#العلمAlilm علمُ الکتاب ((( سُورةُالحِجر ، اٰیت 1 تا 15
!! ))) تَنزیلِ قُرآن اور تَحفیظ قُرآن !! ازقلم.. علامہ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الٓرٰ
تلک اٰیٰت
الکتٰب و قُرآن
مبین 1 ربما یودالذین
کفروالوکانوامسلمین 2 ذرھم
یاکلوا ویتمتعوا ویلھھم الامل فسوف
یعملون 3 ومااھلکنا من قریة الّا ولھا کتاب
معلوم 4 ماتسبق من امة اجلھا وما یستاخرون 5
وقالوا یٰاھاالذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون 6 لو ما تاتینا
بالملٰئکة ان کنت من الصٰدقین 7 ما نزل الملٰئکة الّا بالحق وما
کانوا اذا منظرین 8 انا نحن نزلناالذکر وانا لہ لحٰفظون 9 ولقد ارسلنا
من قبلک فی شیع الاولین 10 وما یاتیھم من رسول الّا کانوابہ یستھزءون
11 کذٰلک نسلکہ فی قلوب المجرمین 12 لا یؤمنون بہ وقد خلت سنة الاولین 13
ولوفتحنا علیھم بابا من السماء فظلوا فیہ یعرجون 14 لقالوا انما سکرت
ابصارنا بل نحن
قوم مسحورون 15
اللہ تعالٰی نے زمان و مکان کے جس جس گزرے ہوۓ لَمحے اور جس جس بیتے ہوۓ
ثانیۓ میں اپنا جو جو کلام اپنے جس جس رسول پر جب جب بھی نازل کیا ھے اَب
وہ سب کا سب کلام اللہ تعالٰی نے اپنے اُس رسول کے لیۓ جمع کردیا ھے جو
اللہ تعالٰی کے ہر ایک زمان و مکان کا رسول ھے اور اللہ تعالٰی نے اپنے اُس
رسول کے لیۓ اپنا وہ سب کا سب کلام اپنی اُس روشن کتاب قُرآن میں جمع کردیا
ھے جو اللہ تعالٰی کے ہر زمان و مکان کی کتابِ ھدایت ھے اور قُرآنِ کریم
آنے والے زمانوں کی وہ خاص الخاص کتاب ھے کہ جب انسان کی انسانیت فنا ہو
رہی ہوگی تو اُن زمانوں کے انسان حسرت سے کہیں گے کاش کہ ھم نے اِس کتاب کے
اَحکام اِس سے پہلے ہی تسلیم کر لیۓ ہوتے تو آج ھم زوال کی طرف بڑھنے والی
ایک ناکارہ قوم نہ ہوتے بلکہ زوال سے کمال کی طرف بڑھنے والی ایک کار آمد
قوم ہوتے اور اے ھمارے رسول ! آپ کے زمان و مکان میں جو بہکے اور بَہٹکے
ہوۓ لوگ قبُولِ حق سے گریز پاہیں اُن لوگوں کو آپ اِس وقت اللہ کی زمین پر
کماتے کھاتے اور جُھوٹی اُمیدوں کے جُھوٹے جال بناتے ہوۓ چھوڑ دیں کیونکہ
آنے والے زمانوں میں اِن پر وہ زمانہ ضرُور آۓ گا جس زمانے میں اِن کو حق
کا رُوۓ روشن آفتابِ نصف النہار کی طرح جگمگاتا ہوا نظر آۓ گا ، آپ کی اِس
قوم سے قبل زمین پر جو قومیں انکارِ حق کے باعث ہلاک ہوئی ہیں اُن میں سے
ھم نے کسی قوم کو بھی اِس نوشتہِ حق کے انکار سے پہلے ہلاک نہیں کیا ، زمین
پر حق سے انحراف کرنے والی ہر قوم کی قومی حیات کی ایک مقررہ مُدت ہوتی ھے
اور ھم زمین کی کسی قوم کو اُس کی مقررہ مُدت سے ایک ساعت آگے بھی نہیں
جانے دیتے ہیں اور ایک ساعت پیچھے بھی نہیں رہنے دیتے ہیں ، ھم نے تو اپنی
