وہ اپنی ذات میں مجاہد۔ ۔ ۔


آپ اس پارک میں پانی دینے کیلئے کس وقت آتے ہیں؟ صبح سوا سات بجے یہاں پہنچ جاتا ہوں ۔ کہاں سے آتے ہیں اور پھر کب تک پانی دینے کا یہ سلسلہ جاری رہتاہے؟ مرشد ہسپتال کا نام سنا ہے ، اس سے آگے کی جانب میری رہائش ہے اور یہاں اس پارک میں طویل عرصے سے پانی دینے کی ذمہ داری ادا کررہاہوں۔ میری ملازمت اب اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے ، آج تلک اپنی ذمہ داری احسن انداز میں نبھائی ہے ۔ اسی مالی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ روز اپنے بچے کو اسکول چھوڑنے یہاں آتے ہو اور آج تک آپ نے مجھ سے کبھی اتنے سولات نہیں کئے تھے جو آج کئے ، ایسا کیوں ، کیا وجہ تھی؟ اپنے سوال کو پورا کرتے ہوئے بزرگ مالی بابا مسکرانے لگے اور گھاس کو جو پانی دے رہے تھے اس عمل کو جاری رکھتے ہوئے کچھ آگے کی جانب بڑھے۔

شہر قائد میں واقع واٹر پمپ کے قریب امراض قلب کا ہسپتال ہے اور اسی ہسپتال کے سامنے اک خوبصورت پارک ہے جس میں بچوں کے اسکول سے ملحق اک وسیع مسجد رضوان قائم ہے۔اسی اسکول میں راقم کابیٹا زیرتعلیم ہے اور رہائش گاہ سے زیادہ فاصلے کے باعث اسکول لانے اور لیجانے کی ذمہ داری بھی راقم کی ہے۔ وبائی مرض کورانا کی باعث جہاں ہر شعبہ زندگی متاثر ہوا ہے وہیں پر درسگاہیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ صبح کے اوقات میں قدرے فراغت کے باعث اسکول و مسجد کے قریب اس پارک میں چہل قدمی اکثر اوقات کیا کرتا تھا ،وہاں پر اس مالی سمیت اک اور شخص قابل توجہ رہے۔ آج موقع ملتے ہی مالی سے گفتگو کی ، باغ کو دیکھتے ہی اس مالی کی کارکردگی عیاں ہوجاتی ہے۔ متعدد بار جی چاہا کہ اس مالی سے گفتگو کا آغاز کیا جائے اور ان سے کچھ تفصیلات لے کر اس دوسرے شخص کی جانب بڑھا جائے۔ مالی سے روز کا ملنا معمول سا بن گیا، وہ اپنے پیشہ ورانہ مسائل کا ذکر کرتے وہیں پر وہ محکمانہ صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کرتے ۔ رہائش گاہ دور ہونے کے باوجود اپنے مقررہ اوقات میں وہ پارک پہنچتے اور ذمہ دارانہ انداز میں بورنگ کے پانی سے پورے باغ کو سریاب کرتے۔ پانی کی کمی کے حوالے سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے بتایا کہ برسوں قبل یہاں بورنگ کی گئی تھی اور تب سے اب تلک پانی کی مقدار میں کمی نہیں آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پینے کیلئے بھی یہی پانی استعمال کرتے ہیں۔ بسااوقات پانی کے ضرورتمندوں کو بھی وہ پانی بھی فراہم کرتے ہیں۔

پارک میں اسکول کی دیوار کے ساتھ ہی اک آٹھ سے دس فٹ لمبا اور ڈھائی سے چار فٹ تک چوڑے اک کمرہ بنا ہوا تھا جس میں اک فرد رہتا تھا۔ مالی کا کہنا تھا کہ اس کمرے میں بچوں کی ٹافیاں ، بسکٹ، پان اور چھالیہ سمیت دیگر چیزیں بیچنے کیلئے انہوں نے رکھی ہوئی تھیں۔ مالی کا کہناتھا کہ اس جگہ پر یہ ڈھائی برس سے زیادہ عرصے سے رہائش پذیر ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں سبھی کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ یہ قطعی ایسے نہ تھے جیسے اب آپ کو نظر آتے ہیں۔ گرم مزاج کے ساتھ یہ ملتے ہیں ، برملااس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ بس اپنی زندگی کے بقیہ وقت کو گذار رہے ہیں۔ اپنی بیٹیوں کے گھر جاتے ہیں تاہم وہاں رہتے نہیں ۔بیٹوں کے گھر جانے کی زحمت تک نہیں کرتے ۔ ۔ ۔ یہ صاحب اگر اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں تو یہ بھی بتائیں کہ ان کا نام کیا ہے اور یہاں تک کیسے پہنچے ہیں؟یہ اسی پارک میں صبح کے وقت سوئے ہوئے ملتے تھے ، کبھی پارک کے قریب کسی فٹ پاتھ پر بھی سوئے ہوئے ہوتے تھے، کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں تھا ، مانگتے بھی نہیں تھے، بہت غربت اور لاچارگی کی کیفیات سے گذر رہے تھے، اسی پارک میں شہری حکومت کے چند اور ملازمین بھی ہوتے ہیں ، ان سب ہی کے ساتھ مل کر ہم نے یہ چھوٹا سا کمرہ جو اب انکا گھر ہے اسے بنایااورتب سے ابھی تک وہ یہیں رہہ رہے ہیں۔ اسی وقت کمرے کا دروازہ کھلتا ہے اور اندر سے وہ صاحب باہر نکلتے ہیں، پانی کا کولر اور مٹکا باہر نکالتے ہی ان سے پانی لے کر اپنے چہرے کو دھوتے اور پھر وہیں پردھوپ میں بیٹھ جاتے ہیں۔

