’’ مجھے یہ ڈر ہے تیری آرزو نہ مِٹ جائے۔۔ ۔ بہت
دنوں سے طبیعت میری اداس نہیں ‘‘
(ناصر کاظمی )
شام کے وقت میرے گھر کی چھت سے مغرب کی طرف لنڈی کوتل کے اونچے انچے پہاڑوں
کا نظارہ بڑا سہانا لگتا ہے ۔کل شام میں سورج کے غروب ہونے کے منظر سے لطف
اندوز ہورہا تھا ، سورج کا آدھا حصہ پہاڑ کی چوٹی سے نیچے جا چکا تھا اور
آدھا حصہ اوپر دکھائی دے رہا تھا ۔تھوڑی دیر بعد پورا سورج ان بلند و بالا
پہاڑوں کے پیچھے نظر سے غائب ہو گیا ۔۔۔اب چاروں طرف اندھیرا چھانے لگا ،سورج
دھیرے دھیرے اپنا اجالا سمیٹ رہا تھا ۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر طرف
تاریکی پھیل جائے گی ۔مگر عین اسی وقت جب یہ عمل ہو رہا تھا اور تاریکی
اپنے پَر پھیلا رہی تھی تو دوسری طرف مشرقی سمت سے ایک اور روشنی ظاہر ہونا
شروع ہوئی ، یہ بارھویں چاند کی روشنی تھی ۔ جو سورج غروب ہونے کے بعد اس
کے مخالف سمت سے چمکنے لگا اور کچھ دیر بعد پوری طرح روشن ہوگیا۔ سورج کے
جانے کے بعد زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ سورج کی روشنی کی جگہ ایک نئی
روشنی نے ماحول پر قبضہ جما لیا ۔۔
عین اسی وقت میرے ذہن میں یہ نکتہ در آیا کہ ’’ یہ قدرت کا اشارہ ہے کہ جب
ایک امکان ختم ہوتا ہے تو عین اسی وقت دوسرے امکان کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ‘‘
سورج غروب ہوا تو چاند سے دنیا روشن ہوئی ۔۔ اسی طرح افراد یا قوموں کے لئے
بھی ابھرنے کے امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ زمانہ اگر ایک بار کسی کو گرا
دے تو اﷲ کے اس کائنات میں بندے کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ وہ نئے
مواقع کو استعمال کر کے دوبارہ اپنے ابھرنے کا سامان کر سکتا ہے ۔
میں عمو ما وطنِ عزیز کے حالات دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوجاتا ہوں ۔
موجودہ وزیر اعظم عمران خان سے لوگوں نے بہت ساری توقعات وابستہ کر رکھی
ہیں مگر گزشتہ ڈھائی سال ان کی دورِ حکومت میں عوام کو مایوسی کے علاوہ کچھ
نہیں مِلا ۔ اور اب بہت سارے اہلِ درد سوچتے ہیں کہ انجامِ گلستاں کیا ہو
گا َ ؟
ایسے دردِ دل رکھنے والے ہم وطنوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے
یہ دنیا عجیب امکانات کے ساتھ بنائی ہے ۔یہاں مادہ فنا ہوتا ہے تو توانائی
بن جاتی ہے ۔تاریکی آتی ہے تو اس کے بطن سے ایک نئی روشنی برآمد ہو جاتی ہے
۔ایک مکان گرتا ہے تو دوسرے مکان بنانے کے لئے جگہ خالی ہو جاتی ہے ۔یہی
معاملہ انسانی زندگی کے واقعات کا ہے ۔یہاں ہر ناکامی کے اندر سے ایک نئی
کامیابی کا امکان ابھر آتا ہے ۔ قوموں کے درمیان مقابلہ میں کوئی بہت آگے
بڑھ جاتا ہے جبکہ ایک قوم بہت پیچھے رہ جاتی ہے ، لیکن بات یہیں ختم نہیں
ہو جاتی بلکہ اس کے بعد ایک اور عمل شروع ہوتا ہے ،جس قوم نے زیادہ ترقی کی
ہوئی ہوتی ہے ،جو قوم بہت آگے کی طرف بڑھ چکی ہو تی ہے ۔ اس قوم کے اندر
عیش پسندی ،سہولت پسندی اور غرور و تکبر آجاتا ہے۔دوسری طرف پچھڑی اور
پسماندہ قوم میں محنت اور جد و جہد کا نیا جذبہ جاگ اٹھتا ہے ،انہیں ایک
کرشماتی لیڈر مِل جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے اس سر زمین پر
کسی کے لئے پست ہمت یا مایوس ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ حالات خواہ
بظاہر کتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں۔ ان نا موافق حا لات کے آس پاس ایک نئی
کامیابی کا امکان ضرور موجود ہوتا ہے ۔
دنیا کے مہذب ترین، خوشحال ترین اور انتہائی ترقی یافتہ اقوام میں بھی
کرپشن ہوتی ہے اور جرائم بھی ہوتے ہیں ۔دنیا میں اس وقت بھی کوئی ایسا ملک
موجود نہیں جہاں کے سو فی صد عوام ان کے حکومت سے خوشحال ہوں یا جہاں سو فی
صد لوگ سرکاری ملازم ہوں ۔ دنیا میں ایسی کئی مثالیں مو جود ہیں ،جو اس بات
کا واضح ثبوت ہے کہ جب بہت زیادہ تاریکی آتی ہے تو اس کے بطن سے نئی روشنی
نمودار ہو تی ہے۔جاپان کی مثال لے لیجئے ! دوسری جنگِ عظیم میں جنگ کی تباہ
کاریوں کے نقصانات کا جس قدر اس قوم کو سامنا کرنا پڑا، دنیا میں اس کی
مثال نہیں مِلتی۔ چین پاکستان سے بھی زیادہ گیا گزرا اور پسماندہ ملک تھا ۔
ہم تو ان اسلاف کے وارث ہیں جنہوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر نئے نئے
انقلابات کی تاریخ رقم کی ہے ۔ہمارے سامنے تو نمونوں کے انبار لگے پڑے ہیں
۔تین سو تیرہ ہو کر بھی کیاا وہ ہزاروں پر بھاری نہیں تھے ؟ کم خوراکی اور
غربت کے باوجود کیا وہ خوشحال نہیں تھے ؟ اس لئے ہمیں مایوسی سے نکلنا
چاہیئے، کیونکہ مایوسی گناہ اور دشمن کا مہلک ترین ہتھیار ہے۔۔۔۔
’’ اتنا بھی ناامید دل، کم نظر نہ ہو ۔۔ ۔ ممکن نہیں کہ شامِ الم کی سحر نہ
ہو ‘‘ |