جنوری 30 اور جزام سے آگاہی

دنیا بھر میں 30 جنوری عالمی طور پر جزام سے آگاہی کے دن طور پر منایا جاتا ہے تاکہ اس موزی مرض سے مکمل چھٹکارہ حاصل کیا جائے ۔

جزام کا مرض انسانی جسم کے پٹھوں اور دیگر بافتوں میں پھیلتا ہے اور غیر محسوس انداز میں اعصابی نظام کے اہم خلیوں کی کارکردگی کی نئے سرے سے پروگرامنگ کر دیتا ہے۔ یہ بات جزام سے متعلق تازہ ریسرچ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔

جزام کے مرض کی وجہ سے اس کے مریضوں کے جسم کی معمول کیAnatomy and Physiology اکثر اس طرح تبدیل ہو جاتی ہے کہ اعضاء بدنما اور ٹیڑھے ہو جاتے ہیں۔ برطانیہ میں سکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے ماہرین کی ایک نئی ریسرچ کے مطابق چوہوں پر کیے جانے والے ایک بالکل نئی قسم کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ جزام یا Leprosy کا سبب بننے والا طفیلی جرثومہ انسانی جسم کے اعصابی نظام کے ان خلیوں اور ان کی کارکردگی کو بڑے نپے تلے انداز میں ’ہائی جیک‘ کر لیتا ہے، جو شوان سیلز (Schwann cells) کہلاتے ہیں۔

انسانی جسم کے نروِس سسٹم میں شوان سیلز ان خلیات کو کہتے ہیں جو بنیادی طور پر زیادہ چربی والی ایسی اکائیاں ہوتے ہیں، جنہوں نے اعصابی خلیوں کو اپنے حفاظتی حصار میں لیا ہوتا ہے۔ یہ چکنے خلیے ان اعصابی خلیات کے لیے انسولیشن کا کام کرتے ہیں، جن سے گزرنے والے برقی پیغامات کی مدد سے اعصابی ڈھانچوں کو مختلف احکامات پہنچائے جاتے ہیں۔

جزام کی بیماری کا سبب بننے والا جرثومہ مائیکو بیکٹیریم لیپروزا (Mycobacterium leprosae) کہلاتا ہے۔ یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے ماہرین کی تحقیقی جریدے Cell کے شمارے میں شائع ہونے والی ریسرچ کے نتائج کے مطابق یہ جرثومہ شوان سیلز کو اس طرح نئے سرے سے پروگرام کر دیتا ہے کہ وہ بالغ اور پختہ کی بجائے دوبارہ اپنی ابتدائی اور خستہ حالت میں آ جاتے ہیں۔ پھر مائیکو بیکٹیریم لیپروزا نامی یہ جراثیم ان خلیات کو پٹھوں کی طرح کے سیلز میں تبدیل کر دیتا ہے۔

مائیکو بیکٹیریم لیپروزا یہ کام ان جینز کی کارکردگی کو متاثر کر دینے کے ذریعے کرتا ہے، جو شوان سیلز کی نشو و نما والی بالغ حالت میں کارکردگی کی نگرانی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہی جرثومہ ان اعصابی خلیات میں ان جینز کو فعال بنا دیتا ہے، جو ابتدائی اور کمزور حالت میں ان nerve cells کی کارکردگی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

جزام کا سبب بننے والا بیکٹیریا شروع میں انسانی اعصابی نظام کے باہر والے حصے میں خرابی پیدا کرنے کے بعد دیگر اعصابی بافتوں تک کیسے پھیل جاتا ہے۔ سکاٹش ماہرین کے مطابق یہ نئی دریافت اس عمل میں بڑی مددگار ثابت ہو سکتی ہے کہ مستقبل میں ایسی مؤثر ادویات تیار کی جا سکیں جو اس بیکٹیریا کو اس کی شوان سیلز کو ری پروگرام کر دینے والی حالت میں تبدیل ہونے سے پہلے نشانہ بنا سکے۔جزام ایک ایسی بیماری ہے جسے عرف عام میں کوڑھ بھی کہا جاتا ہے اور جس کا انسانوں کو ہزاروں سال سے سامنا ہے۔ ماضی میں اس بیماری کے مریضوں کو ناپسندیدہ اور قابل نفرت قرار دے کر باقی ماندہ معاشرے سے الگ تھلگ کر دیا جاتا تھا۔ دنیا کے جن خطوں میں یہ بیماری آج بھی پائی جاتی ہے، وہاں جزوی طور پر ابھی تک ایسا ہوتا ہے۔

