#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالحِجر ، اٰیت 16 تا 25
انسان کی جان اور خطراتِ زمین و آسمان !! ازقلم.. علامہ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولقد
جعلنا فی السماء
بروجا وزینٰہا للنٰظرین 16
وحفظنٰہا من کل شیطٰن الرجیم 17
الا من استرق السمع فاتبعہ شھاب مبین 18
والارض مددنٰھا والقینافیھا رواسی وانبتنا فیھا من کل
شئ موزون 19 وجعلنالکم فیھا ومن لستم لہ برٰزقین 20 وان من
شئ الّا عندناخزائنہ وما ننزلہ الا بقدر معلوم 21 وارسلناالریٰح لواقح
فانزلنا من
السماء ماء فاسقینٰکموہ وماانتم لہ بخٰزنین 22 وانالنحن نحیٰ ونمیت ونحن
الوارثون 23
ولقد علمناالمستقدمین منکم ولقد علمناالمستاخرین 24 وان ربک ھو یحشرھم انہ
حکیم علیم 25
زمان و مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ اَطرافِ زمین
کے خلاۓ حسین میں ھم نے جو نظر افروز دائرے بناۓ ہوۓ ہیں اُن کا مقصد
انسانی نگاہ کو خوف سے بچانا اور راحت پُہنچانا ھے ، ھم نے اِس خلاۓ حسین
کے ہر دائرے کی حفاظت کا ایک ایسا خود کار انتظام کیا ہوا ھے کہ کسی خلائی
دائرے میں ٹُوٹ کر گرنے اور گر کر ٹوٹنے والا کوئی خلائی وجُود سرکش یا بے
قابُو ہو کر کسی دُوسرے خلائی دائرے میں داخل نہیں ہو سکتا ، اِس لیۓ جب
کبھی بھی فضاء میں گرنے والے کُچھ فضائی وجُود فضاء کے خاموش اَندھیرے سے
فضاء کے خاموش اَندھیرے میں گرنے لَگتے ہیں تو شھابِ ثاقب اُن کو ٹھکانے
لگانے کے لیۓ اُن پر لَپکتے ہیں اور اُن کی لَپک جَھپک کی کُچھ آواز اور
کُچھ روشنی اِہلِ زمین کی سماعت و بصارت تک بھی پُہنچ جاتی ھے ، ھم نے
تُمہاری زمین کے حصار کو تُمہاری زمین کے حصار میں پھیلا دیا ھے اور اِس
زمین میں پہاڑوں اور وادیوں کو بھی جَمادیا ھے اور اسی میں تُمہاری خوراک
کے لیۓ سبزہ و گُل بھی مناسب مقدار میں اُگا دیا ھے اور اِس طرح ھم نے
تُمہارا سارا سامانِ تسکین تُمہاری اسی زمین میں جمع کر دیا ھے اور ھماری
اِس زمین میں ھمارے سوا تُمہارا کوئی بھی روزی رساں نہیں ھے ، تُمہاری اِس
زمین میں رکھے ہوۓ سامانِ معاش کے سارے اندوختے ھمارے قبضے میں ہیں اور ھم
اُن کو اپنے ایک مقررہ اَندازے کے مطابق اہلِ زمین کے لیۓ ظاہر کرتے رہتے
ہیں اور ھم ہی ہیں جو زمین کے لیۓ پانی سے بھری ہوئی بوجھل ہوائیں فضاء میں
پھیلاتے ہیں اور ھم ہی ہیں جو تُمہاری تشنگی کی تسکین کے لیۓ فضا کی بلندی
سے قطرات کی صورت میں زمین پر وہ پانی گراتے ہیں جو تُم سب انسانوں سے
چُھپا کر اور سب انسانوں سے بچا کر اپنے ذاتی اور جماعتی استعمال کے لیۓ
ایک جگہ پر جمع نہیں کرسکتے ، زمان و مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی بھی
تصدیق ہو چکی ھے کہ زمین کے ہر زندہ وجُود میں ھم نے ہی جان ڈالی ھے اور
زمین پر ہر مرنے والے ہر جسم سے ھم نے ہی جان نکالی ھے کیونکہ زمین کے ہر
وجُود کے ھم ہی خالق و مالک ہیں اور ھم ہی اُس کے وارث و مورث بھی ہیں ،
تُم میں سے جو لوگ دیر تک دُنیا میں رہنے والے ہیں ھم اُن میں سے ایک ایک
کو جانتے ہیں اور تُم میں سے جو لوگ دُنیا سے جلدی جانے والے ہیں اُن کو
بھی ھم فردًا فردًا پہچانتے ہیں اور اُس دن کے واقع ہونے کے اُس وقت کو بھی
