(عام گناہوں اور شرک میں فرق ):
قال اللہ تعالیٰ :”ان اللہ لایغفران یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاءومن
یشرک باللہ فقد ضل ضلالا بعیدا“(سورہ نسائ:آیت116)
فرمایااللہ تعالٰی نے(یعنی سورہ نساءمیں):بیشک اللہ نہیں بخشتا یہ کہ شریک
ٹھہراوے اس کااور بخشتا ہے سوا اس کے جس کوچاہے اور جس نے شریک ٹھہرایا
اللہ کا سو بیشک راہ بھولا دوربھٹک کر۔
ف:یعنی اللہ کی راہ بھولنا یوں بھی ہوتا ہے کہ حرام وحلال میں امتیاز نہ
کرے ،چوری ، چکاری میں گرفتار ہوجاوے ، نماز روزہ چھوڑ دیوے ، جوروبچوں (بیوی
،بچوں)کا حق تلف کرے ، ماں باپ کی بے ادبی کرے ، لیکن جو شرک میں پڑا وہ سب
سے زیادہ بھولا ، اس لیے کہ وہ ایسے گناہ میں گرفتار ہوا کہ اللہ تعالٰی اس
کوہرگز نہ بخشے گا ، اور سارے گناہوں کو اللہ تعالٰی شایدبخش بھی دیوے ، اس
آیت سے معلوم ہوا کہ شرک نہ بخشا جاوے گا ، جو اس کی سزا ہے مقرر ملے گی ۔(تقویة
الایمان:ص38)
(شرک کی دو قسمیں):
پھر اگر پرلے درجے (بڑے درجے یعنی شرک اکبر) کا شرک ہے کہ آدمی جس سے کافر
ہوجاتا ہے تو اس کی سزا یہی ہے کہ ہمیشہ کو دوزخ میں رہے گا ، نہ اس سے
کبھی باہر نکلے گا ، نہ اس میں کبھی آرام پاوے گا ، اور جو اس ورلے
درجے(چھوٹے درجے یعنی شرک اصغر) کے شرک ہیں ان کی سزا جو اللہ کے یہاں مقرر
ہے سو پاوے گااور باقی جو گناہ ہیں ان کی جو کچھ سزائیں اللہ کے یہاں مقرر
ہیں سو اللہ کی مرضی پر ہیں چاہے دیوے چاہے معاف کرے اور یہ بھی معلوم ہوا
کہ شرک سے کوئی بڑا گناہ نہیں۔(ایضاً)
(حجة الاسلام شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اس تحریر میں شرک کی دو اَقسام ذکر کی
ہیں جنہیں اہل علم کی اصطلاح میں شرک اکبر اورشرک اصغر کہا جاتا ہے اور پھر
یہ بھی بتلایا ہے کہ شرک اکبر کی سزا ہمیشہ کی دوزخ ہے جبکہ شرک اصغر کی جو
مقررسزا ہے وہ تو ملے گی لیکن اس کے بعد جنت میں داخلہ ہوجائے گا مطلب
بالکل واضح ہے کہ شرک اکبر انسان کو کافر بناتا ہے اور شرک اصغر اگرچہ بہت
خطرناک ہے لیکن وہ اسلام سے خارج نہیں کرتا۔ اب بھلا کوئی بھی منصف مزاج
شخص بتائے کہ یہ موقف اہل السنت والجماعت سے ہٹا ہوا ہے؟ یایہ بیان اسی
مسلک اہل السنت وا لجماعت کی ہی ترجمانی ہے البتہ الفاظ اصطلاحی استعمال
نہیں کیے گئے بلکہ عوام الناس کی ذہنی سطح کے مدنظر اُس وقت کی اردو کے عام
استعمال والے لفظ لائے ہیں ،تونسوی)
(تفسیرِآیت اورایک مثال):
