلمیٰ ؓ نے روک دیا، وہ رونے لگے۔ سب کی آنکھ کے تارے اور اہل بیت کے اس ہر دلعزیز بچے کی آنکھوں سے آنسو ٹپکے تو حضرت ام سلمیٰ ؓ نے انہیں چھوڑ دیا۔ تھوڑی دیر بعد کمرے کے اندر سے ہمارے نبی کریم ﷺ کے زور زور سے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ ام سلمیٰ ؓ رہ نہ سکیں، بھاگ کر اندر گئیں تو آپ نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسین ؓ کو اپنے سینے سے زور سے چمٹایا ہوا تھا اور زاروقطار رو رہے تھے۔ بلک بلک کر، سسکیاں لے لے کر۔ آپ ؐ کے
آنسو ؤں سے آپؐ کے رخسار اور داڑھی مبارک تر بتر ہوگئی تھی۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت ام سلمیٰ ؓ بھی رونے لگیں اور گلوگیر آواز میں کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یا رسول اللہ ﷺ! کیا ہوا؟ آپ ؐ ایسے تڑپ کر کیوں رورہے ہیں؟آپ ؐ روہانسی آواز اور بہتے آنسوؤں کے ساتھ فرمایا کہ ام سلمیٰ ؓ! یہ فرشتہ جو مجھ سے ملنے آیا تھا، میرے بچے ّ(حضرت حسین ؓ) کو دیکھ کر کہہ رہا ہے کہ آپ ؐ کی امت اس بچے اور اس کی اولاد کو بے دردی کے ساتھ ذبح کردے گی۔


اور جہاں اس کا خون گرے گا، وہ مٹی اس نے مجھے دکھائی ہے۔ اس وجہ سے میں اس پر رو رہا ہوں۔ ان کی شہادت سے برسوں قبل ان پر رویا جارہا ہے۔ اور رو بھی کون رہا ہے؟ ان کے نانا، تمام نبیوں کے سردار اور اپنے ربّ کے محبوب نبی ؐ اور رحمت اللعالمین اور آخری نبی۔ جنہیں اللہ ربّ العزت نے شب معراج میں ملاقات کا شرف بخشا۔
مندرجہ بالا حدیث کی تصدیق حدیث کی مستند کتابوں سے نہیں ہوسکی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو پہلے سے علم تھا کہ ان کے چہیتے اور محبوب نواسے کو ان کے پورے خاندان (مرد حضرات) کو کربلا کے میدان میں بے دردی سے ذبح کیا جائے گا۔ یہ امر بھی بہت تکلیف دہ ہے کہ نانا کو پہلے سے
علم ہو کہ ان کے چہیتے نواسے کو ان ہی کی امت بے دردی سے قتل کردے گی۔ اور نانا بھی کون؟ سردار اور امام الانبیاء، اللہ تعالیٰ اُن ؐ کی ہر بات مانتے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب خاتم النبیین ﷺ طائف میں دعوت اسلام لے کر گئے تو انہوں نے کیا سلوک کیا تھا؟ رحمت اللعالمین ؐ کے پاؤں مبارک سے خون نکل نکل کر ان کی نعلین (جوتی) مبارک میں جمع ہوگیا تھا، ظالموں کی سنگ باری سے پورا جسم زخمی تھا۔ پھر آپ کو حضور اکرم ﷺ کی وہ دعا بھی یاد ہوگی، جو انہوں نے طائف سے باہر نکل کر کی تھی۔ اس دعا کے الفاظ پر تو غور کریں، نبی رحمت ﷺ نے دل کی گہرائیوں سے یہ دعا فرمائی:
"اے اللہ میں اپنی کمزوری کا گلہ اپنی بے تدبیری اور لوگوں کی نظروں میں اپنی
ذلت کی شکایت آپ ہی کے سامنے پیش کرتا ہوں، اے سب سے بڑھ کر رحم
کرنے والے،آپ مجھ کو کس کے حوالے کریں گے اس دشمن کے جو مجھ سے
بیزار ہوگا یا ایسے عزیز کے جس کے قبضے میں دیں گے میرا فیصلہ، اگر آپ مجھ
سے ناراض نہ ہوں تو اس کے بعدمجھ کو کسی بات کی کوئی پرواہ نہیں لیکن پھر بھی

