تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے

 وہ مر چکی تھی، اُسے بانہوں میں اٹھائے وہ ہسپتال آ رہا تھا، اِس لیے نہیں کہ شاید زندگی کی کوئی رمق باقی ہو، بلکہ ٹھکانے لگانے کے لیے۔ ہسپتال رکھ جائے گا، لاپتہ قرار پا کر مسئلہ الجھ جائے گا اور اپنی گردن چھوٹ جائے گی،ایسا ہی ہوا۔ مگراُس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ہسپتال کے کیمرے اس کی ویڈیو ریکارڈنگ کر رہے ہیں، یوں جلد ہی پولیس ملزم تک پہنچ گئی ،دورانِ تفتیش یہ راز کھلا کہ کہانی پرانی ہے، بات بگڑ چکی تھی، اب مزید بگڑ گئی۔ اب گجرات سے لاہور جانے والی اس مقتولہ کے مقدمہ کا کیا ہوگا؟ اس پر زیادہ سر کھپانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اپنے ہاں وہ نہیں ہوتا، جو ہونا چاہیے، معاملات منظر سے بہت جلد اوجھل ہو جاتے ہیں، زمانے کی تیز رفتاری کی وجہ سے اُڑنے والی گرد کی تہیں ہر اچھی بری چیز پر پڑتی ہیں اور ماضی دفن ہوجاتا ہے۔ اب ایسی قانونی موشگافیاں نکلیں گی، کہانی میں ایسے موڑ آئیں گے، قوم انگشت بدنداں رہ جائے گی، کچھ ہی عرصہ بعد یہ واقعہ بھی قصہ پارینہ بن جائے گا۔

ایک لڑکی کی عبرتناک موت پر کوئی ہنگامہ سا برپا نہیں ہوا، نہ تو موم بتی گروپ سامنے آیا، اور میرا جسم میری مرضی کی رٹ لگائی،نہ سول سوسائٹی نے احتجاجی واک کی یا دھرنا دیا، نہ طالبات نے اپنی ساتھی کے حق میں مظاہرہ کیا، نہ کسی مذہبی لیڈر یا جماعت نے صدائے احتجاج بلند کی،نہ اپوزیشن کے کسی سیاستدان نے سیاست ’چمکائی‘، نہ کسی حکومتی وزیر مشیر نے ایکشن لینے کا وعدہ کیا، ممکن ہے بزدار سردار کے عملہ کی طرف سے بیان جاری ہو گیا ہو کہ تحقیق کے بعد سخت ایکشن لیا جائے گا۔ نہ علماء نے اس ایشو کا اٹھایا، نہ دانشوروں میں سے کوئی آگے بڑھا، نہ اساتذہ نے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک خاموشی کی چادر ہے، جو پورے معاشرے نے تان رکھی ہے، گویا آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اس لیے کہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں، ایسا تو آئے روز ہوتا ہے، ایک ہوٹل کے کمرے میں ایک نوجوان لڑکے نے اپنی ساتھی لڑکی کو گولی مار کر خود کشی کر لی تھی۔ ایک لڑکی پنکھے سے جھول گئی تھی۔ کب تک بیانات دیں بیچارے ۔

لڑکی مر گئی، لڑکا بھی جلد یا بدیر’ باہر‘ آجائے گا، کیونکہ اپنے ذہین وکلاء کی کوششوں سے کھیل ختم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ مگر کیا یہ ایشو شجر ممنوعہ ہے، کہ اس پر بات نہ کی جائے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے تباہی کا انتظار کیا جائے؟ کیا مسئلے کے حل اور اس سلسلے کی روک تھام کے لیے معاشرے کے مقتدر حلقوں کو اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے؟ سب سے پہلے ایسے واقعات کے محرک کو سامنے لانا ضروری ہے، ذمہ داران کا تعین ہونا چاہیے۔ ہماری نگاہ میں سب سے پہلے والدین کا نمبر ہی آتا ہے، اندھا اعتماد کرکے وہ بچیوں کو گھر سے روانہ کرتے ہیں، اُن کی تعلیم سے انکار نہیں، مگر تعلیم زندگی اور عزت کی بربادی کی قیمت پر تو حاصل نہیں کی جاسکتی۔ لباس کی بات ہوتی ہے تو سوشل میڈیا پر بیٹھے بے شمار خود ساختہ دانا تنقید کے ڈونگرے برسانے شروع کر دیتے ہیں، حیا ، شرم یا پردہ وغیرہ کا ذکر کر دیا جائے تو خود مذہب کو تنقید کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے،پردہ وغیرہ کو جبر اور ظلم تک قرار دیا جاتا ہے، معاملات پر نظر رکھنے کو تنگ نظری تصور کیا جاتا ہے۔ آخر کوئی طریقہ تو ہو کہ اِس قسم کے مسائل سے بچا جا سکے۔

