پیارے دوستوں !کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
سیرت صدیق پڑھ کر دوستوں ایسا لگا
جیسے میں نے پڑھ لیا ہو ترجمہ قرآن کا
حصولِ برکت کے لیے چند کلمات حضرت ابوبکر کے حالات کے بارے میں لکھ رہا ہوں
، اللہ اسے میری،میرے والدین و احباب اور تمام قارئین کی بخش کا ذریعہ
بنائے
نام و نسب ، ولادت اورا لقاب:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا نام
عبداللہ اور والد کا نام عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب تھا ۔ آپ کی والدہ
کا نا م سلمیٰ بنت صخربن عامر بن کعب تھا ۔ آپ کی ولادت عام الفیل کے
ڈھائی سال بعد مکّہ میں ہوئی ، اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ رضی اللہ تعالی
عنہ حضور ﷺ کے ساتھ رہا کرتے تھے ۔ اسلام سے پہلے آپ کا نام عبدالکعبہ تھا
پھر آپ ﷺنے ان کا نام عبداللہ رکھا اور آسمان سے آپ کا نام صدیق اتارا
گیا کیونکہ آپ نے نبوت کے بارے میں بغیر توقف کے آپ ﷺکی تصدیق کی چنانچہ
ابو نعیم نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے
فرمایا کہ میں نے اسلام کے بارے میں جس سے بھی بات کی تو اس نے مجھ پر
انکار کیا اور مجھ سے گفتگو میں مراجعت کی سوا ابن ابی قحافہ کے کیونکہ میں
نے اس سے جس چیز کے بارے میں بات کی تو اس نے اس کو قبول کیا اور اس پر
استقامت اختیار کی۔ اور معراج کے بارے میں بغیر تردد کے انہوں نے تصدیق کی
جبکہ لوگوں نے بہت زیادہ واقعہ معراج کا انکار کیا یہاں تک کہ بعض مسلمان
بھی اس کی وجہ سے مرتد ہوئے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا لقب عتیق بھی تھا،
حضور ﷺ نے آپ کو جہنم سے آزاد ہونے کی خوشخبری دی،اسی مناسبت سے آپ کو
عتیق کہا جاتا تھا ۔
سب سے پہلے اسلام لانے والے: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
بارے میں روایات میں آتا ہے کہ وہ آپ ﷺکی نبوت پر آپ ﷺکے اعلان نبوت سے
بھی پہلے آپ ﷺپر ایمان لائے تھے اور جب بحیرا راہب نے آپ ﷺکے عنقریب
مبعوث ہونے کی ان کو خبر دی تھی ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ایمان لانے میں
سب پر سبقت کرنے والےتھے ۔
رسول اللہ ﷺ کے یار غار:آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور ﷺ کے ساتھ طویل
عرصہ تک مکہ میں اقامت اختیار کی۔اور حضور ﷺ کے ساتھ ہی ہجرت کی اورآپ
حضور ﷺ کے یارِ غار تھے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ہر ہر موقعہ پر نبی پاک ﷺ
کے ساتھ رہے ۔اور آپ نے تمام ہی غزوات میں شرکت کی ۔
خلافت کی ذمّہ داری:حضور ﷺ کے وصالِ باکمال کے بعد آپ ۱۱ھ ۔۱۲ ربیع الاوّل
بروز پیر مسلمانوں کے خلیفہ بنے، مسلمانوں نے آپ کو خلیفہ الرسول کا لقب
دیا۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا لقب عتیق بھی تھا، حضور ﷺ نے آپ کو جہنم سے
آزاد ہونے کی خوشخبری دی،اسی مناسبت سے آپ کو عتیق کہا جاتا تھا ۔
افضلیت :آپ کے فضائل وکمالات شمار سے باہر ہیں مختصرً اآپ کا مقام یوں
بیان کیا جاتا ہے کہ آپ افضل البشر بعد الانبیاء ہیں ۔ہمارے پیارے آقا
ﷺکے بعد تمام انسانوں میں سے افضل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ہیں جیسا کہ حاکم اور ابن عدی اور خطیب نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی رحمت شفیع امت ﷺنے فرمایا ابوبکر صدیق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوّلین اور آخرین میں سے بہتر ہیں
اور آسمان اور زمین کی مخلوق سے بہتر ہیں۔ انبیاء کرام اوررسولوں کے سوا ۔
محققین نے ذکر کیا ہے کہ علم کلام میں جس فضلیت سے بحث کی جاتی ہے وہ فضلیت