زمین پر اُس قوم کو بھی اُس کی مقررہ مُدتِ حیات پُوری کرنے کا پُورا وقت
دیا ھے جس قوم نے زبان بھی کھولی تھی تو صرف یہ کہنے کے لیۓ کھولی تھی کہ
جس انسان پر یہ قُرآن نازل ہوا ھے اُس کے بارے میں ہمیں یقین ھے کہ وہ ایک
دیوانہ انسان ھے ، اگر وہ سَچا ہوتا تو اُس کے ساتھ ضرُور وہ فرشتے بھی
نازل ہوتے جو اُس کی دعوت کا انکار کرنے والوں کی سرزنش کرتے لیکن یہ باتیں
کرنے والے لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ جس وقت ھم اپنا کلام نازل کرتے ہیں تو
اُس وقت ھم اپنے کلام کے ساتھ اپنے فرشتے بھی نازل کرتے ہیں لیکن اُن کو
ھماری اِس تنزیل کے کسی مُنکر کے ساتھ تعرض کی اجازت نہیں ہوتی ، اگر ھم
اُن کو حق کے مُنکر انسانوں کی گرفت کرنے کی اجازت دے دیتے تو زمین پر حق
کا انکار کرنے والے بھی کہیں موجُود نہ ہوتے اور حق و باطل کی تمیز بھی
کہیں موجُود نہ ہوتی ، یہی وجہ ھے کہ ھم اپنے فرشتوں کو انسانوں پر قبضہ و
قُدرت پانے اور اُن کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں دیتے ، اگر تُم زمان و
مکان کی تاریخ پر ایک سرسری سی نگاہ بھی ڈالو گے تو زمان و مکان کی تاریخ
کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو جاۓ گی کہ اِس بار ھم نے اپنے رسول پر
جو قُرآن نازل کیا ھے تو ھم نے اِس قُرآن کی حفاظت کا بھی ایک ایسا بند و
بست کر دیا ھے کہ جن و انس باہم مل کر بھی اِس تنزیل کا ایک حرف آگے سے
پیچھے اور پیچھے سے آگے نہیں کر سکیں گے اور اِس سے پہلے بھی ھم نے اہلِ
حیات کے پاس اپنا یہی زیرِ نظر پیغامِ حیات بہیجا تھا لیکن اُن اَسلاف پرست
اہلِ حیات نے اِس قانونِ حیات کا انکار کردیا تھا کیونکہ جس زمین کے جو لوگ
اَسلاف پرست ہوتے ہیں اُن کے دلوں میں حق کا وہی کُہنہ انکار رَچ بَس جاتا
ھے جو اُن کے اَسلاف کے خُون سے اُن کے خُون میں آتا ھے اور وہ لوگ اسی لیۓ
حق کا انکار کرتے ہیں کہ حق کا انکار اُن کے خُون اور خمیر میں شامل ہوتا
ھے اور اَب اِن مُنکر لوگوں کا یہ حال ہو چکا ھے کہ اگر ھم اِن پر آسمان کے
دروازے بھی کھول دیں اور اِن کو آسمان کے اِن دروازوں میں چڑھنے اور بڑھنے
کی اجازت بھی دے دیں تو تب بھی یہ لوگ حق پر ایمان لانے کے بجاۓ اُس سارے
عمل کو ایک نظر بندی اور ایک جادُو کا عمل قرار دیں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورةُالحِجر قُرآنِ کریم کی کتابی ترتیب میں آنے والی پندرھویں اور حرُوفِ
مقطعات سے شروع ہونے والی وہ نویں سُورت ھے جس سُورت میں اللہ تعالٰی نے
اپنی اُس تنزیل کی تحفیظ کا وعدہ کیا ھے جو تنزیل اللہ تعالٰی نے سیدنا
محمد علیہ السلام کے قَلبِ اَطہر پر نازل کی ھے ، قُرآنِ کریم میں کم و بیش
19 بار وارد ہونے والے اِس لفظِ حجر کا حرفِ اَوّل کہیں مرفوع ہوتا ھے ،
