مینوں نوٹ وِکھا، میرا موڈ بنے

اس ملک کو اگر ہم نے درست سمت کی طرف گامزن کرنا ہے تو ہمیں بطور پاکستانی اس راگ کو مسترد کرنا ہوگا. کیونکہ ہمارے نظام میں اتنی سکت نہیں کہ وہ مزید نوٹ دکھا سکے. لہٰذا اگر اب بھی اس قسم کے مزاج یعنی "مینوں نوٹ وِکھا میرا موڈ بنے" کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو یہ گانا ہمارے تباہ شدہ نظام کو مزید تباہ کردے گا.

پاکستان کے نظام میں ایندھن کا کام دینے والا یہ فلمی گانا "مینوں نوٹ وِکھا، میرا موڈ بنے" ہمیشہ سے ملکی سیاست اور ملک کے بیشتر امور میں مداخلت کرتا پایا گیا ہے. در اصل وطن عزیز پاکستان میں جب سے اس فلمی گانے کا راگ الاپنا شروع ہوا تھا . یقیناً اس ہی وقت سے اس ملک میں غریبوں اور ایمانداری کا استحصال شروع ہوگیا تھا. جہاں تک بات رہی اس فلمی گانے کی تو اس گانے نے فلمی دنیا سے باہر بہت نام کمایا ہے. ہر کرپٹ آفیسر ناجائز تو دور جائز کام کرنے کے لئے بھی یہی راگ الاپتا ہے.

یہاں تک کہ ہمارے ملک کی سیاست میں بھی یہی راگ الاپا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست پر ہمیشہ سے زمین دار اور صنعت کار ہی اثر انداز رہے ہیں. شاذ و نادر ہی عام آدمی اس ملک کی سیاست میں داخل ہوا ہے. یقیناً جو داخل ہوئے بھی ہیں وہ بھی زیادہ دیر اس راگ کے سحر سے محفوظ نہیں رہ سکے. کیونکہ بالآخر انھیں بھی مزید طاقت حاصل کرنے کے لئے نوٹ دکھانے کی ضرورت محسوس ہوئی . لہٰذا ہماری سیاست پر اس گانے کی گہری چھاپ موجود ہے.

اصل میں یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کے نتیجے میں ہمیشہ سے جاگیردار اور صنعت کار ہم پر حکومت کرتے آئے ہیں. یہ لوگ ہمیشہ سے پیسے لگا کر سیاست میں آتے ہیں اور پھر ان پیسوں کی دوگنا وصولی کے لئے کرپشن کرتے ہیں. یعنی یہ ایک مدار بناتے ہیں جس کے گرد سب کرپٹ اور پیسوں سے آئے ہوئے لوگ گھومتے ہیں. اس مدار میں گردش کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس نے جتنے لگائے ہوتے ہیں وہ اس سے کئی گنا زیادہ حاصل کر لیتے ہیں. لہٰذا یہی مدار سینٹ الیکشن میں بھی بنایا گیا ہے. جہاں پر ایک ایک صوبائی ممبر کی بولی لگتی ہے. یہ وہ موقع ہوتا ہے جب در حقیقت نوٹ دکھا کر کسی بھی ووٹ کو با آسانی حاصل کیا جاتا ہے. اس کھیل کو انگریزی زبان میں ہارس ٹریڈنگ کا نام دیا گیا ہے. لیکن ہمارے ملک میں اس کی تعریف یوں ہی کی جاتی ہے کہ مینوں نوٹ وِکھا میرا موڈ بنے.

یہی وجہ ہے کہ سینٹ کے انتخابات ہمیشہ سے حیرت انگیز طور پر نتائج سامنے لاتے ہیں. کیونکہ یہاں پارٹی اکثریت سے زیادہ پیسوں کی کثرت آپ کی جیت کی ضامن ہے. یہی وجہ ہے کہ چودھری سرور کو سینیٹر بنانے کے لئے عظمیٰ بخاری جو کہ ن لیگ سے تعلق رکھتی ہیں انھوں نے ووٹ ڈالا. خیر یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے. لیکن پہلی بار اگر کسی نے اس کے خلاف ایکشن لیا تھا وہ جماعت تھی تحریک انصاف، اس جماعت نے اپنے ان تمام ممبران اسمبلیوں کی رکنیت معطل کردی تھی جو اس کھیل میں پکڑے گئے تھے. لیکن باقی جماعتوں نے اس پر خاموشی اختیار کر لی تھی. گویا کہ یہ ان کے نزدیک کوئی بڑا معاملہ نہ ہو.

