مکافات
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
تحریر: شبیر ابن عادل ”سر، انٹرویو کے لئے آخری امیدوار رہ گیا ہے، اسے بھیجوں؟“ کامران گیلانی سے اس کی سیکرٹری نے دریافت کیا۔ اس نے حامی بھری تو پچپن چھپن سال کا ایک شخص انٹرویو کے لئے کمرے میں داخل ہوا، اور اجازت لے کر بیٹھ گیا۔ کامران نے فائل میں دیکھا، اس کا نام عبدالحمید جعفری درج تھا وہ پینٹ شرٹ میں ملبوس تھا اور ٹائی باندھ رکھی تھی، خوش لباس اور وجیہہ تھا۔ اور اس کے لبوں پرہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ اس سے پہلے کہ کامران کوئی سوال کرتا، اس نے چونک کر اسے دیکھا اور بھونچکا رہ گیا۔ ”آپ !!!“، ”آپ، یہاں اور انٹرویو دینے؟؟“ عبدالحمید نے پہلو بدل کر اور بہت حیرت سے کہا کہ ”کیوں سر؟ کیا میں انٹرویو دینے کا اہل نہیں۔ میرا تجربہ تو دیکھیں۔“ لیکن کامران حیرت سے اسے دیکھے جارہا تھا، اس کے چہرے کے رنگ بدل رہے تھے۔ اور عبدالحمید جعفری اس کی اس کیفیت پر حیران و پریشان تھا۔ کامران بیس سال پہلے کی یادوں میں کھو گیا، جب وہ ملازمت کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ ایک دن وہ کسی بڑی کمپنی میں انٹرویو دینے گیا۔ جہاں انٹرویو لینے والے کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے، بہت غصیلے اور تند مزاج۔ وہ ملازمت تو کیا دیتے کامران کی فائل اس کے منہ پر دے ماری اور اسے اپنے آفس سے نکال باہر کیا، کیونکہ ان کے ایک سوال کے جواب میں کامران نے معاشرے کی بے حسی کا ذکر کیا تھا، جسے وہ اپنے خلاف طنز سمجھے۔ اس دن سے کامران نے ملازمت کا خیال دل سے نکال دیا اور تجارت شروع کردی، اس پر ایک جنون طاری تھا، آگے بڑھنے کا۔ اللہ نے ساتھ دیا اور وہ تیزی سے ترقی کرتا چلا گیا۔ اس نے بیس سال دن رات محنت کرکے اپنی کمپنی کھڑی کردی تھی۔ اور آج وہی منیجنگ ڈائریکٹر یعنی عبدالحمید جعفری اس کے آفس میں جنرل منیجر کی اسامی کے لئے انٹرویو دینے آیا تھا۔ شاید زمانے کی گردش نے اسے اس مقام پر لاکھڑا کیا تھا، اس نے کامران کو نہیں پہچانا تھا لیکن کامران پہلی ہی نظر میں انہیں پہچان گیا تھا۔ چند لمحوں میں اس کے ذہن نے بہت سے اوراق پلٹ کر رکھ دئیے۔ اس نے رسمی سا انٹرویو لیا اور عبدالحمید جعفری سے کہا کہ ”ہم آپ کو یہ ملازمت دے رہے ہیں، آپ کل سے جوائن کرسکتے ہیں“۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|