سترہ اٹھارہ سال کی عمر سے کالج ، یونیورسٹی (سرکاری ہو یا نجی) میں مخلوط تعلیم کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، رابطہ قائم کرنے کے لئے ہمہ وقت ہر کسی کے ہاتھ میں قیمتی موبائل انٹر نیٹ کی سہولت کے ساتھ موجود ہے۔ اِس عمر میں لڑکیا ں لڑکے اکٹھے چھ گھنٹے گزاریں گے، اور بعد ازاں موبائل پر ایک دوسرے سے رابطہ رکھیں گے، نیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے براہِ راست ’لائیو‘ جڑے رہیں گے، تو جنسی کرپشن سے اُن کو کون بچا سکتا ہے؟ یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام طلبا وطالبات کی تمام تر مصروفیات یہی ہیں، مگر بہت بھاری اکثریت بہر حال ملوث ہے۔ مخلوط تعلیم کی پنیریاں تو بھاری فیسوں والے نجی سکول بھی ہیں، کہ جہاں روز اول سے لے کر میٹرک یا کالج تک طلبا وطالبات اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں، کراچی میں ایک طالب علم نے اپنی کلاس فیلوکو گولی مار دی تھی، جنسی معاملات کے واقعات تو آئے روز سامنے آتے ہیں، آٹے میں نمک کے برابر رپورٹ ہوتے ہیں، بے شمار کیس دب جاتے ہیں۔

مخلوط تعلیم کے سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں جا کر دیکھیں، تعلیم کم ، تفریح زیادہ دکھائی دیتی ہے، چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں مخلوط گروہ بیٹھے ہیں، خوش گپیاں اور شرارتیں ہو رہی ہیں، ’’یار‘‘ کے علاوہ کسی لفظ سے مخاطب نہیں کیا جاتا، چھیڑ چھاڑ اور پیش دستی کو معمول سمجھا جاتا ہے، کالج یا یونی ورسٹی میں کوئی لڑکا لڑکی اگرہاتھ پر ہاتھ مارتے اور جسمانی بے تکلفی کا مظاہر ہ کرتے ہیں تو قطعاً معیوب نہیں سمجھا جاتا ۔ یہاں سے بڑھی بات ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز تک جاتی ہے۔ کیا کسی ہوٹل کا کمرہ لیتے ہوئے ہوٹل والے نے حقائق جاننے کی ضرورت محسوس کی؟ چند ٹَکوں کی خاطر وہ قوم کی بیٹیوں کو برباد ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے اندر یا باہر اِن جوڑیوں کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کی جاتی؟ مذکورہ بالا کیس کو ہی دیکھ لیں، ایک کیمرے نے ملزم پکڑوایا۔ کیا والدین، طلبا وطالبات، اساتذہ یا دیگر متعلقہ طبقات نے کبھی یہ سوچا کہ اﷲ تعالیٰ کے کیمرے زیادہ طاقتور ہیں، ہمارے کندھوں پر کراماً کاتبین موجود ہیں۔ سورہ فجر کی آیت کا ترجمہ نگاہ سے گزرا؟ ’’ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے‘‘۔ یعنی انسان کو معلوم ہی نہیں اور اس کی زندگی کی لمحہ لمحہ فلم بن رہی ہے، وقت آئے گا جب ملزم کی حیثیت سے ہمیں ہماری پوری زندگی کی فلم دکھائی جائے گی اور ہمارے پاس انکار اور فرار کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ والدین، اساتذہ اور طلبا وطالبات اُس کیمرے کو بھی ذہن میں رکھیں۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472634 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.