سابق آئی جی موٹروے پولیس ذوالفقار احمدچیمہ کانام ایک
غیر روایتی اور دبنگ پولیس آفیسر کے طور پر جانا جاتا ہے وہ ڈی آئی جی
گوجرانوالہ تھے تو فرض اور ایمانداری کی ایسی روح پرور داستاں رقم کر گئے
کہ اسکا تصور کر کے ہی روح سرشار ہو جاتی ہے انکے دور کی بہت سی یادوں میں
نوشہرہ ورکاں کاوہ ضمنی الیکشن ناقابل فراموش ہے جب انہوں نے ہر قسم کے
حکومتی دباؤ کو مسترد کر اپنے فرائض کی انجا م دہی کی وہ منفرد مثال قائم
کی جس کا حوالہ آج بھی لوگ دیتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اس دن اگر حالات کو بر
وقت قابو کرنے کے لئے حکومت وقت پسپائی کی راہ اختیار نہ کرتی تو شاید ملکی
تاریخ میں پہلی بار صوبائی وزیر قانون کو اسکی ماتحت پولیس گرفتار تک کرنے
سے بھی گریز نہ کرتی اور رانا ثناء اﷲ الیکشن نتائیج میں گڑ بڑ کرنے کی
پاداش میں جیل کی سلاخوں پیچھے ہوتے ، جس وقت یہ چیلنج ذوالفقار چیمہ کو
درپیش ہوا تھا تب پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور شریف برادران کا
چیمہ برادران سے بہت گہرا اور اچھا تعلق تھا ،ذوالفقار چیمہ کے ایک بھائی
جسٹس (ر) افتخار چیمہ حکومتی جماعت کے منتخب ایم این اے تھے جبکہ دوسرے
بھائی ڈاکٹر نثار چیمہ جو اس وقت ایم این اے ہیں ان دنوں سروس میں تھے
پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف توذوالفقار چیمہ کی تعریفیں کرتے
نہیں تھکتے تھے ان دنوں ننھا گورائیہ جیسا منفی کردار شہباز شریف کے
پسندیدہ طریقے سے پولیس مقابلے میں پار ہواتھا اورذوالفقار چیمہ کے ایسے
اقدامات نے بری طرح خوف میں مبتلا بھتہ خوری اغواء برائے تاوان سے تنگ
گوجرانوالہ کی کاروباری برادری او ر شہریوں کو نیا حوصلہ دیا تھا مگر پھر
وہ دن بھی آیا کہ حکمران اپنے مفاد پر کاری ضرب لگتے ہوئے برادشت نہ سکے
سیاستدان کی چاہت کا اصل پتا ہی اس وقت چلتا ہے جب کوئی اسکے سیاسی مفاد کے
خلاف منہ کھولے ورنہ تو چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے دوسروں کو’’لپیٹا‘‘ ڈالے
رکھناسیاستدانوں کا مشغلہ ہے ،ذوالفقار چیمہ نوشہرہ ورکاں کے الیکشن کو
چوری کرنے کی راہ میں باقاعدہ دیوار بن کر حائل ہو گئے تھے انہوں نے پولیس
کے افسران اور جوانوں کے لئے وہ مثال قائم کی تھی جو حقیقت میں محمد علی
جناح ؒ کی سوچ کی آئینہ دار تھی ، ذوالفقار چیمہ نے حکمرانوں اور ارکان
اسمبلی کے سیکرٹریز کی فون کالز پر ناچنے والے پولیس افسران کو دکھا دیاکہ
غیرجانبداری کیسے اختیار کی جاتی ہے اور وفاداری کیا چیز اور کس کے لئے
ہوتی ہے یقینی طور پر پولیس افسران کو ریاست کے ساتھ وفادار رہنا چاہئے نہ
کہ حکومت اور حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کے اشاروں پر
رقص کناں ہوناانہیں زیب دیتا ہے نہ ہی انکے گھروں کے طواف ان کے فرائض
منصبی سے مطابقت رکھتے ہیں ذوالفقار چیمہ کاتعلق داری کو نظرانداز کر کے
فرض کو اولیت دینا ملکی تاریخ کے ایسے واقعات میں شامل ہے جو ناقابل فراموش
ہی نہیں بلکہ ہر شعبے کے افسران کے لئے قابل تقلید بھی ہے لیکن افسوس کہ
پولیس افسران ہوں یا دیگر محکموں کے افسران کسی نے اس مثال کو اپنے لئے
قابل عمل نہیں سمجھا ، ہمارے یہاں تقرری وتبادلے کا ذریعہ بننے والے
سیاستدان کی خدمت کو ہی واحد فریضہ سمجھا جاتا ہے پولیس نے سیاستدانوں کی
تابعداری کو زندگی کا واھد مقصد بنایا ہو ا ہے افسران سے لے کر اہلکاروں تک
ذہنی غلامی کی ایک زنجیر نظر آتی ہے جس میں سب جکڑے ہوئے ہیں ، ایسی ہی
اطلاعات تسلسل کے ساتھ ڈسکہ اور وزیر آباد کے ضمنی انتخابات کے بارے میں
موصول ہو رہی ہیں جہاں انتخابی نتائیج کوروایتی سیاسی کلچر کے تحت Manage
کرنے کے لئے پولیس اور دیگر محکموں کے افسران کی تقرریاں اور تبادلے کئے
جارہے ہیں ، ڈسکہ سے مصدقہ اطلاعات کے مطابق شریف انفس پولیس افسر ڈی ایس
