فلم رائٹر سے انٹرویو

(گزشتہ دنوں ایک مشہور فلم رائٹر سے اتفاقیہ ملاقات ہوئی۔ حُلیے اور باتوں سے ذرا بھی اندازہ نہ ہوسکا کہ وہ فلمیں لکھتے ہوں گے، مگر جب اُنہوں نے کسی بات پر برہم ہوکر ایک صاحب کو لتاڑنا شروع کیا تو اُن کی باتوں سے اُن کی فلموں کے ڈائیلاگ جھلکنے لگے۔ تب ہمیں اُن کی ”رائٹرانہ“ صلاحیتوں کا اندازہ ہوا۔ موقع غنیمت جان کر ہم نے اُن سے کچھ گفتگو ریکارڈ کرلی تاکہ آپ کو بھی کچھ اندازہ ہو کہ فلمیں لکھنا یعنی اسکرین رائٹنگ کیا ہوتی ہے!)

٭ آپ نے فلموں کے لیے کب لکھنا شروع کیا؟
فلم رائٹر : ٹھیک سے یاد نہیں، شاید تب میں نے پڑھنا بھی نہیں سیکھا تھا! پڑھتا تو خیر میں اب بھی نہیں ہوں!

٭ تو پھر کِس طرح لکھ لیتے ہیں آپ؟
فلم رائٹر : کلرکی وغیرہ کے لیے ہو تو ہو، لِکھنے کے لئے پڑھا لِکھا ہونا لازم نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پڑھاکو قسم کے لوگ پروف ریڈر تو بن سکتے ہیں، رائٹر اور بالخصوص فلم رائٹر تو ہرگز نہیں بن سکتے۔

٭ آپ کو کب محسوس ہوا کہ آپ فلم رائٹر بن سکتے ہیں؟
فلم رائٹر : یہ احساس مجھے نہیں، دُوسروں کو ہوا تھا۔ جب بھی کسی میں کسی میں کچھ لکھنے کی خُو بُو پیدا ہوتی ہے تو ماحول میں موجود دُوسرے لوگوں کے نتھنوں پر زیادہ گراں گزرتی ہے! میں جب جسمانی طور پر بھی خاصا چھوٹا تھا تب بہت بَک بَک کرتا تھا اور جو کچھ بَکتا تھا اُسے لِکھ کر دوستوں میں بانٹتا تھا۔ ایک دن میرے والد نے میری تحریر پڑھی اور بس.... اُن پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ہوش آنے پر وہ مجھے علاقے کے ایک بزرگ کے پاس لے گئے۔ اُن بزرگ نے میرے حالات پر بریفنگ لینے کے بعد مُجھے بغور دیکھا اور میرے والد کو دِلاسا دیتے ہوئے بولے ”آثار تو یہ ہیں کہ بچہ اخباری کالم نگار بنے گا! دیکھتے ہیں، اللہ نے تمہارے مقدر میں بالآخر کیا لِکھا ہے۔“

٭ مگر آپ تو فلموں کے اسکرپٹ لکھنے کی طرف آگئے؟ یہ کیسے ہوا؟
فلم رائٹر : بات یہ ہے کہ میں بچپن میں کھانے پینے کی چیزیں چرایا کرتا تھا۔ امی میری اِس عادت سے بہت تنگ تھیں۔ ایک بار اُنہوں نے بد دعا کی کہ جا تو زندگی بھر یونہی چوری کرکے کھائے۔ وہ کوئی قبولیت کی گھڑی تھی۔ بد دعا کے زیر اثر میں فلموں کے اسکرپٹ لکھنے لگا۔ پہلے کھانے پینے کی چیزیں چراتا تھا اور اب ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلموں سے آئیڈیا نکال کر اپنے دسترخوان کو ہرا بھرا رکھنے کا اہتمام کرتا ہوں!

٭ اِس چوری پر آپ کبھی شرمندہ نہیں ہوتے؟
فلم رائٹر : اِس عمل کو انسپیریشن قرار دیکر اپنے دِل پر سے بوجھ اُتار دیتا ہوں۔

٭ کوئی بھی فلم لکھتے وقت آپ تھیم کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں یا کہانی کو؟
فلم رائٹر : سب سے پہلے تو میں فلم کا بجٹ اور پروڈیوسر کی ذہنی سطح دیکھتا ہوں۔ اِس طرف سے مطمئن ہوکر لکھنا شروع کردیتا ہوں۔ اگر پروڈیوسر کی جیب اجازت دے تو تھیم وغیرہ بھی سوچ ہی لیتا ہوں۔ ویسے میں ”تلمیذ الرحمٰن“ ہوں، یعنی جو کچھ سیکھا ہے اپنے طور پر سیکھا ہے۔ میں کوئی تھیم ویم کامحتاج نہیں۔

