|
|
عوام میں ترکی ڈرامے دیکھنے کا بڑھتا رجحان ہمیں یہ سوچنے پر مجبور
کررہا ہے کہ آخر ایک زمانے تک عوام میں مقبول پاکستانی ڈرامے اب دن بدن
لوگوں کے دل سے کیوں اترتے جارہے ہیں؟ پاکستانی اداکار کہتے ہیں کہ
دوسرے ممالک کے ڈرامے پاکستان میں نہ دکھائے جائیں تاکہ لوگ پاکستانی
ڈرامے دیکھیں لیکن کیا کیا جائے جب عوام ہی پاکستانی ڈراموں کے بجائے
ترکی کے ڈراموں کو پسند کرنے لگیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یکسانیت سے بھرے
اور صرف شادی بیاہ کے موضوعات دیکھ دیکھ کر ہماری عوام اب تنگ آچکی ہے
۔ ہم آج بات کریں گے اب عوامل پر جن کی وجہ سے لوگ پاکستانی ڈرامہ
انڈسٹری کے معیار سے مطمئن نہیں رہے۔ |
|
حد سے تجاوز کرتے موضوعات |
آج کل کچھ ایسے موضوعات پر ڈرامے بنائے جارہے ہیں جنہیں لوگ اپنے خاندان
والوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ غیر اخلاقی موضوعات پر مبنی ڈراموں
کی نہ ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ ہے اور نہ ہی لوگ یہ دیکھنا پسند کرتے ہیں
اس کے باوجود ہر دوسرے ڈرامے میں اسی طرح کے مسائل دکھائے جاتے ہیں جن کی
وجہ سے دیکھنے والے ان کو رد کردیتے ہیں ۔ ڈرامہ سیریل “جلن“، “عشقیا“ اس
سلسلے میں بڑی مثالیں ہیں۔ |
|
تخلیقی موضوعات کا خاتمہ |
دو دہائی پیچھے جائیں تو پاکستانی ڈراموں میں تخلیق کا انفرادی رنگ نظر آتا
تھا۔ انکل سرگم اور عینک والا جن جیسے پروگرام اور ڈرامے بنائے جاتے تھے جو
بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں میں بھی خوب پسند کئیے جاتے تھے لیکن اب شاید ہی
کوئی ایسا ڈرامہ نظر سے گزرے جو روایتی موضوعات سے ہٹ کر ہو۔ یہاں تک کے
ہارر یا مزاحیہ ڈرامے بھی بہت کم تعداد میں بنتے ہیں اور جو بنتے ہیں ان کا
معیار بھی کافی سطحی ہوتا ہے۔ |
|
غیر ضروری چمک دمک |
اگرچہ ابھی بھی پاکستانی ڈراموں میں بھارتی ڈراموں کی نسبت گلیمر دکھانے کا
رجحان کافی کم ہے، لیکن پہلے کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے۔ خاص طور پر خواتین
کرداروں کے حوالے سے بات کریں تو غریب گھر کی لڑکی بھی مہنگا لباس زیب تن
کئے دکھائی دیتی ہے جو دیکھنے والوں کو حقیقت سے دور کر دیتا ہے۔ |
|
|
|
تاریخی موضوعات کو
اہمیت نہیں دی جاتی |
ترکی میں بننے والا ڈرامہ ارطغرل غازی پاکستان میں
اتنا پسند کیا گیا ہے کہ اس ڈرامے کے اداکار پاکستانی چیزوں کے سفیر مقرر
کر دیے گئے ہیں۔ ارطغرل غازی ایک مسلمان تاریخی ہیرو ہے۔ ہم پاکستان کی طرف
دیکھیں تو یہاں کی مٹی میں بھی تاریخی ہیروز کی کمی نہیں لیکن ڈرامہ بنانے
والے ان موضوعات کو اہمیت دینے پر تیار نظر نہیں آتے۔ |
|
شادی بیاہ کی بہتات |
آپ خود کوئی بھی پاکستانی ڈرامہ لگا کر دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ڈرامے میں کم
سے کم دو بار کسی نہ کسی کی شادی ضرور دکھائی جائے گی۔ جس میں رنگ برنگے
کپڑے دکھا کر خواتین کی توجہ حاصل کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے لیکن
سنجیدہ قارئین کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خواتین بھی ایک ہی
موضوع کو بار بار دیکھ کر تنگ آچکی ہیں۔ |
|
غیر حقیقی مسائل |
اگر کسی ڈرامے میں کسی معاشرتی مسئلے پر بات کی جاتی ہے تو وہ عام طور پر
طلاق ہی ہوتا ہے۔ ڈرامے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر گھر کا مسئلہ
طلاق اور عورتوں کی غیر شادی شدہ زندگی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ پاکستانی
معاشرہ آج بھی طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل سے کوسوں دور ہے۔ |
|
|
|
عورتوں کا منفی کردار |
گھریلو سطح پر بننے والے ڈراموں میں زیادہ تر خواتین کا منفی روپ دکھایا
جاتا ہے جیسے ساس، نند، بھابھی جیسے رشتوں کو ہر دوسرے ڈرامے میں ایک برے
کردار کے طور پر اجاگر کیا جاتا ہے جس سے معاشرے میں ان رشتوں کے خلاف
باقائدہ طور پر منفی تاثر ہی پایا جانے لگا ہے۔ |
|
حب الوطنی کے حوالے سے ڈرامے نہیں بنائے
جاتے |
الفا براوو چارلی، دھواں جیسے حب الوطنی کے موضوع پر بننے والے شاندار
ڈرامے اب تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں ۔ عوام کے بہت زیادہ پسند کرنے کے باوجود
حب الوطنی پر بننے والے ڈراموں کی تعداد بہت کم ہے۔ |
|
یہ وہ چند باتیں ہیں جن کی وجہ سے گو کہ آج کل عوام پاکستانی ڈراموں کے
معیار سے مطمئن نہیں رہے البتہ کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو پاکستانی ڈراموں
کو منفرد بناتی ہیں جیسے ایک ہر ڈرامہ آخر میں ایک واضح اور مثبت پیغام
دیتا ہے، رشتوں کو اہمیت اور عزت دی جاتی ہے خاص طور پر والدین کو اس کے
علاوہ دیگر ممالک کے مقابلے میں غیر اخلاقی مناظر نہیں دکھائے جاتے۔ اس لئے
چینلز اور ڈرامہ رائیٹرز اگر تھوڑی سی توجہ ڈراموں کے موضوع بہتر کرنے پر
دے دیں تو پاکستانی ڈراموں کا معیار بہتر کیا جاسکتا ہے۔ |