حالیہ دنوں میں سینٹ انتخابات کے لئے ممبر صوبائی اسمبلیوں کی خرید و فروخت کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے یا پھر لائی گئی ہے. معذرت کے ساتھ اس ویڈیو میں سیاسی طوائفیں اپنے ریٹ لگواتے نظر آتے ہیں. خیر اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایک ایک ووٹ کے لئے تگ و دو کی جاتی ہے. بعض ممبران نے تو معلوم ہوتا ہے کہ اتنے نوٹ زندگی میں پہلی بار اکھٹے دیکھے ہوں گے. در اصل یہ ویڈیو ہمارے ملک کی ایوان بالا یعنی سینٹ میں داخل ہونے کا چور راستہ بھی فراہم کرتی ہے. اس ویڈیو کے کچھ کردار تو ﷲ کی پناہ اتنے بے حس تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کو معصوم دکھانے کے لئے قرآن مجید تک اُٹھانے سے گریز نہ کیا. خیر یہ ان کا ایمان اور ان کا معاملہ ہے. ہم تو بس اس فلمی گانے کا جوڑ اپنی سیاست سے جوڑ رہے ہیں. جہاں پارلیمنٹ سے لیکر سینٹ تک ہر جگہ اکثریت حاصل کرنے کے لئے اسی گانے کو چلایا جاتا ہے. جو بھی زیادہ نوٹ دکھاتا ہے اس کا اتنا ہی ووٹ بن جاتا ہے.

اس ویڈیو کو سینٹ انتخابات سے محض چند دن قبل اس لئے بھی دکھایا گیا ہے کہ اس کھیل میں حصہ لینے والوں کو خبر ہوجائے کہ اب ان کا یہ کھیل محفوظ نہیں ہے بلکہ اب اس کے تمام پیادے دکھائی دے گئے ہیں. اس ویڈیو کو منظر عام پر لانے والوں نے حالیہ انتخابات میں لگنے والی قیمت بھی وزیر اعظم کے منہ سے اگلوا دی ہے. بقول عمران خان کے اس دفعہ یہ ریٹ 70 کروڑ تک پہنچ چکا ہے.

اصل میں سینٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری سے کروانے کا یہی فائدہ ہوتا ہے. آپ کسی کا بھی ووٹ توڑ سکتے ہو. یہی کچھ پچھلے الیکشن میں دیکھا گیا جب صادق سنجرانی کم اکثریت ہونے کے باوجود بھی چیرمین کا الیکشن جیت گئے تھے. اس وقت تمام مخالف پارٹیوں نے شور تو مچایا، لیکن اس کے خلاف اقدام کسی نے نہیں کیا. یہ اقدام شائد اس وجہ سے بھی نہ کیا گیا کہ اس طریقے سے غریب ممبران اسمبلیوں کی حرام کی کمائی رک جانی تھی. لہٰذا کاروبار کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے.

خیر اب ایک عجیب اور مختلف سوچ کے حامل حکمران نے جب اس طریقہ کار کو بدلنے کی بات کی ہے تو اب بھی وہی مخالف مخالفت پر اتر آئے ہیں. جب کہ اس میں ان کو بھی فائدہ ہوگا. حکومت نے سینٹ الیکشن خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کی تجویز دی ہے. جس پر اپوزیشن جس کا کام ہوتا ہی مخالفت کرنا ہے وہ ہمیشہ کی طرح اس اچھے اقدام کی بھی مخالفت ہی کر رہی ہے. خیر عمران خان بھی بضد ہیں انھوں نے سپریم کورٹ میں اس طریقہ کار کو رائج کرنے کی درخواست دے دی ہے. یہی نہیں بلکہ صدارتی ریفرنس بھی جاری کروا دیا ہے. بلاشبہ اگر عدالت عظمیٰ اس درخواست کو مسترد نہ کرے تو صدارتی ریفرنس پر عمل درآمد ہوجائے گا اور یوں یہ انتخابات خفیہ رائے شماری سے نہیں بلکہ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں گے.

اس ملک کو اگر ہم نے درست سمت کی طرف گامزن کرنا ہے تو ہمیں بطور پاکستانی اس راگ کو مسترد کرنا ہوگا. کیونکہ ہمارے نظام میں اتنی سکت نہیں کہ وہ مزید نوٹ دکھا سکے. لہٰذا اگر اب بھی اس قسم کے مزاج یعنی "مینوں نوٹ وِکھا میرا موڈ بنے" کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو یہ گانا ہمارے تباہ شدہ نظام کو مزید تباہ کردے گا.

Muhammad Humayun Shahid
About the Author: Muhammad Humayun Shahid Read More Articles by Muhammad Humayun Shahid: 34 Articles with 31524 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.