خالد ایوب کا شمار ہمارے ان دوستوں میں سے ہوتا ہے
جس کو اﷲ تعالیٰ نے مختلف النوع صفات اور خوبیوں سے نواز ا ہے۔وہ فلسفیانہ
خیالات کے مالک ہیں، مذہب سے لگاؤ اور اسلامی تاریخ پر بھی عبور رکھتے ہیں
اور اپنے وطن سے جنونی حد تک محبت کرنے والے ،کھرے اور سچے انسان ہیں ۔ کسی
سیاسی پارٹی میں شامل نہیں ،مگر سماجی خدمات کے جذبہ سے معمور اور خدمتِ
خلق میں سکون پانے والے اس شخص نے ’’کاروان ‘‘ نام سے ایک غیر سیاسی تنظیم
بنا رکھی ہے ، اس فورم سے وہ متعدد قومی خدمات سر انجام دے چکے ہیں ۔ باایں
وجہ راقم الحروف جیسے لوگ ان سے صرف تعلق ہی نہیں رکھتے بلکہ محبت بھی کرتے
ہیں ۔ نتیجتا جب وہ آواز دیتے ہیں تو ان کے ہاں ہماری حاضری واجب ہو جاتی
ہے ۔
گزشتہ روز انہوں نے پیغام بھیجا کہ میرے غریب خانہ پر جنرل حمید گل (مرحوم
) کا بیٹا محمدعبداﷲ گل تشریف لا رہے ہیں ،اگر آپ اور جسٹس (ر) شاہ جی رحمن
بھی آجائیں تو رونقِ محفل میں اضافہ ہو گا ۔ ہم نے حکم کی تعمیل کی ،کیونکہ
اپنے کسی دوست کے خواہش کی تکمیل کو ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔لہذا حسبِ
پروگرام ہم ان کے دولت خانہ پر پہنچ گئے ۔کچھ انتظار کی آزمائشی گھڑیاں
گزارنے کے بعد ، شام کوئی سات بجے کے لگ بھگ فرزندِ جنرل حمید گل تشریف لے
آئے۔ ما شا اﷲ صرف جسمانی طور پر ہی جوان نہیں تھے بلکہ ذہنی اور ہمت و
حوصلہ کے بھی جوان تھے ۔ وہ ’’تحریکِ پاکستان و کشمیر ‘‘ کے چئیرمین ہیں
اور وطنِ عزیز میں انقلاب لانے کے داعی بھی ہیں ۔بوجوہ ہم بھی ان کی باتیں
سننے اور انکی ایجنڈے کی تکمیل سے متعلق منصوبہ بندی سے باخبر ہونے کے لئے
گوش گزاری کے لئے ہمہ تن گوش تھے ۔ انہوں نے اپنے کلام کی ابتداء بااندازِ
تلمیذانہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان کی بنیاد ’’ لا الہ الا اﷲ ‘‘پر رکھی
گئی تھی مگر اس کی تکمیل لا الہ الا ﷲ کے ساتھ محمد رسول اﷲ لگانے سے ہی ہو
گی ۔ جمہوریت مغربی طرزِ حکمرانی ہے جو ہمارے ملک کے لئے بالکل مناسب نہیں
، اگر مغربی طرزِ حکمرانی یعنی جمہوریت ہی قائم کرنی تھی تو پھر برِ صغیر
میں میں انگریزوں کی حکمرانی ہی اچھی تھی ۔ الگ وطن بنانے کی ضرورت ہی نہیں
تھی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا راز مکمل اسلامی
نظام میں پو شیدہ ہے ہمارے لئے کسی قانون، کسی ضابطے یا کسی آئین بناے کی
اس لئے ضرورت نہیں کہ قرآن مجید میں ایک مکمل ضابطہ حیات موجود ہے ہمارا
آئین،ہمارا قانون قرآن اور حدیث ہیں ۔ ہم نے انگریزوں کے پروردہ خاندانوں
سے نجات حاصل کرنی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے عوام کو اپنے
کردار اور سچ کی بناء پر یہ یقین دلانا ہے کہ ہم جو کہہ رہے ہیں ، وہ دل سے
اور خلوصِ نیت سے کہ رہے ہیں ،ہم جو آج کہہ رہے ہیں ،اس پر کل کو مکمل طور
پر عمل درآمد کے پابند رہیں گے ۔ عبد اﷲ گل نے مزید کہا کہ اگر مجھے صرف
اقتدار کی بھوک ہو تی تو میں موجودہ حکومت کی وزارت کی پیشکش قبول کر لیتا
۔ یا میں وراثت میں پائی گئی دولت سے عیاشی کی زندگی گزارتا مگر میں چاہتا
ہوں کہ میرے والد مرحوم جنرل حمید گل نے وطن سے وفاداری کا جو حلف اٹھا یا
تھا میں اس کی پاسداری کروں اوراس کے روح سے وفاداری کا ثبوت دوں ۔ یہی وجہ
ہے کہ آج میں یہاں آیا ہوں یا پاکستان کے کونے کونے میں گھوم کر عوام کو
بیدار کرنے اور ان کے گردن سے غلامی کی زنجیر ہٹانے کی تگ و دو میں مصروف
ہوں ۔ انہوں نے افغانستان سے متعلق گفتگو کرتے ہو ئے پیش گوئی کی کہ
افغانستان میں بہت جلد طالبان کی حکومت قائم ہو نے والی ہے ۔ امریکہ شکست
کھا چکا ہے اور اسے نکلنے کی فکر ہے ۔
انہوں نے ذرہ دبے لفظوں میں موجودہ حکومت پر بھی تنقید کی اور اس حکومت کو
گھسے پٹھے چند افراد کا ملغوبہ قرار دیا اور مستقبل میں پاکستان کے لئے
باعثِ شرمندگی اور نقصان کا باعث بننے کا اندیشہ ظاہر کیا ۔ انہوں نے یہ
بھی کہا کہ موجودہ وزیرا عظم عمران خان پر ہر کام میں اسٹیبلشمنٹ کا دباوء
نہیں ہے لیکن ان میں اپنی قابلیت و استعداد نہیں ہے کہ وہ حکومت کو بطورِ
طریقہء احسن چلا سکے۔ ‘‘
قصہ مختصر ! ایک جنرل کے بیٹے کے ساتھ یہ نشست اچھی خاصی دلچسپ رہی اور
معلومات میں اضافے کا باعث بنی ۔ ہمارے میزبان دوست نے ان کے چلے جانے کے
بعد پر سیر حاصل گفتگو بھی کی اور عبداﷲ گل کے خیالات کو سراہا ۔ البتہ میں
یہ آرزو لے کر گھر چلتا بنا کہ کہ کاش میرے زندگی میں ہی کوئی ایسی کرشماتی
شخصیت وطنِ عزیز میں پیدا ہو جائے جو پاکستان میں موجود سرمایہ دارنہ اور
دو طبقاتی نظام کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جائے اور قائد اعظم محمد علی
جناح کا وہ خواب عملی شکل اختیار کر لے جو انہوں نے پاکستان بننے کے وقت
دیکھا تھا ۔
|