کہیں مفتوح ہوتا ھے اور کہیں مکسور بھی ہوتا ھے لیکن اِس کی حرکات کی یہ
تبدیلی اِس کے بُنیادی معنی میں کوئی بڑی تبدیلی پیدا نہیں کرتی ، اہلِ
زبان اور اہلِ لُغت کے مقصدی استعمال کی رُو سے حجر بڑے پہاڑے سے ٹُوٹے یا
توڑے ہوۓ اُس چھوٹے پَتھر کو کہتے ہیں جو کسی احاطے کی چار دیواری میں
استعمال ہوتا ھے ، اِس لفظ کے حرفِ اَوّل پر آنے والے پیش سے ملفوظ ہونے
والے حُجرے کا لفظ و تلفظ بھی زمین پر بنی ہوئی اُسی چار دیواری کا مفہوم
فراہم کرتا ھے جو زمین کے کسی ٹکڑے پر کسی چیز کو یا خود اُسی زمین کے کسی
ٹُکڑے کو محفوظ رکھنے کے لیۓ بنائی گئی ہوتی ھے ، حجر کے اِس مادے کی جمع
حُجور بھی آتی ھے اور حُجرات بھی ہوتی ھے ، قُرآنِ کریم نے اِس مُفرد حجر
کی پہلی جمع حُجور سُورةُالنساء کی اٰیت 23 میں استعمال کی ھے اور اِس
مُفرد حجر کی دُوسری جمع حُجرات پر قُرآنِ کریم کی ایک پُوری سُورت موجُود
ھے ، لفظِ حِجر کے حرفِ اَوّل کے مکسور ہونے کی مثال سُورةُالفرقان کی اٰیت
22 میں ھے جہاں پر قُرآنِ کریم نے حِجر کے لفظ کو رکاوٹ کے معنی میں
استعمال کیا ھے اور رکاوٹ میں مُفرد دیوار اور مُربع چار دیواری دونوں ہی
شامل ہوتی ہیں اور حجر کے حرفِ اَوّل کا چونکہ حرکتِ فتح کے ساتھ استعمال
بہت عام ھے اِس لیۓ اِس پر اِس سے زیادہ بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ھے ،
اہلِ زبان کے اُسلُوبِ کلام میں اِس لفظ کا دیوار و چاردیواری ، قلعے و
احاطے اور حلقے و دائرے کے معنی میں استعمال ہونا بھی ہمیشہ ایک عام اور
رواجی استعمال رہا ھے ، زبان و لُغت کے اِس حلقے اور دائرے میں کپڑے کا وہ
حلقہ اور دائرہ بھی شامل ہوتا ھے جس کو محنت کش لوگ کام کے وقت کمر کے گرد
باندھ لیا کرتے ہیں اور اُس کپڑے کو سامنے سے جو گرہ دی جاتی ھے چونکہ وہ
گرہ بھی ایک حلقے اور ایک دائرے کی صورت بن جاتی ھے اِس لیۓ اُسلوبِ کلام
میں اُس گرہ بھی حجر ہی کہا جاتا ھے اور یہی وہ معروف حجر ھے جس کو اہلِ
روایت کی ایک معروف روایت کے مطابق سیدنا محمد علیہ السلام نے جنگِ خندق سے
پہلے خندق کی کُھدائی کرتے وقت کمر کے گرد کس کر باندھ لیا تھا تاکہ اُس سے
آپ کی کمر کسی رھے اور آپ کو اپنے جسم میں تھکاوٹ کا بھی زیادہ احساس نہ ہو
اور آپ کا یہی وہ کمر بند تھا جس کی دو گِرہوں کو اِن عُلماۓ روایت نے
بُھوک مٹانے کی غرض سے آپ کے وسطِ بطن پر باندھے ہوۓ دو پَتھر قرار دیا ھے
حالانکہ دُنیا کے کسی بھی دانش مند نے دُنیا میں کبھی بھی یہ نہیں کہا ھے
کہ پیٹ پر پَتھر باندھ لینے سے کسی انسان کی بُھوک کم یا ختم ہو سکتی ھے ،
انسانی تاریخ کے حوالے سے لفظِ حجر کے جو دو دستیاب حوالے موجُود ہیں اُن