٭ کہانی کس طرح ترتیب دیتے ہیں؟
فلم رائٹر : دُنیا میں بھر میں کہانی پہلے فائنلائز کرنے کا طریقہ رائج ہے جو خاصا فَرسودہ ہے۔ اگر اداکار کو پہلے سے معلوم ہو کہ کہانی کیا ہے تو ہر سین میں وہ اُسی کے مطابق ایکسپریشن دیتا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اداکار کو اِتنا پابند نہیں کیا جاتا۔

٭ اگر کہانی پہلے سے طے نہیں ہوتی تو اداکاروں کو کنٹی نیوئٹی پیدا کرنے میں تو بہت دُشواری پیش آتی ہوگی!
فلم رائٹر : اگر کسی اداکار کے سامنے صرف ایک سین ہو تو اُس کے مطابق اداکاری کرتا ہے۔ کسی دوسرے سین میں اُس کے ایکسپریشن کچھ اور ہوتے ہیں۔ پوری فلم میں ہمیں اِسی لیے مختلف ایکسپریشنز دکھائی دیتے ہیں۔ یہی تو ہماری فلموں کا کمال ہے۔ ہم ایکسپریشنز کے پنجرے میں قید رہنے والی اداکاری نہیں کرواتے!

٭ تو پھر آپ کے لکھنے کا طریقہ کیا ہے؟
فلم رائٹر : میں سین اور ڈائیلاگ لکھتا جاتا ہوں، کہانی کا کیا ہے.... وہ تو سین اور ڈائیلاگ کی دُم پکڑ کر چلی جاتی ہے۔ کبھی کبھی میں ڈائیلاگ بازی پر اکتفا کرتا ہوں، کہانی کو سمجھنا اور اُس کے سِرے تک پہنچنا فلم بینوں کا کام ہے۔ تھوڑا بہت اُن کی ذہانت پر بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ ویسے آپس کی بات ہے، جن فلموں میں کہانی نہ ڈالی جائے وہ لوگوں کو زیادہ پسند آتی ہیں!

٭ کیا آپ اپنے اسکرپٹ کی شوٹنگ کے دوران سیٹ یا لوکیشن پر موجود رہتے ہیں؟
فلم رائٹر : جی ہاں۔ یہ ہمارے فلمی ماحول کی ضرورت ہے۔ شوٹنگ کے دوران سیٹ یا لوکیشن پر موجود رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ پروڈیوسر یا ڈائریکٹر کی ہدایت اور ہیرو یا ہیروئن کی ڈیمانڈ کے مطابق ہاتھ کے ہاتھ، گرما گرم پکوڑے۔۔ سوری، میرا مطلب ہے سین لِکھ کر دیتا رہتا ہوں۔

٭ بات شوٹنگ کی ہو رہی تھی۔ بیچ میں پکوڑے کہاں سے آگئے؟
فلم رائٹر : بات یہ ہے کہ میں کسی زمانے میں پکوڑے بیچا کرتا تھا۔ کبھی کبھی اچانک یونہی آٹو فلیش بیک ہو جاتا ہے اور میں فلموں پر گفتگو کے دوران بھی پکوڑا پکوڑا کرنے لگتا ہوں!

٭ کمال ہوگیا، ہمارے ہاں پکوڑے بیچنے والے فلمیں لِکھ رہے ہیں! یہ تو بہت حیرت انگیز، بلکہ شرمناک بات ہے۔
فلم رائٹر : اِس میں حیرت یا شرمندگی کی بات ہے؟ جب دودھ، لَسّی اور کھوئے ملائی کی قلفی بیچنے والے پروڈیوسر بن سکتے ہیں تو پکوڑے بیچنے والے اسکرین رائٹر کیوں نہیں بن سکتے؟ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ کن کن پیشوں سے لوگ فلم انڈسٹری میں آتے ہیں!

٭ میرا خیال ہے پیشوں کا معاملہ رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ بات کہیں سے کہیں پہنچ جائے گی۔
فلم رائٹر : آپ خاصے سمجھدار معلوم ہوتے ہیں۔ میڈیا میں کیا کر رہے ہیں؟

٭ اِن باتوں کو رہنے دیں اور یہ بتائیں کہ ایک فلم لکھنے کا معاوضہ کیا ملتا ہے؟
فلم رائٹر : جیسی مُرغی ویسا انڈا۔ جیسی فرمائش ویسا اسکرپٹ۔ جیسا اسکرپٹ ویسے پیسے۔ ہم ایسے نَو دولتیوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کا باپ نیا نیا مرا ہو۔ ایسے لوگ ہمارے کام میں کیڑے نہیں نکالتے، بس جیب سے پیسہ نکالتے رہتے ہیں۔ یہ جو نئے پروڈیوسرز ہوتے ہیں نا اِنہیں جو بھی پُلندہ تھمادو اُسے اسکرپٹ سمجھ کر شوٹ کرنے لگتے ہیں اور جو کچھ شُوٹ کرتے ہیں اُسے فلم سمجھتے ہوئے ریلیز کردیتے ہیں!