پی رمضان کمبوہ کو سیاسی عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے سائیڈ لائن کر
دیا گیا ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ انہیں ضمنی الیکشن کے دنوں میدان سے باہر
کرنے کے لئے میڈیکل رخصتی کا مبینہ ڈرامہ رچایا گیا ہے اور انکی جگہ ججز
کیس کے اہم کردارڈی ایس پی ذوالفقار ورک کو تعینات کیا گیاہے جو ان دنوں
پولیس حراست سے فرار ہو کربیرون ملک نکل گئے تھے انکے بارے میں کہا جاتا ہے
کہ انکے جرائم پیش گینگز کے ساتھ ذاتی مراسم ہیں اسلئے حکومت مخالف
راہنماؤں اور انکے ووٹرز کو ہراساں کر نے میں یہ نمایاں کردار ادا کر سکتے
ہیں اسی طرح وزیر آباد میں ڈی ایس پی رانا اسلام کی تقرری کو بھی اسی تناظر
میں دیکھا جا رہا ہے جبکہ ووٹرز کو لبھانے کے لئے زکواۃ فنڈ کی وارڈز کی
سطح پر تقسیم کا شور بھی مچاہوا ہے پی ٹی آئی کی حکومت الیکشن جیتنے کے لئے
ہر وہ حربہ آزما رہی ہے جس نے ہماری سیاست کو داغدار کرنے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی اس ساری صورتحال میں ماضی کے ضمنی الیکشن میں بطور پولیس افسر
ان حکمرانوں کو انکار کر کے اپنا لازوال کردار نبھانے والے ذوالفقار چیمہ
کی ایک للکارسامنے آگئی ہے جس نے انکے بے داغ اور بے مثال کردار کو اور بھی
اُجلا کردیا ہے ، اپنے ایک غیر معمولی بیان میں انہوں نے سی پی او
گوجرانوالہ سرفراز فلکی اور دیگر پولیس افسران و اہلکاران کو مخاطب کرتے
ہوئے کہا ہے کہ وزیر آباد کے ضمنی الیکشن میں پولیس غیر جانبدار نہ رہی تو
اسکا عدالتی محاسبہ کریں گے سی پی او گوجرانوالہ حکومتی پارٹی کے کہنے پر
تبادلے کرنے اور پی ٹی آئی کا آلہء کار بننے سے باز رہیں بصورت دیگر انہیں
عدالتی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا ذوالفقار چیمہ کی اس للکار کے بعد مبینہ
طور چیف الیکشن کمشنر نے انہیں فون کیا ہے اور ضمنی الیکشن میں شفافیت اور
سرکاری افسران و اہلکاروں کی غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار
کیا ہے ، ذوالفقار چیمہ کے انکار سے لے کر انکی للکار تک کے اعلیٰ کردار
میں سرکاری افسران ہی نہیں سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کے لئے بھی مکمل
راہنمائی موجود ہے ، سرکاری افسران اگر تہیہ کر لیں کہ انہیں کسی سیاستدان
کے غیر قانونی اور بے جا احکامات نہیں ماننے تو آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا اور
نہ ہی انکے لئے زمین تنگ ہوجائے گی بلکہ سیاسی مداخلت سے پاک محکموں کی
بہتر کارکردگی سے انکی عزت اور وقار میں اضافہ ہی ہوگا اسی طرح رات جمہوریت
کا راگ الاپنے والے سیاستدانوں کو اپنے رویوں میں جمہوریت لانی ہوگی دوسروں
کے بولنے کہنے اورلکھنے کا حق تسلیم کرناہوگا اورسیاسی کارکنوں کو بھی مدح
سرائی اور غلامانہ ’’اظہارمحبت‘‘ترک کرکے سیاستدانوں اور لیڈروں کے کانوں
میں ہر وقت شہد ٹپکانے کی کوشش چھوڑ کر انہیں جائز تنقید سننے کا عادی
بنانا ہوگا تاکہ جب کوئی انکے مزاج کے خلاف بات کہے لکھے یا انکی پسند سے
ہٹ کر کام کرے تو انہیں اپنے ساتھ دشمنی محسوس ہو نہ ہی کوئی گھناؤنی سازش،
کوئی افسر اگر سیاسی وابستگی سے قطع نظر اپنے فرائض دیانتداری سے انجام دے
رہا ہو تو اسکا حوصلہ بڑھانا ہوگا اسکو دھمکانے اورتبادلے کی دھمکیاں دے کر
آئندہ دیانتداری سے دور رہنے کے عادی مجرم میں تبدیل کرنے سے ملک اور عوام
کا کوئی بھلا نہیں ہو سکتا ، یقینی طور پرملک وقوم کی خدمت کے قابل وہی
افسران ہو سکتے ہیں جو ذہنی و جسمانی طور پر مکمل فٹ ہوں جن کے دماغ اور
سوچوں پر حکمرانوں کے بھاری پاؤں نہ رکھے ہوئے ہوں کیونکہ چابی والے کھلونے
کوتو جتنی چابی دی جائے اتنا ہی چلتا ہے اور اسکے نزدیک چابی سے زیادہ چلنے
کا کوئی تصور تک نہیں ہوتا،حکمران انسانوں کو انسان رہنے دیں چابی والے
کھلونے نہ بنائیں۔
|