میں ایک حوالہ تو یہ ھے کہ حجر اُس شہر کا نام ھے جو قومِ ثمُود کے زمانے
میں قومِ ثمُود کا ایک مرکزی شہر تھا اور یہ وادی القرٰی سے پیدل چلنے
والوں کے لیۓ ایک دن کے فاصلے پر واقع تھا لیکن اَب یہ شہر نیست و نابُود
ہو چکا ھے ، اِس کے شہر کے مغرب میں اثالث نامی وہ پہاڑ بھی ہوتا تھا جس کے
ایک غار سے صالح علیہ السلام کے زمانے میں وہ اونٹنی بر آمد ہوئی تھی جس کو
اُس قوم کے لفنگے لوگوں نے مار دیا تھا اور پھر خود بھی اللہ کے عذاب کی زد
میں آکر مارے گۓ تھے ، اِس روایت کے بر عکس اہلِ تاریخ ہی کی ایک دُوسری
روایت یہ ھے کہ قومِ حجر قومِ ثمُود سے ایک اَلگ تَھلگ قوم تھی جو اسماعیل
علیہ السلام کے بیٹے نبایط کے خاندان سے چلنے والی وہ نبطی قوم تھی جس کے
نسلی شواھد شام و عرب کی اَقوام میں اَب بھی کہیں کہیں پر ملتے ہیں ، بہر
کیف ھمارے نزدیک اِس سُورت کا موضوع کا قُرآن اور قُرآن کی وہ خُدائی حفاظت
ھے جس حفاظت کو اللہ تعالٰی نے اپنی ذمہ داری قرار دیا ھے اور اِس ذمہ داری
کی ظاہری اور عملی تکمیل کی صورت اللہ تعالٰی کی طرف سے زمین کے ہر حلقے
میں حُفاظ کا وہ حلقہ قائم کرنا ھے جو ہر زمانے میں تحفیظِ قُرآن کے لیۓ
کمر بستہ رہتا ھے اور تحفیظِ قُرآن کا یہ اعزاز وہ عظیم اعزاز ھے جو رُوۓ
زمین پر اس ایک کتاب کے سوا کبھی بھی کسی اور کتاب کو حاصل نہیں ہوا ھے اور
یہ اِس کتابِ عظیم کا وہ عظیم معجزہ بھی ھے کہ جو انسان قُرآن کو دل میں
بساتا ھے تو قُرآن اُس کے دل میں ایمان کی طرح ایمان اور جان کی طرح جان بن
کر رَچ بَس جاتا ھے ، اِن معروضات سے ھماری غرض یہ بتانا ھے کہ اُس سُورت
کا موضوع قُرآن کی وہ حفاظت ھے جو اللہ تعالٰی نے خود کرنے کا وعدہ کیا ھے
اور اللہ تعالٰی نے چونکہ اپنی اِس کتابِ نازلہ سے پہلے کسی اور کتابِ
نازلہ کی حفاظت کا وعدہ نہیں کیا ھے اِس لیۓ اللہ تعالٰی جب اِس سُورت کی
اٰیت 9 میں اِس کتاب کی حفاظت کا وعدہ کیا ھے تو اِسی سُورت کی اٰیت 90 اور
91 میں اپنے اِس وعدے کی یہ وجہ بھی بتادی ھے کہ پہلے زمانوں میں پہلے
زمانے کی پہلی اُمتوں کے لیۓ بھی پہلے رسولوں کے ذریعے یہی قُرآن نازل ہوتا
رہا ھے جو ہر زمان و مکان کی کتابِ علم و عمل ھے لیکن پہلے زمانے کے مفاد
پرست لوگوں نے اِس کتاب کے اِحکام کو ٹُکڑے ٹُکڑے کرکے اِس کتاب کو ہی
ٹُکڑے ٹُکڑے کردیا اِس لیۓ اِس بار جب اللہ تعالٰی نے انسان کے لیۓ اِس
کتاب کو اِس کی حتمی اور ختمی صورت میں نازل کیا تو اِس کی حفاظت کا اہتمام
بھی خود کردیا تاکہ مذہبی دوکان دار اِس کتاب میں کوئی لفظی تحریف نہ کر
سکیں ، اِس سُورت کی پہلی اٰیت ، نویں اور نوے ویں اٰیات کا مَحلِ وقوع اور
اِن اٰیات کا یہ مضمون اِس سُورت کا موضوع مُتعین کرتا ھے اور یہی اِس
سُورت کا موضوع ھے !!
|