بمعنی ثواب کی زیادتی ہے یعنی نیک کاموں پر زیادہ اجر ملنا ہے۔فضیلت سے
مراد ظاہری عبادات کی کثرت نہیں ہےکیونکہ ثواب ظاہری عبادات کی مقدار کے
مطابق نہیں ہوتا اس لیے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان
کے علاوہ کوئی شخص اُحُد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ صحابہ کرام
علیھم الرضوان کی طرف سے خرچ کئے ہوئے ایک مُد اور اس کے نصف کو بھی نہیں
پہنچ سکتا۔ بلکہ ثواب کاتعلق عمل میں اخلاص اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور ہر
وقت اللہ تعالیٰ کی یاد کیساتھ ہے اور یہ باطنی چیزیں ہیں اسی لیے امام
محمد غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کو تم پر فضیلت نماز اور روزے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان کی قلبی کیفیت
یعنی اخلاص او ر محبت حق کی وجہ سے ہے اسی طرح ثواب کی زیادتی شارع کی
خبرسے معلوم ہوسکتی ہے اس میں عقل اور ظاہری مناقب کا کوئی دخل نہیں ہے ۔
قرآن مجید اور حدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان پہلی
امتوں سے اور تابعین سے افضل ہیں اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
صحابہ کرام علیھم الرضوان سے افضل ہیں لہذا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ تابعین اور پہلی امتوں سے بھی افضل ہوں گے ۔
زمانۂ جاہلیت میں بھی بت پرستی سے پاک :حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا ۔
حضرت ابوبکر کی وصیتیں :حضرت ابوالملیح رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے
ہیں:جب حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وِصال کا وقت قریب آیا
، تو اُنہوں نے حضرت عمر بن خطّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف پیغام
بھجوایا ، اُن کے حاضر ہونے کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد
فرمایا:میں تمھیں وصیّت کرتا ہوں ،اگر تم میری وصیّت کو قبول کرو۔ بلاشبہ
رات میں اللہ تعالیٰ کے کچھ حقوق ہیں ،جنہیں وہ دن میں قبول نہیں کرے
گا۔اور یقینا دِن میں اللہ تعالیٰ کے کچھ حقوق ہیں،جنہیں وہ رات میں قبول
نہیں کرے گا۔اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ نفل قبول نہیں کرتا ، جب تک فرض کوادا
نہ کرلیا جائے ۔کیا تم نے نہ دیکھاکہ پلّہ اُن کا بھاری ہے جن کی دنیا میں
اتّبا عِ حقّ کے سبب آخرت میں تولیں بھاری ہوں گی۔ اور میزان اُن کے حقّ
بھاری ہوجائے گا۔اور میزان کا حقّ یہ ہے کہ اُس میں وہی حقّ رکھا جائے جو
اُسے بھاری کر دے ۔کیا تم نے نہ دیکھاکہ اُس کا پلّہ ہلکا ہےجنکی دنیا میں
اِتّباعِ باطل کرنے کے سبب آخرت میں تولیں ہلکی ہوں گی ۔ اور میزان اُن کے
حقّ میں ہلکا ہو جائے گا اور(اُن کے) میزان کا حقّ یہ ہے کہ اُس میں باطل
ہی رکھا جائے کہ وہ ہلکا پڑ جائے ۔کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے
آیتِ شدّت کو نازل کرتے وقت آیتِ رجاء کو بھی نازل فرمایا ۔ اور آیتِ
رَجاء کو نازل کرتے وقت آیتِ شدّت کو بھی نازل فرمایا تاکہ بندہ پُر امید
بھی رہے اور خائف بھی۔اور خود اپنے آپ کو اپنے ہاتھ سے ہلاکت میں نہ ڈالے
۔اللہ تعالیٰ سے سوائے حقّ کے کچھ تمنّانہ کرے۔ اگر تم میری اِس وصیّت کو
یاد رکھو گےتو موت سے بڑھ کر کوئی دوسرا اجنبی تمہیں محبوب نہ ہوگا ۔
اور(یاد رہے)موت سے چھٹکا را نہیں ۔اور اگر تم نے میری اِس وصیّت کو ضائع
کر دیا ، تو موت سے زیادہ کوئی دوسرا اجنبی تمہیں نا پسند نہیں ہوگا۔(تاریخ
دمشق ،414/30)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:مجھ سے میرے