قال اللہ تعالٰی :وعندہ مفاتیح الغیب لایعلمھا الا ھو(سورہ انعام ،آیت:5)
فرمایااللہ تعالٰی نے یعنی سورہ انعام میں کہ: اُسی کے پاس کنجیاں غیب کی
ہیں، نہیں جانتا ان کو مگر وہی۔
ف:یعنی جس طرح اللہ تعالٰی نے بندوں کے واسطے ظاہر کی چیزیں دریافت کرنے کو
کچھ راہیں بتادی ہیں ، جیسے آنکھ دیکھنے کو ، کان سننے کو ، ناک سونگھنے کو
، زبان چکھنے کو، ہاتھ ٹٹولنے کو ، عقل سمجھنے کو ، اور وہ راہیں ان کے
اختیار میں دی ہیں کہ اپنی خواہش کے موافق ان سے کام لیتے ہیں ، جیسے جب
کچھ دیکھنے کو جی چاہاتوآنکھ کھول دی ، نہ چاہا توآنکھ بند کرلی ،جس چیز
کامزہ دریافت کرنے کاارادہ ہوا منھ میں ڈال لیا ، نہ ارادہ ہوا نہ ڈالا، سو
گویا کہ ان چیزوں کے دریافت کرنے کوکنجیاں ان کو دی ہیں ، جیسے جس کے ہاتھ
کنجی ہوتی ہے قفل اسی کے اختیار میں ہوتا ہے ، جب چاہے تو کھولے ، جب چاہے
تو نہ کھولے ، اسی طرح ظاہر کی چیزوں کو دریافت کرنا لوگوں کے اختیار میں
ہے ، جب چاہیں کریں جب چاہیں نہ کریں ۔(تقویة الایمان:ص:51)
(غیب کا دریافت کرلینا کسی کے اختیار میں نہیںمگر جتنا اللہ تعالیٰ
بتادیں):
سو اس طرح غیب کا دریافت کرنا اپنے اختیار میں ہو کہ جب چاہیے معلوم
کرلیجئے ، یہ اللہ تعالٰی کی شان ہے کسی ولی ونبی کو ، جن وفرشتے کو پیر
وشہید کو ، امام وامام زادے کو ، بھوت وپری کو اللہ تعالٰی نے یہ طاقت نہیں
بخشی کہ جب وہ چاہیں غیب کی بات معلوم کرلیں ، بلکہ اللہ تعالٰی اپنے ارادے
سے کسی کو جتنی بات چاہتا ہے خبردیتا ہے ، سویہ اپنے (اللہ کے)ارادہ کے
موافق ، نہ اِن کی خواہش پر۔چنانچہ حضرت پیغمبرﷺ کو بارہا ایسا اتفاق ہوا
ہے کہ بعضی باتوں کے دریافت کرنے کی خواہش ہوئی اور وہ بات نہ معلوم ہوئی ،
پھر جب اللہ تعالٰی کاارادہ ہوا تو ایک آن میں بتادی،چنانچہ حضرت کے وقت
میں منافقوں نے حضرت عائشہؓ پر تہمت کی اور حضرت کو اس سے بڑا رنج ہوا اور
کئی دن تک بہت تحقیق کیا پر کچھ حقیقت نہ معلوم ہوئی اور بہت فکر وغم میں
رہے ، پھر جب اللہ تعالٰی کا ارادہ ہوا تو بتادیا کہ وہ منافق جھوٹے ہیں
اور حضرت عائشہؓ پاک ہیں۔(تقویة الایمان:ص:52)
(اللہ کی خاص شان میں کسی مخلوق کو دخل نہیں):
اخرج فی شرح السنة عن حذیفة عن النبی ﷺ قال : لاتقولوا ماشاءاللہ و شاءمحمد
،قولوا ماشاءاللہ وحدہ۔
مشکوة کے باب الاسامی میں لکھا ہے کہ شرح السنة میں ذکر کیا ہے کہ نقل کیا