عالمی ادارہء صحت WHO کے مطابق 2012ء کے آخر تک دنیا بھر میں جزام کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 82 ہزار کے قریب تھی۔ ان مریضوں میں سے زیادہ تر ایشیائی اور افریقی ملکوں کے باشندے ہیں۔ اس بیماری کی وجہ بننے والا بیکٹیریا انسانی جسم میں داخل ہو کر پوری طرح فعال ہونے کے لیے اوسطاً قریب پانچ سال کا عرصہ لیتا ہے اور کبھی کبھی تو متاثرہ فرد میں جزام کی علامات ظاہر ہونے میں 20 سال تک بھی لگ جاتے ہیں۔

جزام کی بیماری کا بنیادی طور پر مکمل علاج موجود ہے ۔ لیکن اگر مریض کا علاج نہ کرایا جائے تو اس کے ہاتھ، پاؤں، جلد اور آنکھیں ٹیڑھے اور بدنما ہو کر جسمانی معذوری کی وجہ بن جاتے ہیں۔
1950-60 کی دہاء میں پاکستان خاص کر کراچی میں جذام یا کوڑھ کا مرض پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا۔ مذہبی طبقے نے بھی اسے اﷲ کا عذاب قرار دے دیا۔چنانچہ جس انسان کو کوڑھ کا مرض لاحق ہو جاتا، اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا۔۔اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔ پاکستان میں 1960ء تک ہزاروں لوگ اس موذی مرض میں مبتلا ہوچکے تھے۔یہ مرض تیزی سے پھیل رہا تھا۔ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے۔ملک کے تقریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے بن چکے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا،چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ سسک سسک کر آہستہ آہستہ جان دے دے یا پھر خود کشی کر لے ان حالات میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کو ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے اس بھیانک بیماری کا پتہ چلا تو انہوں نے انتہاء عجیب اور مشکل فیصلہ کر ڈالا جی ہاں تیس سال کی انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور خاتون نے یورپ کی پرسکون اور پر آسائش زندگی کو چھوڑ کر پاکستان کا رخ کر لیا۔۔ زندگی کی خوبصورتیاں، رعنائیوں او آسائشوں کو ٹھوکر مار کر ایک جدوجہد والی زندگی کا انتخاب کرنا ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔۔ لیکن روتھ فاؤ نے تن تنہا اس فیصلے پر عمل درآمد کیا اور پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔۔ اس کے بعد وہ مستقل طور پر واپس اپنے وطن نہیں گئیں‘ انہوں نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی قربان کر دی۔انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا۔کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔ یہ عظیم خاتون اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی۔جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ان کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی۔وہ مریضوں کا علاج کرتیں اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا۔اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی۔ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا۔یوں یہ سینٹر 1965ء تک ہسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘انہوں نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا،ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے،وہ واپس جرمنی گئیں اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئیں۔جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔وہ پاکستان میں جزام کے سینٹر بناتی چلی گئیں یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔ ان کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا۔ حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی۔انہیں ہلال پاکستان‘ ستارہ قائد اعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائد اعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔جرمنی کی حکومت نے بھی انہیں آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr Tasawar Hussain Mirza
About the Author: Dr Tasawar Hussain Mirza Read More Articles by Dr Tasawar Hussain Mirza: 301 Articles with 346739 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.