٭ کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ تھیم کے مطابق فلم نہ لکھ سکے اور وہ ہٹ ہوگئی؟
فلم رائٹر : ایسا تو اکثر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو تھیم ویم کہیں ہوتی ہی نہیں۔ کہانی کے نام پر ہم دو تین ایکسیڈنٹ اور تین چار لڑائیاں لکھ دیتے ہیں اور فلم ہٹ ہو جاتی ہے۔ ایسی فلمیں ماہرین کو بہت پسند آتی ہیں اور وہ ایوارڈ کی سفارش بھی کردیتے ہیں!

٭ کوئی بھی فلم لکھتے وقت آپ کے ذہن میں کیا ہوتا ہے؟
فلم رائٹر : اسکرپٹ تیار کرتے وقت میں تو صرف یہ بات یاد رکھتا ہوں کہ اِس کام کے لیے ذہن کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے! جب میں انڈسٹری میں نیا آیا تھا تب دو تین فلمیں ذہن کی مدد سے لکھی تھیں۔ اِس غلطی کا خمیازہ کچھ اِس طرح بھگتنا پڑا کہ میں نے اسٹوڈیو کے باہر ڈیڑھ سال پکوڑے بیچے! جب دماغ ذرا ٹھکانے پر آیا تو میں نے ذہن سے کام لینا چھوڑا۔ پھر تو میں نے ایسے ڈائیلاگ لکھے کہ ہالی وڈ والے ترجمہ کروا کے پڑھیں تو عَش عَش کرنے سے پہلے غَش کھا جائیں!

٭ کبھی کِسی نے مشورہ دیا کہ آپ اسکرین رائٹنگ باضابطہ سیکھیں، کسی ادارے میں داخلہ لیکر اِس فن کی باریکیاں اپنے اندر سَموئیں۔
فلم رائٹر : دو ایک مرتبہ میرا موڈ تو بنا کہ کچھ سیکھا جائے۔ مگر پھر جب نے بیرون ملک فن کے بڑے بڑے اداروں سے فارغ التحصیل ہوکر آنے والے اداکاروں اور مصنفین کا حال دیکھا تو کچھ سیکھنے کا خیال دل سے نکال ہی دیا۔

فلمی دُنیا کے ایک بزرگ نے مشورہ دیا کہ فلمی دنیا سے باہر کے جو لوگ ہیں اُن کی باتوں پر زیادہ دھیان مت دیا کرو۔ اُن کا کہنا تھا کہ سیکھنے سے لِکھنے اور اُسے پیش کرنے کی خوبصورتی اور برجستگی متاثر ہوتی ہے!

٭ اپنی کِس فلم پر آپ کو ناز ہے؟
فلم رائٹر : ”مِرّیخ کی مخلوق“۔ یہ فلم ایک ایسے ایماندار سرکاری افسر کے بارے میں ہے جو اُصولوں اور آدرشوں کو گلے لگائے زندگی بسر کرتا ہے۔ اُس کی ایمانداری جیسے جیسے پُختہ ہوتی جاتی ہے، وہ معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہوتا جاتا ہے۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا کہ اُسے وباء قرار دیکر قرنطینہ میں ڈال دیا جاتا ہے!

٭ آج کل آپ کو فلم لکھنے کی تحریک کیسے ملتی ہے؟
فلم رائٹر : اب تو معاملہ بہت آسان ہوگیا ہے۔ میں روزانہ ڈھائی تین گھنٹے پرائم ٹائم کے ٹاک شو دیکھتا ہوں۔ اِن میں روزانہ درجنوں کہانیاں ملتی ہیں۔ تھوڑی سی نوٹنگ کرتا ہوں اور بس شروع ہو جاتا ہوں۔ فائدہ اِس میں یہ ہے کہ ڈائیلاگ الگ سے نہیں سوچنے پڑتے۔ ٹاک شوز میں جو کچھ بَکا جاتا ہے اُسی میں سے جملے نکال لیتا ہوں، شاندار ڈائیلاگ بنتے چلے جاتے ہیں۔ اِس کے بعد کسی کہانی کی ضرورت باقی نہیں رہتی!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524753 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More