پروفیسر صادق علی خان صاحب سے ایک یادگار ملاقات
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
پروفیسر صادق علی خان صاحب سے ایک یادگار ملاقات ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی آج 6فروری 2021 ء اپنے ہم پیشہ اور پرانے دوست پروفیسر صادق علی خان صاحب جو جامعہ ملی کے علاوہ جامعہ کراچی میں پروفیسر بھی رہے کے گھر ان سے ملاقات کے لیے جانا ہوا۔ان سے ملاقات کا سبب پروفیسر صاحب کے ایک صاحبزادے ڈکٹر اختر علی خان صاحب جو شعبہ طب سے تعلق رکھتے ہیں اور شاعری کا ذوق بھی رکھتے، ان کی شاعری کا مجموعہ کلام بھی منصہ شہود پر آچکا ہے۔ حسن اتفاق ہے کہ ڈاکٹر اختر علی خان کے علاوہ صادق علی خان صاحب کی صاحبزادی تہمینہ راؤ جو آسٹریلیا میں مقیم ہیں کے افسانوں کے مجموعے” خَا مُشِی کا شور“ پر بھی میں نے سیر حاصل تبصرہ کیا۔ اس تبصرے کے علاوہ ادبی جریدے ”سلسلہ“ کا تہمینہ نمبر بھی شائع ہوا، جریدے کے مدیراعلیٰ مرتضیٰ شریف صاحب نے مجھے مرتب شدہ شمارہ دکھایا، یہ موصوفہ شاعرہ اور افسانہ نگار بھی ہیں، آسٹریلیا ان کا وطن ثانی ہے۔ سلسلہ کا خاص نمبر شائع کرانے کی خواہشمند ہیں۔ میں اس جریدے کا سرپرست ہوں، یہ وجہ تھی مجھ سے مشورہ کرنے کی۔ وہ خصو صی شمارہ بھی شائع ہوا، اس وقت تک میں لاعلم تھا کہ تہمینہ راؤ پروفیسر صادق علی خان صاحب کی صاحبزادی ہیں۔ ایک اور حسین اتفاق دیکھئے کے صادق علی خان صاحب کی بہو سکینہ ریاض جو جامعہ کراچی میں پروفیسر ہیں سے بھی فیس بک کے توسط سے تعلق قائم ہوا۔ ان سے گفتگو میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ ہمارے بہت قدیم پڑوسی اداکار مظہرجس کا گھر کا نام ”گڈو“ہے سے بھی تعلق ہے۔ گڈو کے والد گوہر علی صاحب اور ان کی بیگم معروف عالم دین ذہین شاہ تاجی کی صاحبزادی تھیں اور پروفیسر سکینہ کی خالہ بھی۔ سکینہ ریاض صاحبہ سے معلوم ہوا کہ مظہر(گڈو) کے والد گوہر صاحب اور ان کی بیگم اللہ کو پیارے ہوچکے۔ سکینہ صاحبہ کا میرے مرحوم دوست منظور احمد بٹ کی کسی بیٹی سے بھی تعلق ہے۔منظور احمد بٹ میرے بچپن کے دوست اور پڑوسی تھے، میں نے منظور احمد بٹ کا خاکہ بھی تحریر کیا جو میری کتاب ’یادوں کی مالا‘ میں شامل ہے۔غالباً سکینہ صاحبہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کبھی بہار کالونی میں رہیں ہیں اور ہم بھی بہارکالونی کے مکین رہے، بعد میں آگرہ تاج کالونی میں کئی سال گزارے، ابو ظفر آزاد بن طاہر کے اسکول غاذی محمد بن قسم اسکول سے پرائمری کیا۔ اس طرح کے پرانے تعلق اکثر نکل آتے ہیں۔ بات پروفیسر صادق علی خان سے ملاقات کی کررہا تھا، کل رات ادیبوں اور شاعروں کے رابطہ کار شہزاد سلطانی ڈاکٹر اختر علی خان صاحب کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے۔ شہزاد سلطانی نے تعارف کرایا کہ یہ ہے ’ڈاکٹر اختر علی خان‘، میں فورناً جواب میں کہا کہ پروفیسر صادق علی خان صاحب کے صاحبزادے، جواب ملا جی، میں ڈاکٹر صاحب موصوف کو پہلی بار دیکھ رہا تھا، اس سے قبل ان کے شاعری کے مجموعے کو سرسری مطالعہ کرچکا تھا، نیز مرتضیٰ شریف صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بتا یا تھا کہ وہ صادق علی خان صاحب کے بیٹے ہیں۔ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ہم بہت دیر تک صادق علی خان صاحب، تہمینہ راؤ، سکینہ صاحبہ کے حوالے سے گفتگوکرتے رہے، یادیں تازہ ہوئیں۔اختتام محفل یہ طے پایا کہ ہم صبح پروفیسر صادق علی خان صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے گھر ملیر چلیں۔ ہفتہ کی چھٹی کے باعث گاڑی اور ڈرائیور دونوں میسرتھے۔ میں نے فواً ہاں کردی۔