ڈکٹیٹر شپ یا جمہوری رویہ،وزیر اعظم صداقت دکھائیں․․․!

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشنز ترمیمی آرڈی نینس 2021ء جاری اور اسے فوری طور پر نا فذ العمل کرنے کا حکم بھی صادر فرما دیا ہے، اس کے تحت سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے ہو سکے گا۔حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس آرڈی نینس کی مخالفت کی ہے ۔

جب سے پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا ہے ،ہر معاملے کو متنازعہ بنانے کی کوششوں میں رہی ہے۔جمہوریت کے نام پر حکمران بننے والی جماعت نے ڈکٹیٹر شپ والا رویہ اختیار کیا،کیوں کہ اگر واقعی حکومت کی نیت سینیٹ کے شفاف الیکشن کروانے کی ہوتی،تو بر وقت حزب اختلاف کی جماعتوں کی مشاورت سے ایوان میں قانون سازی پر سنجیدگی دکھاتی ۔ اوپن بیلٹ کے ذریعے الیکشن کی تجویز کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ماضی میں اتفاق کر چکی ہیں ، عمران خان اور ان کے وزراء اس بات کا بار بار حوالہ بھی دیتے ہیں ،لیکن اگر صرف موجودہ سینیٹ الیکشن کے لئے ایک اصول اور باقی الیکشنز میں دوسرا طریقہ اپنایا جانا مقصود ہو تو حکمرانوں کی بد نیتی صاف ظاہر ہو جاتی ہے۔

سینیٹ کے الیکشن ہر تین سال بعد ہوتے ہیں اور سینیٹ کے نئے اراکین کے انتخاب کے لئے سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں،اس کے بعد تمام صوبائی اسمبلیوں میں خفیہ ووٹنگ کرائی جاتی ہے،لیکن خفیہ ووٹنگ کے سبب ووٹرز کی خریداری کا بازار لگ جاتا ہے ۔ہر الیکشن میں ووٹر اراکین اسمبلی کروڑوں روپے لے کر اپنا ووٹ فروخت کرتے ہیں۔جس کی حالیہ مثال چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کی گئی خریدو فروخت ہے۔

وزیر اعظم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیاسی و جمہوری ذہن کے مالک نہیں ہیں ۔انہوں نے وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھااورجیسے تیسے اسے پورا کیا، اب اس کا تسلسل چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ آئے روز آرڈی نینسز کا اجرا کرواتے ہیں۔آرڈی نینس ہنگامی نوعیت کی قانون سازی کے لئے جاری ہوتے ہیں،جو کہ ایک جمہوری طریقہ نہیں ہے۔حزب اختلاف کی جماعت نے جب جب حکومت سے تعاون کرنے کی کوشش کی،حکومت نے اس کا الٹ مطلب لیا ،یہی وجہ ہے کہ دونوں جانب تلخیاں بڑھتی گئیں۔سینیٹ کے الیکشن کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے،الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم کے لئے حکومت کو سینیٹ میں حزب اختلاف کی حمایت کی ضرورت ہے،کیوں کہ یہ حکومت تو چار ووٹوں سے بنائی گی ہے ۔حکومت نے بجائے ایوان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنے کے،سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے،حکومت کے اس اقدام سے ایوان بالا متنازع ہو گا۔ایسی ضد اوراَنا پرستی جمہوری رویوں میں ہر گز نہیں ہوتی ۔عمران خان کے وزراء کی سوچ پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ،ایسے گرم ماحول میں معاملہ فہمی کا ثبوت دینے کی بجائے فواد چوہدری نے18 ویں ترمیم کے خاتمے کا شوشہ چھوڑ دیا ہے اور باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ نئی سینیٹ میں حکومت کے پاس اکثریت ہو گی اور ہم 18 ویں ترمیم کو ختم کریں گے ۔لیکن حکومت کو یاد رہے کہ جیسے حزب اختلاف سینیٹ میں اکثریت لینے کے باوجود بھی کچھ حاصل نہیں کر سکی،انہیں میں کچھ فائدہ نہیں ہوگا،لیکن ایوانِ بالا کو کمزور کر کے ملک کا نقصان ضرور کریں گے۔

