اس ملک کا کیا بنے گا۔۔؟

صبح ہاتھ منہ دھونے اوراٹھنے سے پہلے ہی ہم بستروں پرلیٹے لیٹے حکمرانوں کوبرابھلااورگالیاں دیناشروع کردیتے ہیں۔۔ہمارے نزدیک حکمرانوں سے بڑھ کراس مٹی پراورکوئی بلانہیں۔۔ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ حکمران کوئی دودھ کے دھلے ہوئے یاکوئی آسمانی مخلوق ہے۔۔ماناحکمران برے بہت برے ہیں لیکن نیک اوراچھے توہم بھی نہیں۔۔حکمران یہ تورعایاکیلئے ایک آئینے کی شکل رکھتے ہیں۔۔عوام نے اپنے آپ کودیکھناہوتووہ اپنے حکمرانوں کودیکھیں۔۔یہ توقانون فطرت ہے کہ جیسے عوام ہوں گے ویسے ان پرحکمران مسلط کئے جائیں گے۔۔آج حکمرانوں کوتوبرابھلاسب کہتے ہیں ۔۔گالیاں بھی سب دیتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔۔یہ جوروزہاتھ منہ دھونے سے پہلے حکمرانوں کوبرابھلااورگالیاں دینے کاکام شروع کرتے ہیں ۔۔ان لوگوں میں سے کسی ایک نے بھی کبھی ہاتھ منہ دھونے سے پہلے اپنے گریبان میں کبھی جھانکاہے۔۔؟دوسروں کی طرف توہم سب بڑی ڈھٹائی اورجلدی سے انگلی اٹھاتے ہیں لیکن کیاہم نے یہ سوچنے کی زحمت بھی کبھی گوارہ کی کہ یہ جوانگلی ہم دوسروں کی جانب اٹھارہے ہیں اس ایک انگلی سے جڑی باقی چارانگلیوں کارخ خودہمارے اپنے ہی طرف ہے۔۔ کئی سال پہلے کی بات ہے ہم ایک شادی تقریب میں شرکت کیلئے اپنے آبائی ضلع بٹگرام گئے ہوئے تھے۔۔وہاں ہماری ملاقات بٹگرام کی نامورسیاسی وسماجی شخصیت صدرالزمان خان سے ہوئی۔۔ صدرالزمان خان کابٹگرام میں ایک بڑانام ہے۔۔بغیرکسی عہدے اورمنصب کے اس شخص نے بٹگرام باالخصوص اپنے علاقے میں قیام امن اورترقی کے لئے جوکام کئے ہیں وہ خدمت خلق کے ان نام نہادعلمبرداروں کے لئے ایک مثال ہے۔خیر۔۔ملاقات کے دوران باتوں باتوں میں بات جب سیاست اورحکمرانوں تک پہنچی توہم نے بھی عام لوگوں کی طرح ہاتھ منہ دھونے سے پہلے حکمرانوں کودھوتے ہوئے انہیں نہ صرف اس ملک میں ہرگناہ کاذمہ دار قراردے دیابلکہ ساتھ یہ سوال بھی داغ دیاکہ ایسے حکمرانوں کے ہوتے ہوئے اس ملک کاکیابنے گا۔۔؟ ۔ہماری یہ بات سن کرصدرالزمان خان پہلے ہنسے پھرکہنے لگے۔جوزوی صاحب۔۔بات صرف حکمرانوں کی نہیں ۔یہاں توہرشخص فرعون بناپھرتاہے۔۔پھراس نے ایک واقعہ سنایاکہ چارپانچ سال پہلے تھانوں کی سطح پرنئے سرے سے مصالحتی کمیٹیاں بنائی جارہی تھیں۔۔میراچونکہ لوگوں سے بہت قریبی تعلق ہے اس لئے اس طرح کی کمیٹیوں پرمیری خصوصی نظرہوتی ہے۔اس دوران یہاں ایک تھانے کی جومصالحتی کمیٹی بنی۔