آپ کی جانب سے عافیت میں میرے لئے بہت بڑی گنجائش ہے
(بہرحال اس کی ضرورت ہے)۔ میں آپ کی اُس کریم ذات کے نور کے
وسیلے سے آپ کی پناہ لیتا ہوں جس سے سب آسمان جگمگا رہے ہیں اور سب
تاریکیاں روشن ہیں، اور جس کی وجہ سے دنیا و آخرت کے کام درست ہیں
اس بات سے کہ آپ کا مجھ پر غصہ ہو یا مجھ سے خفا ہوں اور خفا ہونا آپ کو
زیبا ہے، یہاں تک کہ آپ راضی ہوجائیں، آپ کی مدد کے بغیر ہم میں نہ
قوت ہے نہ طاقت"۔
اس دعا سے عرش ہل گیا اور آسمانوں میں کہرام مچ گیا۔ فوری طور پر حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک فرشتے کے ساتھ تشریف لائے اور بارگاہِ رسالت ﷺ میں ادب سے سلام کرکے عرض کیا کہ میرے ہمراہ پہاڑوں کا فرشتہ ہے۔ اس فرشتے نے بھی سلام کرکے عرض کیا کہ اگر آپ حکم دیں تو طائف کے دونوں پہاڑوں کو ملا دوں، جس سے طائف کے تمام باشندے پیس دیئے جائیں گے اور پہاڑوں کے ٹکرانے سے ان کا نام ونشان تک مٹ جائے گا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے منع فرما دیا تھا۔
اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرسکتے تھے کہ میرے دونوں نواسوں کو کچھ نہ ہو اور کربلا کے میدان میں میرے نواسے حضرت امام حسین ؓ اور دیگر اہل بیت کو بے دردی سے قتل نہ کیا جائے۔ لیکن قضا وقدر کے فیصلوں کی وجہ سے آپ خاموش رہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو آسمانوں اور زمین کی کنجیاں دے دی تھی اور آپ کی نظروں سے کائنات کی کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی۔
واقعہ کربلا داستان نہیں، ایک سبق ہے، یہ پیغام ہے، یہ قربانی کی لازوال داستان ہے۔لوگ شہید ہوکر عزت پاتے ہیں اور حسین ؓ نے شہادت کو عزت عطا کردی۔ لوگ شہید ہوکر عزت کا تاج سرپر سجاتے ہیں،لیکن حسین ؓ نے شہید ہوکر شہادت کے سر پر عزت کا تاج سجا دیا۔
لوگ قربان ہوکر بڑے بنتے ہیں، اور حسین ؓ نے قربان ہوکر قربانی کو بڑا بنادیا۔ لوگ اللہ کے نام پر لٹ کر پٹ کر کامیابی کے زینے طے کرتے ہیں اور حسین ؓ نے لٹ کر پٹ کر کامیابی کو عزت کا مفہوم بخشا اور عزت کا لباس پہنا دیا۔
شہادت کو حسین ؓ نے خوبصورت بنایا، قربانی کو آلِ رسول ؐ نے پرکشش بنایا، قربانی کو آلِ رسول ؐ نے مفہوم پہنایا۔ اللہ کے نام پر مرمٹنے کے لازوال معنی سمجھائے۔ ربّ کی رضا کے حصول کے لئے کہاں تک جایا جاسکتا ہے، کرکے دکھایا۔کربلا اسی بات کا پیغام ہے، یہ صرف دس دن کے لئے رونے دھونے کا سلسلہ
نہیں۔ بے شک حسین ؓ کے لئے رونا بھی سنت ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
یہ اللہ کا نظام ہے کہ اس نے کربلا کے سانحے کو اس طرح کردیا کہ ہر سال محرم کی دس تاریخ کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ سانحہئ عظیم آج ہی ہوا ہے۔ آج ہی حسین ؓ اور ان کے رفقاء شہید ہورہے ہیں، آج ہی بی بی زینبؓ کی چادر کو پھاڑا جارہا ہے۔ شہداء کے سروں کو نیزوں پر چڑھایاجارہا ہے اور لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔آج ہی مظلوم اہل بیت کے خیموں کو نذر آتش کیا جارہا ہے۔
جب تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہندوستان کی ریاست میسور کے سلطان ٹیپو سرنگا پٹم میں انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف بے جگری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ دشمن کون؟ انگریز، کافر۔ حیرت ہوتی ہے کہ برطانوی لشکر نے انہیں توپوں کی سلامی دے کرعزت و احترام کے ساتھ سپرد خاک کیا۔ اور ہمارے نبی کریم ﷺ کے نواسے کی لاش کو ان بدبختوں نے کفن تک نہ پہنایا۔ بلکہ ان کے لاشے کو گھوڑوں سے روند ڈالا۔ نہ ہی نماز جنازہ پڑھائی اور نہ ہی دفن کرنے دیا۔
سمجھ میں نہیں آتاکہ یہ سب ہوا کیسے؟ ہم تو نبی ؐ کے گھر کے کتے کی بھی عزت کریں گے، لیکن ان ظالموں
کے سامنے رسول اکرم ﷺ کے اہل بیت خاص طورپر امام حسین ؓ اور ان کی ہمشیرہ زینب ؓ تھیں اور ان کے دل پتھر سے زیادہ سخت اور رویے میں حیوانوں جیسی درندگی اور سفاکی۔ انہوں نے اتنی بے دردی سے تلوار چلائی اور تیروں کی بارش کی، جیسے مدمقابل رومی لشکر ہو۔ (جاری ہے)


shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128148 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.