پاکستان کی تاریخ میں ایسے مواقع بار بار آئے ہیں ،جب کرپشن کرپشن کا واہ ویلا کیا گیا۔ہراقتدار سنبھالنے والے نے ملک کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھا،دوسروں پر تنقید اور اپنے آپ پر صاف شفاف کا لیبل لگایا،لیکن جب اپنے مفادات آڑے آئے تو غبارے سے ہوا نکل گئی اور ایک خاموشی ،وہ بھی بے حس خاموشی کی آڑ میں غریب عوام کا لہو اور نا جانے کن کن ذرائع سے کمائے گئے مشکوک سرمائے کے سراغ کو ایسے دبا دیا جاتا رہا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

اس حمام میں تمام یکساں ننگے ہیں،اب یہ بے لباس لوگ سوائے شور شرابا کرنے کے کچھ نہیں کر سکتے۔یہ اقتدار کے بھوکے لوگوں کا ٹولہ ہے،جس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔گو کہ یہ اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ ایک شہر کے معاملات کو چلا سکیں،مگر خواب اقتدار کے ایوانوں کا دیکھتے ہیں اور مزے کی بات ہے کہ یہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں ،مگر کیوں کہ ان میں ریاستی معاملات چلانے کی اہلیت نہیں ،اس لئے جن لاٹھیوں کے سہارے سے اقتدار تک پہنچتے ہیں،انہیں کی غلامی کرتے رہتے ہیں۔ملک کیسے چل رہا ہے اور کون چلا رہا ہے،انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔وہ اپنے خوابوں کی تعبیر پا چکے۔ان کی وجہ سے ملک و قوم کن حالات سے دوچار ہے،زرا احساس تک نہیں ہوتا۔

آج عوام مضمحل ،ملول اور اداس ہے،انہیں پہلے بھی معلوم تھا کہ ہم پر جس کسی نے حکمرانی کی ہے وہ چور اور کرپٹ تھے۔عمران خان نے نوجوانوں کو امید دلائی،نئی نسل بڑے جوش اور جذبے سے اٹھی ،مگر آج پونے تین سالوں میں بچے بچے کو اندازہ ہو گیا کہ یہ ماضی کے حکمرانوں سے زیادہ چور اور کرپٹ ہیں ۔یہ بھی اسی مفاد پرست ٹولے کا حصہ ہیں،جنہوں نے پاکستان کو 1950 سے آئی ایم ایف کے پاس رہن رکھا ہوا ہے ۔پاکستان آئی ایم ایف سے 2019ء تک مختلف ادوار میں 22مرتبہ قرضہ لے چکا ہے اور ہم اب تک 13مرتبہ بیل آوٹ پیکج حاصل کر چکے ہیں اور سب سے بڑا بیل آوٹ پیکج وزیر اعظم عمران خان کے دور میں حاصل کیا گیا ہے۔مالی سال 2018-19ء کے اختتام تک پاکستان کا مجموعی قرضہ اور واجبات گیارہ ارب سے بڑھ کر ایک سو 6ارب 31کروڑ تک پہنچ گیا ہے اور یہ قرضے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے ۔

ارباب اقتدار کے لئے یہ ملک نوٹ کمانے کا ذریعہ ہے،لیکن پوری نسل ہے جن کے دل اپنے وطن کے لئے ہر پل دھڑکتے ہیں ۔وہ چور چور ،ڈاکو ڈاکو کہہ کر انہیں تسلی دینے والوں کی لمبی زبانوں کو خوب سمجھ چکے ہیں ۔آئے روز حکمرانوں کی نا اہلی انہی کا مذاق اڑاتی دکھائی دیتی ہے ،مگر کیا مجال ان کے کان پر جوں تک رینگ جائے ۔کسی کرپشن کے انکشاف پر خبر گردش کرتی ہے ،لیکن لیڈر ڈھٹائی کا ثبوت دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ کچھ روز میں خبر پر گرد پڑ جائے گی اور معاملہ دب جائے گا۔انہوں نے اسی اصول کو اپنا رکھا ہے۔حکمران اپنی غلط فہمیوں کو دور کریں ،ان کی وجہ سے ملک اور قوم جس دلدل میں دھنس چکی ہے ،مزید غلطیاں نا قابل تلافی ہو سکتی ہیں ،اس لئے خدا راسینیٹ کے الیکشن کے لئے آرڈی نینس جاری کر کے جو غلطی سرزد کی جا رہی ہے،اس کا مقصد ایوان اور آئین کو بائی پاس کرنا ہے ۔جس کا نقصان آنے والی نسلوں تک کو ہو سکتا ہے ۔حکومت کو اپنے رویوں پر زرا سوچنا ہو گا․․․․!!

 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.