والدِماجد رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت فرمایا:تم نے کس چیز میں رسول اللہ
ﷺکو کفنایا؟میں نے عرض کیا:تین کپڑوںمیں۔ارشاد فرمایا: میرے اِن دو کپڑوں
کو دیکھ لو! انہیں دھو لینا ! وہ دونوں کپڑے پیوندار تھے ۔پھر فرمایا: میرے
کفن کے لیے ایک ستھرا کپڑا خرید لینا! اور مہنگا مت خریدنا! میں نے عرض
کیا:ابّا جان!ہم کشادگی میں ہیں ،ہم پر وُسعت کر دی گئی ہے۔یہ سن کر آپ
رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اے میری بیٹی! زندہ شخص میّت کے مقابلے میں
نئے کپڑے پہننے کا زیادہ حقدار ہے ۔ اور یہ کفن توخون و پیپ سے آلودہ ہو
کر رہ جائے گا۔(الطّبقات الکبریٰ ،ابو بکر الصّدّیق ،ذکر وصیّۃ أبی بکر
،153/3)
حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:میرے والدِ گرامی
رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی یہ وصیت تحریر فرمائی:بسم اللّٰہ الرّحمن
الرّحیم یہ وہ باتیں ہیں جن کی ابو بکر بن ابو قحافہ نے دنیا سے جاتے ہوئے
وصیّت کی اُس وقت کہ جب کافر بھی ایمان لے آتا ہے ، اور فاجر بھی باز
آجاتاہے ۔اور جھوٹا سچ کہتا ہے ۔میں تم پر حضرت عمر بن خطاّب رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کو خلیفہ بناتا ہوں ۔ تو اگر وہ عدل سے کام لیں ، اور میرا اُ ن
سے یہی گمان ہے، اور مجھے اُن سے یہی اُمید ہے ۔اور اگر وہ ظلم ڈھائیں اور
بدل جائیں ، تو مجھے غیب کا علم نہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:{الَّا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوْااللّٰہَ کَثِیْرًا
وَانْتَصَرُوْامِنْ بَعْدِمَا ظَلَمُوْاأَیَّ مُنْقَلِبٍ
یَنْقَلِبُوْنَ}(الشعراء: 227/26)
ترجمہ:مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئےاور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد
کی اور بدلہ لیا بعد اِس کے کہ اُن پر ظلم ہوا ۔ اور اب جانا چاہتے ہیں
ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔
حضرت ابو سلیمان بن زبیر علیہ الرحمۃ کا بیان ہے:جن صاحِب نے حضرت ابو بکر
صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیّت لکھی وہ حضرت سیّدنا عثمان بن عفّان
رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔(تاریخ دمشق لابن عساکر ، ۳۰/۴۱۴)
وصال باکمال :آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ۲سال ۷ماہ تک خلافت کی ذمّہ داری
اٹھائی ۔ اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا وصال زہر کی وجہ سے ہوا ۔کسی نے
آپ کو کھانے کے لیے بطورِ ھدیہ خزیرہ (قیمہ جس میں دلیہ ڈالا گیا ہو)
بھجوایا تھا،آپ نے اورحضرت کلدۃ بن حارث نے اس میں سے کھایا ،حضرت کلدۃ
طبیب تھے جب انہوں نے اس میں سے کھایا تو کہا : اپنا ہاتھ اٹھا لیجیے ! اس
میں زہر ملاہو ا ہے ، جسے کھانے سے ایک سال میں موت واقع ہوجاتی ہے ۔بہرحال
اس کھانے کی وجہ سے دونوں حضرات علیل ہوگئے اور سال مکمل ہونے کے بعد ایک
ہی دن دونوں کا وصال ہوگیا ۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال پیر
کے دن جمادی الاوّل کے مہینے میں ۶۳ سال کی عمر میں ۱۳ھ میں ہوا ۔آپ کا
جنازہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پڑھایا ،اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ
کو رات کے وقت حضور ﷺ کے پہلو میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے
دفن کیا ۔ (الاصابۃ فی تمییز الصّحابۃ، ،145/4الزّیادۃ)
اللہ پاک حضرت ابوبکر صدیق کی برکات دنیا و آخرت میں ہمیں نصیب کرے ۔
|