حذیفہؓ نے کہ پیغمبر خدا نے فرمایا کہ: یوں نہ بولا کرو!جو چاہے اللہ
اورمحمد۔اور بولاکرو!جوچاہے اللہ فقط۔
ف:یعنی جو اللہ کی شان ہے اور اس میں کسی مخلوق کو دخل نہیں سو اس میں اللہ
کے ساتھ کسی مخلوق کو نہ ملاوے خواہ کتنا ہی بڑا ہو اور کیسا ہی مقرب ،
مثلاً یوں نہ بولے کہ اللہ ورسول چاہے گا تو فلانا کام ہو جاوے گا کہ سارا
کاروبارجہاں کا اللہ ہی کے چاہنے سے ہوتا ہے ،رسول کے چاہنے سے کچھ نہیں
ہوتا یا کوئی شخص کسی سے کہے کہ فلانے کے دل میں کیا ہے یا فلانے کی شادی
کب ہوگی ، یافلانے درخت کے کتنے پتے ہیں یا آسمان میں کتنے تارے ہیں تو اس
کے جواب میں نہ کہے کہ اللہ ورسول ہی جانے کیوں کہ غیب کی بات اللہ ہی
جانتا ہے رسول کو کیا خبر۔(تقویة الایمان :ص:126)
(اللہ نے اپنے رسول کودین کی سب باتیں بتادی ہیں):
اور اس بات کا کچھ مضائقہ نہیں کہ کچھ دین کی بات میں کہے کہ:” اللہ ورسول
ہی جانے“ یا ”فلانی بات میں اللہ ورسول کا یوں حکم ہے“ ، کیوں کہ” دین کی
سب باتیں اللہ نے اپنے رسول کی بتادی ہیں “اور سب بندوں کو اپنے رسول کی
فرماںبرداری کا حکم کردیا۔(تقویة الایمان :ص:126)
(ہمارے پیغمبر ﷺسارے جہاں کے سردار ہیں):
اب سننا چاہئے کہ سردار کے لفظ کے دومعنیٰ ہیں ایک تو یہ کہ وہ خود مالک
مختار ہو اور کسی کامحکوم نہ ہو ،خودآپ جو چاہے سو کرے ، جیسے ظاہر میں
بادشاہ ، سویہ بات اللہ ہی کی شان ہے ، ان معنوں کر اس کے سوا کوئی سردار
نہیں ۔اور دوسرے یہ کہ رعیتی ہی ہو مگر اور رعیتوں سے امتیاز رکھتا ہو کہ
اصل حاکم کا حکم اول اس پر آئے اور اس کی زبانی اوروں کو پہنچے جیسا کہ ہر
قوم کا چودہری اور گاؤں کازمیندار ، سو ان معنوں کر ہر پیغمبر اپنی امت کا
سردار ہے اور ہر امام اپنے وقت کے لوگوں کا، اور ہر مجتہد اپنے تابعوں
کااور ہر بزرگ اپنے مریدوں کا اور ہر عالم اپنے شاگردوں کا، کہ یہ بڑے لوگ
اول اللہ کے حکم پر آپ قائم ہوتے ہیں اور پیچھے اپنے چھوٹوں کو سکھاتے ہیں
۔سواسی طرح سے ہمارے پیغمبر سارے جہاں کے سردار ہیں کہ اللہ کے نزدیک ان
کارتبہ سب سے بڑا ہے اور اللہ کے احکام پر سب سے زیادہ قائم ہیں اور لوگ
اللہ کی راہ سیکھنے میں ان کے محتاج ہیں ، ان معنوں کر ان کو سارے جہاں کا
سردار کہنا کچھ مضائقہ نہیں ، بلکہ ضرور یوں ہی جاننا چاہئے اور ان پہلے
معنوں سے ایک چیونٹی کا بھی سردار ان کو نہ جانئے ، کیوں کہ وہ اپنی طرف سے
ایک چیونٹی میں بھی تصرف نہیں کرسکتے ۔ (تقویة الایمان،ص:136) |