ھمارے اعمال کس کے حضور پیش کئے جاتے ہیں

سوال: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے رشتہ دار وں پر ہمارے اعمال پیش کئے جاتے ہیں؟ آپ کو روزنامہ جنگ کراچی/۱۷مئی بروز جمعہ ۱۹۹۲ ء کی فوٹو کاپی بھیج رہا ہوں۔ اس پر اس کے متعلق درج کردہ روایات کے بارے میں واضح کریں۔ کیا یہ صحیح ہیں یا ضعیف۔
جواب: عزیز مکرم نے روزنامہ جنگ /۱۷مئی بروز جمعہ ۱۹۹۲ء کی جو فوٹو اسٹیٹ ہمیں روانہ کی ہے اس میں موٹی سرخی بعنوان ’’اعمال پیش ہونا‘‘ کے تحت مفتی صاحب نے داڑھی منڈانے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’داڑھی منڈانے والوں تمہارے اعمال روزانہ فرشتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حرکات دیکھ کر کتنا دکھ ہو گا۔‘‘ اس پر مفتی صاحب نے کنز العمال /۳۱۸۵ اور حلیہ الاولیاء / ۱۷۹۶ کا حوالہ دیا پھر مزید عزیز واقارب کے سامنے اعمال پیش کرنے کی دلیل کے طور پر مسند احمد/۱۶۵۳ اور مجمع الزوائد /۲۲۸۲ کا حوالہ ذکر کیا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ داڑھی منڈانا دین اسلام میں حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور عذاب الیم کو دعوت ہے لیکن اِس ضمن میں اعمال پیش ہونے کے متعلق جو روایات پیش کی ہیں ، وہ درست نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ جو کچھ اِ ن کے سامنے ہے اُسے بھی جانتا ہے اور جو کچھ اِ ن سے اوجھل ہے اس سے بھی واقف ہے اور سارے معاملات اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔‘‘(الحج : ۲۲)

یعنی کائنات میں کسی چھوٹے یا بڑے معاملے کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ کوئی دوسرا نہیں۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرۃ ۲۱۰، آل عمران ۱۰۹، سورۃ حدید ۵ وغیرہ میں بیان کیا ہے اور صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب النھی عن الشحناء والتھا جر کے تحت سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہر جمعرات اور سوموار کو تمام اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو اس دن اللہ تعالیٰ ہر اس آدمی کو بخش دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتا سوائے اس آدمی کہ جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان عداوت ہو۔ کہا جاتا ہے ان دونوں کو چھوڑ دیجئے۔ یہا تک کہ صلح کر لیں۔‘‘(صحیح مسلم ۲/۳۱۷)

سنن نسائی، ابو داؤد اور صحیح ابنِ خزیمہ میں حدیث ہے کہ اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے ہیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر کسی دوسرے مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ رجب اور رمضان کے درمیان ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں رب العالمین کی طرف اعمال کو اُٹھایا جاتا ہے میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس حالت میں اُٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔‘‘

اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس دن اللہ کے ہاں اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل پیش ہو تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔

‘‘صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اُٹھایا جاتا ہے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے۔

‘‘ان تمام احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے محدث شہیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری تحفۃ الاحوذی ۵۵/۲پر رقم طراز ہیں:
(سوموار اور جمعرات کو اعمال کا پیش کیا جانا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کے منافی نہیں جس میں ہے کہ رات کا عمل دن سے قبل اور دن کا عمل رات سے قبل اُٹھایا جاتا ہے۔ اس لئے رفع (یعنی اُٹھانے) اور عرض (یعنی پیش کئے جانے) میں فرق ہے ۔ اس لئے کہ پورے ہفتے میں اعمال جمع کئے جاتے ہیں اور ان دو دنوں (سوموار اور جمعرات) میں پیش کئے جاتے ہیں۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر جمعہ میں دو مرتبہ سوموار اور جمعرات کو اعمال اللہ کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر مومن کو بخش دیتا ہے سوائے ان دو آدمیوں کے جن کی آپس میں عداوت ہو۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو مؤخر کر دو یہاں تک کہ وہ آپس میں صلح کر لیں۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ احادیث اس حدیث کے بھی خلاف نہیں جس میں ہے کہ اعمال شعبان کے مہینے میں اُٹھائے جاتے ہیں اور میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں اُٹھایا جائے۔ اس لئے کہ جائز ہے ہفتے کے اعمال تفصیلاً اُٹھائے جاتے ہوں اور سال کے اعمال اجمالی طور پر شعبان میں اُٹھائے جاتے ہوں۔

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ ہمارے تمام اعمال اللہ کی طرف اُٹھائے اور پیش کئے جاتے ہیں جو ان کی جزا و سزا کا مالک ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی مُتَصَرِّفُ الْاُ مُور نہیں جس کے سامنے ہمارے اعمال پیش کئے جاتے ہوں۔ مسند احمد ۱۶۵/۳کے حوالے سے جو روایت پیش کی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہارے اعمال تمہارے عزیز و اقارب میں سے مرنے والوں پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ اگر اعمال بہتر ہوں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر بہتر نہ ہوں تو وہ کہتے ہیں، اے اللہ تو ان کو اتنی دیر تک موت نہ دے جب تک انہیں ہماری طرح ہدایت نہ دے دے۔

‘‘یہ روایت ضعیف ہے اس لئے کہ اس کی سند میں سفیان اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے درمیان مجہول راوی ہے۔

مفتی صاحب نے مسند احمد کے ساتھ مجمع الزوائد کا بھی حوالہ دیا ہے لیکن تعجب ہے کہ------------ مفتی صاحب نے مجمع الزوائد کا حوالہ کوٹ کر دیا لیکن امام ہیثمی کی اس روایت پر جرح کو ہضم کر گئے ہیں۔------------- امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ مجمع الزوائد ۳۳۱، ۳۳۲ پر یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

