قرآن و سنت اور آئین ِپاکستان کی رُو سے ایم این اے ایاز امیر کی نااہلیت

کاشف عمران شاہ ہاشمی

ایاز امیر ایک معروف کالم نگار اور قومی اسمبلی کے رکن ہیں ،ماضی قریب میں بھی موصوف کے زُبان و قلم کا کچھ ایسا استعمال کیا کہ جس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے غیور مسلم عوام کے جذبات مجروح ہوئے ۔اب دوبارہ ایاز امیر نے قلم کے ذریعے جن خیالات کا اظہار کیا وہ ایک اردو کالم بعنوان ” مے کشی ....کیا پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے “روزنامہ جناح راولپنڈی/اسلام آباد، مورخہ10جون2011کوشائع ہوا۔ اس کالم چند اقتباسات درج ذیل ہیں۔

” کون نہیں جانتا کہ مے سازی ایک زیر زمین فروغ پاتی صنعت ہے اور اس کو قانون کے لمبے ہاتھوں کا کوئی خوف نہیں ہے بلکہ چشم پوشی کی سہولت بھی میسر ہے ۔ اس سارے معاملے میں اگر کوئی خسارے میں ہے تو وہ ریاست یا صارفین ہیں ۔ اول الذکر اربوں کے ٹیکس سے محروم اور ثانی الذکر مہنگی خریدنے پر مجبور اور اکثر اوقات غیر معیاری ہونے کی صورت میں صحت کے لیے مضر، بلکہ جان لیوا۔“

”اس صورت حال پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے ۔ یہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے ۔کوئی بھی احمقانہ قانون بنالیں تو یہ جرائم کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کر دے گا۔“

”شاید مے کشی اور قہقہہ لگانا انسانی جذبات کے نہاں خانوں میں پوشیدہ ایک خواہش ہے ۔ انسان چاہے لمحاتی طور پر ہی کیوں نہ سہی ، روایتی قواعد اور اخلاقیات کی قید و بند سے آزادی چاہتا ہے ۔اس مدہوشی کے زیر اثر انسانی روح میں خوابیدہ شاعرانہ تخیل بیدار ہوتا ہے جو اس کائنات کے مقابلے میں ہماری تنہائی اور کم مائیگی کے احساس کو کچھ کم کر دیتا ہے ۔“

مذکورہ بالااقتباسات سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایم این اے موصوف کس طرح کی سوچ کے مالک ہیں اور جس بے باکی کے ساتھ وہ اپنے موقف کو سب کے سامنے پیش کر رہے ہیں اس کا تجزیہ کرنے کے لیے ہم قرآن و حدیث اور آئین پاکستان کی روشنی میں جاننے کی کوشش کریں گے کہ ایسے نظریات و خیالات کا دانستہ اظہار کرنے والا شخص اپنے منصب پر رہنے کا اہل ہے یا نہیں۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے شراب کے بارے میں فرمایا
”یٰٓاَ یُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوٓا اِنَّمَاالخَمرُ وَ المَیسِرُ وَ الاَنصَابُ وَالاَزلَامُ رِجس مِّن عَمَلِ الشَّیطٰنِ فَاجتَنِبُوہُ لَعَّلَکُم تُفلِحُونَ(المائدہ ۰۹)
ترجمہ : اے لوگوں! جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے ، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ، ان سے پر ہیز کرو ، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی۔

تفسیر:اِس آیت میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں۔ ایک شراب۔ دوسرے قمار بازی۔ تیسرے وہ مقامات جو خدا کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنے یا خدا کے سوا کسی اَور کے نام پر قربانی اور نذر و نیاز چڑھانے کے لیے مخصوص کیے گئے ہوں۔ چوتھے پانسے۔ مو خّر الذکر تینوں چیزوں کی ضروری تشریح پہلے کی جا چکی ہے۔ شراب کے متعلق احکام کی تفصیل حسب ذیل ہے:

شراب کی حُرمت کے سلسلہ میں اس سے پہلے دو حکم آچکے تھے ، جو سُورةا بقرہ آیت 219 اور سُورةالنساءآیت 43 میں گزر چکے ہیں۔ اب اس آخری حکم کے آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبّہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے ، بعید نہیں کہ اس کی قطعی حرمت کا حکم آجائے ، لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کر دیں۔ اس کے کچھ مدت بعد یہ آیت نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے اعلان کر ایا کہ اب جن کے پاس شراب ہو وہ نہ اسے پی سکتے ہیں ، نہ بیچ سکتے ہیں، بلکہ وہ اسے ضائع کر دیں۔ چنانچہ اسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہادی گئی۔ بعض لوگوں نے پوچھا ہم یہودیوں کو تحفةً کیوں نہ دے دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” جس نے یہ چیز حرام کی ہے اس نے اِسے تحفةً دینے سے بھی منع کر دیا ہے“۔ بعض لوگوں نے پوچھا ہم شراب کو سِرکے میں کیوں نہ تبدیل کر دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا اور حکم دیا کہ” نہیں، اسے بہا دو“۔ ایک صاحب نے باصرار دریافت کیا کہ دواء کے طور پر استعمال کی تو اجازت ہے؟ فرمایا” نہیں ، وہ دوا نہیں ہے بلکہ بیماری ہے“۔ ایک اَور صاحب نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم ایک ایسے علاقے کے رہنے والے ہیں جو نہایت سرد ہے، اور ہمیں محنت بھی بہت کرنی پڑتی ہے۔ ہم لوگ شراب سے تکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا جو چیز تم پیتے ہو وہ نشہ کرتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا ہاں۔ فرمایا تو اس سے پرہیز کرو۔ انہوں نے عرض کیا مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں مانیں گے۔ فرمایا” اگر وہ نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو“۔

ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لعَن اللہ الخمر و شاربھا و ساقیھا و بائعھا و مبتا عھا و عاصر ھا و معتصر ھا و حاملھا و المحمول الیہ۔” اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھوکر لے جانے والے پر اور اس شخص پر جس کے لیے وہ ڈھو کر لے جائی گئی ہو“۔

ایک اَور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس دستر خوان پر کھانا کھانے سے منع فرمایا جس پر شراب پی جا رہی ہو۔ ابتداءً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن برتنوں کے استعمال کو منع فرما دیا تھا جس میں شراب بنائی اور پی جاتی تھی۔ بعد میں جب شراب کی حُرمت کا حکم پُوری طرح نافذ ہو گیا تب آپ نے برتنوں پر سے یہ قید اُٹھا دی۔

خمر کا لفظ عرب میں انگوری شراب کے لیے استعمال ہوتا تھا اور مجاز اً گیہوں ، جَو ، کِشمِش،کھجُور اور شہد کی شرابوں کے لیے بھی یہ الفاظ بولتے تھے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حُرمت کے اس حکم کو تمام اُن چیزوں پر عام قرار دیا جو نشہ پیدا کرنے والی ہیں۔ چنانچہ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ واضح ارشادات ہمیں ملتے ہیں کہ کل مسکر خمر و کل مسکر حرام۔” ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہرنشہ آور چیز حرام ہے“۔کل شراب ٍ اسکر فھو حرام۔” ہر وہ مشروب جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے“۔وانا انھی عن کل مسکرٍ۔”اور میں ہر نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں“۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے خطبہ میں شراب کی یہ تعریف بیان کی تھی کہ الخمر ما خامر العقل۔”خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانک لے“۔

نیز نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اصول بیان فرمایا کہ ما اسکر کثیرہ فقلیلہ حرام۔” جس چیز کی کثیر مقدار نشہ پیدا کر ے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے“۔ اور ما اسکر الفرق منہ مفلءالکف منہ حرام۔” جس چیز کا ایک پورا قرابہ نشہ پیدا کرتا ہو اس کا ایک چُلّو پینا بھی حرام ہے“۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں شراب پینے والے کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہ تھی۔ جو شخص اِس جرم میں گرفتار ہو کر آتا تھا اسے جوتے ، لات، مکّے، بل دی ہوئی چادروں کے سونٹے اور کھجور کے سَنٹے مارے جاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ40ضربیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس جرم پر لگائی گئی ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں 40 کوڑے مارے جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی ابتداءً 40کوڑوں ہی کی سزا رہی۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آتے تو اُنہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورے سے 80 کوڑے سزا مقرر کی۔ اسی سزا کو امام مالک رحمة اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ ، اور ایک روایت کے بموجب امام شافعی رحمة اللہ علیہ بھی، شراب کی حد قرار دیتے ہیں۔ مگر امام احمد ابن حنبل رحمة اللہ علیہ اور ایک دوسری روایت کے مطابق امام شافعی رحمة اللہ علیہ40 کوڑوں کے قائل ہیں، اور حضرت علی رضی ا للہ علیہ نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے۔

شریعت کی رُو سے یہ بات حکومتِ اسلامی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ شراب کی بندش کے اس حکم کو بزور و قوت نافذ کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بنی ثَقِیف کے ایک شخص رُوَیشِد نامی کی دوکان اس بنا پر جلوا دی گئی کہ وہ خفیہ طور پر شراب بیچتا تھا۔ ایک دوسرے موقع پر ایک پورا گاؤں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے اِس قصور پر جلا ڈالا گیا کہ وہاں خفیہ طریقہ سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا۔(تفہیم القران )“

آئین پاکستان کی شق 62میں قومی اسمبلی کے رکن کی نا اہلیت درج ہے
”62:کوئی شخص مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ ) کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہو گا اگر
(د)وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو
(ر)وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابندنیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو“

کیوں کہ ایاز امیر نے اپنے کالم میں شراب کی تعریف کی اور اس پر پابندی کے قانون کے لیے”احمقانہ قانون“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو کہ اسلام کی تضحیک و توہین ہے اس طرح وہ اپنے حلقہ انتخاب کے ووٹروں کی ترجمانی بھی کھو چکے ہیں چونکہ انہیں رائے دہندگان نے بحیثیت مسلم نمائندہ کے ووٹ دیئے تھے لیکن وہ اپنے نئے موقف کی بدولت اسلام اور آئین پاکستان کی رو سے اپنے منصب پر براجمان رہنے کی اہلیت سے محروم ہو چکے ہیں لہٰذا الیکشن کمیشن ان کی رکنیت منسوخ کرے ۔
Mumtaz Haider
About the Author: Mumtaz Haider Read More Articles by Mumtaz Haider: 88 Articles with 70637 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.