ایک ایسا شخص اس کمیٹی کاممبربناکہ اس کے بارے میں سن کرآپ بھی کانوں کوہاتھ لگائیں گے۔آپ مجھے بتائیں جس شخص کواس کے اپنے والدنے عاق کیاہوکیاوہ کسی مصالحتی کمیٹی کاممبربننے کااہل ہوسکتاہے۔۔؟جوشخص اپنے گھرمیں مصالحت نہیں کراسکتاوہ باہرکسی کے درمیان کیامصالحت اورکیاراضی نامہ کرائے گا۔۔؟ہماری اوراس ملک کی تباہی وبربادی کاآغازاوپرسے نہیں یہاں سے ہوتاہے۔۔اپنی تباہی کی بنیادہم خودرکھتے ہیں ۔۔گالیاں پھرہم حکمرانوں کودیتے ہیں۔۔میں یہ نہیں کہتاکہ ہمارے حکمران کوئی برے نہیں ۔نوازشریف۔۔آصف علی زرداری۔۔پرویزمشرف سمیت اس ملک میں جتنے بھی حکمران آئے وہ سب برے بہت برے ہوں گے لیکن کام ہمارے بھی کوئی اچھے نہیں ۔آپ دیکھیں نا۔۔ان برے لوگوں کوسپورٹ بھی توہم کرتے ہیں۔۔جوجتنابڑاچوراورڈاکوہوتاہے اسے ہم اپنارہبرورہنماء بنادیتے ہیں۔۔ دنیاکاوہ کونساگناہ۔۔جرم اورظلم ہے جوہم نہیں کرتے۔۔؟مسلمانیت کالبادہ اوڑھ کرجھوٹ۔۔فریب۔۔دھوکہ۔چوری چکاری۔۔ڈاکہ زنی اورظلم کے بازارہم گرم کرتے ہیں۔۔پھرگالیاں ہم اوروں کودیتے ہیں۔۔جوزوی صاحب۔۔میرے سراورداڑھی کے یہ بال ان لوگوں کے درمیان سفیدہوئے۔۔میں روزانہ کئی لوگوں اورخاندانوں کے درمیان راضی نامے کرواتاہوں۔۔میں نے اس قوم اورلوگوں کوجتنے قریب سے دیکھااتناشائدکہ کسی نے دیکھاہو۔۔میں نے اس ملک میں اپنے آپ کوبڑے ولی۔۔ایمانداراورفرشتے سمجھنے اورکہنے والے لوگ توبہت دیکھے لیکن آپ یقین کریں کہ ایساکوئی شخص آج تک میں نے نہیں دیکھاجواپنے گریبان میں بھی جھانکتاہو۔۔حکمرانوں کوبرابھلاکہنے اورگالیاں دینے سے یہ ملک کبھی ٹھیک نہیں ہوگا۔اس ملک کوٹھیک کرنے کیلئے میرے اورآپ سمیت ہرایک شخص کواپنے گریبان میں جھانکناہوگا۔۔آج اپنی اورقوم کی وہی بدحالی اورملک کی وہی تباہی اوربربادی کودیکھ کرہمیں صدرالزمان خان کی کئی سال پہلے کی جانے والی وہ باتیں یادآنے لگتی ہیں۔۔ہمارے جیسے جھوٹوں۔۔مداریوں۔۔بددیانت اورمکاروں کے ہوتے ہوئے واقعی اس ملک کاکچھ نہیں بننے والا۔۔آج حکمرانوں کوتوبرابھلااورگالیاں ہم سب دیتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں کوئی ایک بھی نہیں جھانکتا۔۔جس ملک میں اکثریت کوجھوٹ کی بیماری لاحق ہو۔۔جہاں قدم قدم پرمنافقت کاکھیل کھیلاجاتاہو۔۔جہاں پاؤڈراورخالص پانی کودودھ کانام دیکرسرعام فروخت کیاجاتاہو۔۔جہاں کتابیں چوکوں اورچوراہوں پربکھری پڑی ہواورجوتے شوکیس وشیشوں میں رکھے جاتے ہوں۔۔