اس کو احمد نے روایت کیا ہے اور اس سند میں ایک آدمی ہے جس کا نام نہیں لیا گیا۔ اس کے بعد امام ہیثمی نے اس روایت کے مطابق ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کے بارے میں اشارہ کیا ہے اور ابا ایوب کی یہ روایت امام ہیثمی اس بات سے پہلے والے باب میں لائے ہیں اور اس کے بعد فرمایا: رواہ الطبرانی فی الکبیر (۱۹۴/۱ ) والاوسط (۷۲/۱) اس روایت کو امام طبرانی المعجم الکبیر اور المعجم الاوسط میں لائے ہیں۔ اس کی سند میں مسلمہ بن علی ضعیف راوی ہے۔ مسلمہ بن علی کے متعلق امام بخاری ، امام ابنِ حبان اور امام ابو زرعہ رازی رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں۔ یہ منکر الحدیث ہے۔ امام ذہبی رحمۃاللہ علیہ میزان الاعتدال ۱/۶ پر راقم ہیں:ہر وہ شخص جس کے بارے میں، میں یہ کہوں یہ منکر الحدیث ہے اس سے روایت بیان کرنا حلال نہیں۔ امام یعقوب بن سفیان فسوی نے اسے ضعیف الحدیث ، امام جوزجانی ، امام ازدی، امام نسائی ، امام دار قطنی ، امام برقانی نے متروک الحدیث ، امام آجری نے ابو داؤد سے غیر ثقہ و غیر مامون نقل کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا: مسلمہ بن علی امام اوزاعی اور امام زبیدی سے منکر و موضوع روایتیں بیان کرتا تھا۔ تہذیب التھذیب ۴۳۹/۵، ۴۴۰(۷۷۵۸) لہٰذا یہ روایت بھی انتہائی کمزور ہے۔

حلیۃ الاولیاء ۱۷۹/۶ اور کنزل االعمال ۳۱۸/۵ پر مروی روایت:
’’سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر جمعہ کو مجھ پر میری امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ زنا کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب بہت سخت ہوتا ہے۔‘‘

یہ روایت بھی انتہائی ضعیف ہے۔ اس کی سند میں دو راوی مجروح ہیں ۔ احمد بن عیسیٰ بن ماھان الرازی۔ یہ سید نا علی کی فضیلت میں جھوٹی روایتیں بیان کرتا تھا اور عجیب و غریب روایات کو نقل کرتا تھا۔ محدثین نے اس پر کلام کیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ میزان الاعتدال /۱۲۸۱ اور لسان المیزان /۲۴۴۱۔

اِس روایت کا دوسرا راوی عباد بن کثیر بصری بھی متکل فیہ ہے۔ ملاحظہ کیجئے تہذیب التھذیب وغیرہ۔ لہٰذا یہ روایت بھی قابل حجت نہیں ۔ اِسی مضمون کی دو اور روایتیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہیں۔ ایک روایت کو امام ابنِ عدی نے ۱۲۴/۲پر نقل کیا ہے۔ اس کی سند میں فراش بن عبداللہ الاعتبار ہے اور دوسری روایت میں محمد بن عبدالملک بن زیاط ابو سلمہ انصاری ہے جو من گھڑت اور جھوٹی روایتیں بیان کرتا ہے جسے امام ابن طاہر نے کذاب کہا ہے۔

تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی (۹۷۵)۴۰۴/۲۔

۴۰۶ لہٰذا یہ روزنامہ جنگ کے مفتی صاحب کی بیان کردہ روایات ضعیف اور ناقابل حجت ہیں جن سے استدلال کرنا کسی طرح بھی روا نہیں جبکہ قرآنِ مجید اور احادیث صحیحہ مرفوعہ سے یہ بات بالیقین درست ہے کہ تمام اعمال کا مرجع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے جو متصرف الامور ، جزا و سزا کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ہستی اسبابِ عالم سے بالا تر ہو کر متصرف الامور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو متصرف الامور سمجھنا اور اعمال کو اس کی طرف لوٹانے کا عقیدہ رکھنا قطعاً غلط اور باطل ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئی ایک ایسے واقعات ہوئے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اوجھل رہے اور وہ اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش نہیں کئے گئے جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کا ایک خادم (یا خادمہ) تھا جو وہاں صفائی کا انتظام سرانجام دیتا تھا۔ جب وہ فوت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر اطلاع کئے اسے دفنا دیا گیا۔ چند روز بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ وہ تو فوت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہیں دی۔ مجھے اس کی قبر پر رہنمائی کرو۔ مشکوٰۃ (۱۶۰۹) ۱/۵۲۳۔ اس حدیث صحیح سے معلوم ہوا کہ یہ سارا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر مخفی رہا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعمال اُمت کو پیش کرنے والی بات درست ہوتی تو یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی بھی مخفی نہ رہتا۔ اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو جب حدیبیہ کے موقع پر سفیر بناکر بھیجا گیا تو ان کا معاملہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اوجھل رہا۔ لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعمال پیش نہیں کئے گئے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ عقیدہ رکھنا کہ ہمارے اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کئے جاتے ہیں اور اعمالِ صالحہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہیں اور اعمال سیۂ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دُعا کرتے ہیں اور اسی طرح اعزاء وا قارب کے بارے میں ایسا عقیدہ درست نہیں ہے۔
بشکریہ ادارہ تحفظ حدیث۔
Baber Tanweer
About the Author: Baber Tanweer Read More Articles by Baber Tanweer: 27 Articles with 91488 views A simple and religious man.. View More