ٹھیک ٹھیک جانتے ہیں جب ھم نے اپنے علم اور اپنی حکمت سے سب انسانوں کو ایک
جگہ پر جمع کرنا ھے اور سب انسانوں سے اُن کے اَعمالِ نیک و بد کا حساب
لینا ھے اور سب انسانوں کو اُن کے سب اعمالِ نیک و بد کی جزا اور سزا دینا
ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
موضوعِ کلام کے اعتبار سے اٰیاتِ بالا کی دس اٰیات میں سے پہلی تین اٰیات
زمین کے اِرد گِرد پھیلے ہوۓ اُس عظیم خلاۓ بسیط کے بارے میں ہیں جس عظیم
خلاۓ بسیط میں ھماری وہ ایک کہکشا ھے جو ھمارے 13 لاکھ 92 ہزار 500 کلومیٹر
کی جسامت رکھنے والے ایک سُورج جیسے وہ دس کھرب سُورج لیۓ پھرتی ھے جو بہت
دُور ہونے کی وجہ سے ہمیں بہت چھوٹے چھوٹے نظر آتے ہیں اور ھم اُن کو ستارے
کہتے ہیں ، خلاۓ بسیط کے اِن ستاروں میں سے 6 ہزار ستارے دُوربین کے بغیر
بھی نظر آتے ہیں اور دیگر ستارے صرف دُور بین کی مدد سے نظر میں آتے ہیں ،
انسان خلاۓ بسیط میں کُھلی آنکھ سے ہر روز نظر آنے والے اِن ستاروں کا ہر
شب مُشاھدہ کر کے حیرت زدہ ہوتا رہتا ھے لیکن جس شب انسان اِن ستاروں کو
ٹُوٹ کر گرتے یا پھر گرکر ٹُوٹتے ہوۓ دیکھتا ھے تو وہ ستارہ شکنی کے اِس
خوفناک عمل سے خوف زدہ بھی ہو جاتا ھے ، اِن تین اٰیات میں انسان کو یہ
بتایا گیا ھے کہ تُمہاری زمین کے اِرد گرد پھیلے ہوۓ اِس خلاۓ بسیط میں جو
ستارے ھم نے بناۓ ہوۓ ، پھیلاۓ ہوۓ اور سجاۓ ہوۓ ہیں اِن کا مقصد تمہیں
ڈرانا نہیں بلکہ اِن کی خوب صورتی سے تُمہارا دل بہلانا ھے ، خلاۓ بسیط کے
یہ تارے اپنی حدُود سے نکل کر نہ تو دُوسرے ستاروں کی حدُود میں جا سکتے
ہیں اور نہ ہی فضا سے گرکر تُمہاری زمین پر آسکتے ہیں اِس لیۓ اہلِ زمین کو
اِن کی نقل و حرکت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ھے اور چونکہ تُمہاری زمین کی طرح
خلاۓ بسیط کی چیزوں میں بھی ٹُوٹ پُھوٹ کا ایک فطری عمل جاری ھے اِس لیۓ جب
کبھی خلاۓ بسیط میں کُچھ چیزوں کے ذریعے کُچھ چیزوں کی ٹُوٹ پُھوٹ ہو رہی
ہوتی ھے تو شھابِ ثاقب سلامت چیزوں کو اُن غیر سلامت چیزوں سے بچانے کے لیۓ
اللہ کے حُکم سے حرکت میں آتے ہیں اور اپنا کام مُکمل کر کے حوالہِ تقدیر
ہو جاتے ہیں ، علمی زبان میں شھابِ ثاقب خلاۓ بسیط کے زمین سے قریب تر خلاء
میں پھیلے ہوۓ اُن بڑے بڑے حَجری شہابیوں Meteorite کو کہا جاتا ھے جو خلاۓ
بسیط میں قُدرت کے اُن مقاصد کی تکمیل کے لیۓ ہمہ وقت مُتحرک رہتے ہیں جن
مقاصد کو صرف قُدرت ہی جانتی ھے لیکن یہ حجری شہابیۓ کبھی کبھی ایک بڑی
تعداد میں زمین کے دائرہِ کشش میں آجاتے ہیں تو ہوا کی رَگڑ سے گرم ہو کر
چمکنے لگتے ہیں اور پھر وہ حجری شہابیۓ انتہائی تیزی کے ساتھ زمین کی طرف
بڑھتے ہیں تو اِن سرکش شہابیوں کی سرکوبی کے لیۓ اِن ہی شہابیوں میں سے
کُچھ شہابیۓ اِن پر مُسلط کر دیۓ جاتے ہیں جو فضا میں اِن کو ریزہ ریزہ کر
کے فنا کر دیتے ہیں اور خود بھی ریزہ ریزہ ہو کر فنا ہو جاتے ہیں اور اِس
طرح قُدرت کے حُکم سے زمین ہمیشہ ہی اِن کے ذریعے آنے والی تباہی سے بچالی
جاتی ھے ، عُلماۓ روایت کی یہ بیہُودہ روایتی کہانی ایک بالکُل ہی لایعنی