ایک بجے جانے کا پروگرام طے ہوا، ڈاکٹر اختر وقت مقرہ پر تشریف لے آئے، ہم بھی تیار تھے، ایک بجے اپنے گھر واقع صفورہ چوک سے ملیر ہالٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر اختر علی خان میرے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہی رہائش پذیر ہیں۔ پروفیسر صادق علی خان صاحب کو ہماری آمد کی اطلاع ہوچکی تھی، گھر پہنچے تو پروفیسر صاحب ہمارے منتظر اپنے گھر کے گیٹ کے فوری بعد لاؤنج میں تشریف فرما تھے۔ دیکھ کر باغ باغ ہوگئے، وہی اندازِ گفتگو،ہنستا مسکراتا چہرہ، والحانہ ملے۔ کورونا کے باعث ایک دوسرے کو گلے تو نہ لگا سکے لیکن ملاقات میں دونوں کی آنکھوں میں دوستی کے موتیوں کی چمکتے دیکھی جاسکتی تھی۔ صادق علی خان صاحب کی بھر پور جوانی اور ان کا والحانہ انداز نظروں کے سامنے تھا یقینا انہوں نے بھی ہماری بھر پور جوانی دیکھی اور اب ہم دونوں بڑھاپے کی منزل کو پہنچ کرملاقات کر رہے تھے۔فرق صرف قدر کے پروفیسر صاحب کی زندگی میں اسٹک سہارا بن چکی ہے اور میں دل میں ایک عدد اسٹینٹ، شوگر اور کمر کے مہروں کی تکلیف کے باوجود اسٹک کے بغیر زندگی کی راہ پر گامزن ہوں۔ قدرت کا نظام بھی کیا خوب ہے۔ کیسے کیسے جواں ہمت، تندرست و توانہ جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچتے ہیں تو برگت کے گھنے اور بوڑھے درخت کی مانند جھک جاتے ہیں۔انسان کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ یہی نظام قدرت ہے۔پروفیسر صاحب نے بتایا کہ ان کے ایک بیٹے نے جو ریلوے میں ملازم ہیں آج ان کی دعوت رکھی تھی لیکن جب ڈاکٹر اختر نے رات اپنے والد کو میرے ان کے گھر جانے کی اطلاع دی تو انہوں نے اپنے بیٹے کی دعوت کو ملتوی کریا۔ بڑی بات تھی، پروفیسر صاحب سے بہت دیر باتیں ہوئیں، ماضی کی یادیں تازہ کیں، بہت سے احباب موضوع بنے، کئی واقعات ایک دوسرے کوسنائے۔ میں نے اپنی کتب کا تحفہ انہیں پیش کیا، انہوں نے اپنی کتاب "Letters of Sadiq Ali Khan"مجھے عنایت فرمائی۔ پروفیسر صادق علی خان کی زندگی محبت سے عبارت ہے، انہوں نے جامعہ ملیہ میں، جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں استاد کی حیثیت سے، پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے رکن اور سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے جو خدمات انجام دیں وہ قابل ستائش ہیں، ساتھ ہی لکھنے اور چھپنے میں جس قدر محنت کی وہ مثالی ہے۔ وہ کئی برس پی ایل اے جرنل نکالتے رہے، کانفرنسیز، ورکشاپس کی رودادیں مرتب کیں اور شائع کیں، کتابیں بھی لکھیں، مضامین بھی لکھے اور شائع کیے۔ ڈاکٹراختر نے کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا، وہ اپنے گھر سے مکس سبزیوں کی ڈش بناکر لائے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ اچھی کوکنگ بھی کر لیتے ہیں۔ کھانے میں کئی ڈشیز تھیں۔ سب سے بڑھ کر محبت اور خلوص کی چاشنی جو کھانے کی ٹیبل پر موجودتھی وہ اپنی جگہ لاجواب تھی۔ پروفیسر صادق علی خان کی زندگی کی کہانی بہت طویل اور بے شمار خوشی اور غمی کے پہلو لیے ہوئے ہے۔مَیں نے پروفیسر صاحب کومشورہ دیا کہ وہ اپنی آپ بیتی تحریر کریں تاکہ وہ کام اور یادیں جو آپ کی شخصیت کے حوالے سے معلوماتی اور دلچسپ ہیں، آنے والی نسل ان سے استفادہ کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس پر کام شروع کردیا ہے۔پروفیسر صادق علی خان صاحب کو اللہ حافظ کہا اور اپنے گھر کی راہ لی۔ پروفیسر صاحب سے یہ ملاقات میری زندگی کی ایک یاد گار ملاقات رہے گے۔اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی والی زندگی عطا فرمائے آمین۔(6فروری 2021)
|