جہاں سبزی وفروٹ کوگردووغباراورآلودگی کاتڑکالگاکرریڑھیوں پربیچاجارہاہواورسگریٹ۔۔نسوار۔۔چرس وشراب کواعلیٰ کوالٹی کی شاپنگ بیگ اورڈبوں میں پیک کرکے سیل کیاجاتاہو۔۔جہاں چوروں اورڈاکوؤں کوعہدے دے کروزیر۔۔مشیروافسراورایمانداروں کوہتھکڑیاں لگاکرسلاخوں کے پیچھے دھکیلاجاتاہو۔۔جہاں ایک رویپہ کی چوری پرغریب مرغااورامیرڈان بنتاہو۔۔جہاں غریب کابچہ روٹی کے ایک ایک نوالے کوترستااورامیرشہرکے کتے ۔۔بلیاں۔۔گھوڑے اورگدھے تک راج کرتے ہوں۔۔جہاں مسجدکاامام۔۔خطیب۔۔قاری ۔۔مولانااورمفتی سے زیادہ ایک زانی اورشرابی کی عزت وتکریم کی جاتی ہو۔۔جہاں انسانیت سے زیادہ مال۔۔دولت۔۔عزت وشہرت کااحترام کیاجاتاہو۔۔جہاں انصاف ملتانہیں بکتاہو۔۔جہاں صحت وتعلیم کوکاروبارکادرجہ حاصل ہو۔۔جہاں ڈاکٹرقصائی اورقصائی ڈاکٹروں والے کام کرتے ہوں۔۔ جہاں ہرشخص جھوٹ کوسچائی کے پلیٹ میں رکھ کرپیش کرتاہو۔۔جہاں نماز۔۔روزہ ۔۔حج وعمرہ کرنے میں شرم اورشراب وکباب کی محفلیں سجانے پرفخرمحسوس کیاجاتاہو۔۔جہاں زکوٰۃ دینے کی بجائے غریبوں۔۔مظلوموں۔۔بے سہارااوریتیموں کے مال کو کھاناثواب سمجھاجاتاہو۔۔جہاں دوسروں کوحقیرفقیراورخودکوخان۔۔نواب اورچوہدری تصورکیاجاتاہو۔۔جہاں مظلوم کے مقابلے میں ظالم کاساتھ دینے کوانصاف گرداناجاتاہو۔۔جہاں بھائی بھائی کے خون کاپیاساہو۔۔جہاں ماں باپ اوربہن بھائی کے رشتے سے زیادہ دولت وپیسے کوسلام کیاجاتاہو۔۔جہاں نوجوان نسل کے ایک ہاتھ میں موبائل اوردوسرے ہاتھ میں سگریٹ ہو۔۔جہاں گوشت اوردودھ کی رکھوالی پرانسانی بلے اوربلیاں مامورہوں۔۔جہاں جہلاء کوعالم۔۔مفسر۔۔مبلغ۔۔سکالراوردانشورکے نام والقابات اورعلماء کوجہالت کے طغنے دیئے جاتے ہوں۔۔جہاں دوسروں پرسنگ باری۔۔بہتان تراشی اورطغنہ زنی توسب کرتے ہوں لیکن اپنے گریبان میں کوئی نہیں جھانکتاہو۔۔سوچتاہوں۔۔ہمارے ہوتے ہوئے اس ملک کاواقعی کچھ بننے والانہیں۔۔وزیراعظم عمران خان کیا۔۔؟مولاناطارق جمیل۔۔مفتی تقی عثمانی اورمفتی منیب الرحمن ہی اس ملک کے حکمران کیوں نہ بنیں ۔۔جب تک یہ بیماریاں اورخصلتیں ہم میں ہیں ۔۔اس وقت تک اس ملک اوراس میں رہنے والوں کاکچھ بھی نہیں بنے گا۔۔اس ملک کاتوتب ہی کچھ بنے گاجب ہم خودکچھ بنیں گے فی الحال توہم سب خودہی جھوٹ۔۔فریب۔۔دھوکہ۔۔ظلم وستم اورمنافقت کے سواکچھ نہیں۔ایسے میں یہ ملک کیابن پائے گا۔۔؟
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 210 Articles with 132333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.