کہانی ھے کہ زمین کے شیطان آسمان کے کُچھ راز چوری کر کے اپنے ساحروں اور
اپنے کاہنوں تک پُہنچاتے ہیں اور پھر اُن کے وہ ساحر اور وہ کاہن اُن رازوں
کو اپنے اپنے عقیدت مندوں میں پھیلا دیتے ہیں ، عُلماۓ روایت کی یہ روایات
ایک طرف تو وحیِ نبوت و رسالت کے اُس سارے سلسلے کو ہی مشکوک بناتی ہیں جس
سلسلے پر قُرآن کے کلام اللہ ہونے کا دار و مدار ھے اور دُوسری طرف اُن کی
یہی روایات قدیم کُفار کے اُس قدیم خیال کو بھی تقویت پُہنچاتی ہیں جو اللہ
کے ہر نبی کی وحی کو کسی جادو گر کا سکھایا ہوا ایک جادُوئی کلام کہا کرتے
تھے ، قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا کی اِن پہلی تین اٰیات میں انسان کی جان
کو آسمان کی ناگہانی آفات سے بچانے کی اِس خوشخبری کے بعد اَگلی چار اٰیات
میں انسان کو یہ دُوسری خوش خبری دی ھے کہ اللہ تعالٰی نے جس طرح آسمان سے
اُترکر زمین پر آنے والی آفات سے انسان کو بچانے کا انتظام کیا ہوا ھے اسی
طرح اللہ تعالٰی نے زمین کے نیچے سے اُبھر کر زمین کے اُوپر آنے والی آفات
سے بھی انسان کو بچانے کا اہتمام کیا ہوا ھے ، قُرآن نے انسان کو اپنے اِس
دعوے کے ثبُوت کے لیۓ یہ دلیل دی ھے کہ جس طرح آسمان اور آسمان کی تمام
چیزوں کی حرکت و عمل کا اپنا اپنا ایک مقررہ دائرہ عمل ھے اسی طرح زمین اور
زمین کی تمام چیزوں کی حرکت و عمل کا بھی اپنا اپنا ایک حصارِ عمل ھے جس
حصار میں رہ کر وہ اپنا اپنا عمل کرتی ہیں اور اللہ تعالٰی نے زمین کے جس
حصار کو زمین کے جس حصار میں محصور کیا ہوا ھے زمین کا وہ حصار اپنے اُس
حصار سے ایک اِنچ بڑھ بھی نہیں سکتا اور ایک اِنچ گَھٹ بھی نہیں سکتا اور
زمین پر زمین کی تجدیدِ جدید کے لیۓ جو طوفان اور زلزلے آتے ہیں اُن سے
بچنے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے انسان کو علم و عقل کی دولت دی ھے تاکہ انسان
اپنے علمِ خُدا داد سے اپنی اور اپنی زمین کی حفاظت کرے اور خود زمین کو
بھی اللہ تعالٰی نے یہ صلاحیت دی ہوئی ھے کہ وہ اپنے ہر بدلتے موسم میں
اپنی کی پرورش کرے اور اپنے ہر بدلتے موسم کے مطابق اپنے وجُود سے رزق و
رحمت کے وہ مناسب خزانے پیدا کرے جن سے انسان و حیوان فیضیاب ہوتے رہیں اور
پھر قُرآنِ کریم نے اِس سلسلہِ کلام کی اِن سات اٰیات کے بعد آخری تین
اٰیات میں یہ بتایا ھے کہ زمین و آسمان بذاتِ خود کسی اہلیت اور صلاحیت کے
مالک نہیں ہیں لھٰذا ہر انسان کو یہ جان اور سمجھ لینا چاہیۓ کہ اللہ
تعالٰی اپنی زمین میں اپنی جس مخلوق کو چاہتا ھے اُس مخلوق کو زمین و آسمان
کی متوقع آفات سے بچاتا ھے اور جب تک چاہتا ھے تب تک بچاتا ھے ، اِس لیۓ
انسان کو یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہیۓ کہ اُس کو زندگی دینے والا بھی
صرف اللہ ھے اور موت دینے والا بھی فقط اللہ ھے ، جو جانتا ھے کہ اُس نے کب
تک کس انسان کو اپنی زمین پر زندہ رکھنا ھے اور کب کس انسان کو اپنی زمین
میں دفن کرنا ھے ، اِس لیۓ لازم ھے کہ انسان اپنی اُس محشر اور اپنی اُس
محشر کے سوالِ محشر کے لیۓ تیار رھے جس کے لیۓ انسان کا پہلا اور آخری
سرمایہ انسان کا علم و عمل ھے اور علم و عمل کے سوا کُچھ بھی نہیں ھے !!
|