ان کے کیبن نما کمرے کے پاس پہنچ کر انہیں سلام کرتااور احوال جاننے کے بعد کچھ بچوں کیلئے بسکٹ لیتا ہوں اور انکی قیمت ادا کرکے وہاں سے چل پڑتاہوں۔ مجاہد نامی یہی شہری چند دنوں کے بعدمجھ سمیت سب سے ہی اچھے انداز میں گفتگو و شنید کیاکرتے تھے۔ اک روز ان سے پوچھا کہ آپ بتائیں یہاں تک کیسے پہنچے ہیں؟

مجاہد صاحب نے طویل سانسیں لیں او ر بتایاکہ گذری کے قریب ان کا اپنا دومنزلہ گھر تھا ، جس میں وہ اپنے بچوں کیساتھ رہائش پذیر تھے۔ اک روز ان کے بائیں پاؤں میں شدید تکلیف ہوئی اور اس کے ساتھ ہی پاؤں کی صورتحال بگڑنے لگی تو بچے قریبی ہسپتال لے گئے، کچھ علاج کرایا جس کے نتیجے میں آفاقہ ہوا اور چندرو ز کے بعد صحتیاب بھی ہوا ، تاہم کچھ دنوں کے بعد اس بیماری کی کیفیات پھررونما ہوئیں جس کے باعث ہسپتال میں داخل کرادیاگیا۔پانچ دن ہسپتال میں گذارنے کے بعد صحتیابی ہوئے اورڈسچارج کرتے وقت معالج نے بائیں پاؤں کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کیں۔انہی دنوں کچھ اور مصائب کا بھی سامنا تھا جس کی وجہ سے پاؤں کی جانب دہان نہیں دے پایا اورپاؤں تیزی کے ساتھ بگڑتا رہا، ناظم آباد میں قائم آرتھوپیڈک ہسپتال اے او کلینک گئے جہاں مرحوم ڈاکٹر شاہ نے زخموں کی صورتحال دیکھ کر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آپریشن کے ذریعے بائیں پاؤں میں راڈ ڈالنے کی تجویز دینے کے ساتھ اسے ہی مناسب علاج قرار دیا۔ اپنے ان جملوں کو پورا کرتے ہوئے مجاہد صاحب نے اپنے بائیں پاؤں سے شلوار اٹھاتے ہوئے لگی ہوئی راڈ دیکھائی۔ مجاہدصاحب کا کہنا تھا کہ علاج معالجے کے اخراجات کو پوراکرنے کے ساتھ بچوں کو ان کا حق دینے کے خاطر میں نے اپنا گذری والادومنزلہ گھر بیچ دیا۔آپریشن و ہسپتال میں قیام کے اخراجات ادا کئے اور باقی رقم کو بیٹوں میں تقسیم کیا۔ اپنی محنت سے کمائی گئی رقم سے گھربنانا اک مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور پھر اس گھر کو بیچنا اس سے بڑا تکلیف دہ معاملہ ہوتاہے۔ بہرکیف آپریشن ہوا اور چند روز ہسپتال میں قیام کے بعد کرائے کے گھر میں منتقل ہوا ، ڈاکٹر کو راڈ والا پاؤں دیکھانے کے ساتھ علاج معالجے کا سلسلہ جاری رہا اور پھر ایسا وقت بھی آگیا کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوکر باآسانی چہل قدمی کرنے لگا۔

قدرے توقف کے بعد مجاہد صاحب نے کہا کہ دونوں بیٹوں سمیت تمام بیٹیوں کی بھی شادیاں ہوچکی ہیں، بیٹیاں اپنے گھروں میں خوش ہیں اور بیٹے بھی مطمئن ہیں۔ میں پہلے بڑے بیٹے کے ساتھ رہا پھر دوسرے کے ساتھ بھی رہا تاہم ان کے رویئے درست نہیں تھے ، وہ مجھے بوجھ سمجھنے لگ گئے تھے ۔ ان کے اقدامات انکے کردار و سوچ کی عکاسی کرتا تھا ۔ کچھ مدت کے بعد میں نے بڑے بیٹے کا گھر چھوڑدیا اور چھوٹے بیٹے کے گھر منتقل ہوگیا وہ اور اس کی گھر والی کچھ دنوں تک تو ٹھیک رہے لیکن پھر ان کا سلوک بھی میرے لئے برداشت کرنا مشکل ہوگیا ، قصہ مختصر دونوں بیٹوں کے گھرمیرے لئے ناقابل رہائش ہوگئے اور پھریوں میں نے دونوں کے گھروں کو چھوڑدیا ۔

مجاہد صاحب نے اک لمبی آہ بھری اور کہنے لگے کہ بیٹیوں کو علم ہوا تو انہوں نے مجھے اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی لیکن میں نے صاف منع کیا ، ان سے کہہ دیا کہ اک ماہ کے بعد میں ان کے گھروں میں آیا کرونگا لیکن ان کے ساتھ نہیں رہوں گا۔ کہاں رہونگا ان کے ا س سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا بہرحال میں نے فلاحی کام کرنے والی این جی اووز کا رخ کیا ، سب سے پہلے ٹاور میں ایدھی سینٹر گیا، مسلسل پانچ دن جانے کے باوجود فیصل ایدھی سے نہیں ملنے دیا گیا اور نہ ہی مجھے رہائش کی جگہ دی گئی۔ اس کے بعد میں چھیپا گیا وہاں بھی اسی طرح رویہ رکھا گیا، پھر سیلانی گیا وہاں بھی میری کوئی داد درسی نہیں ہوتی ۔ ان اداروں کے بعد الخدمت و خدمت خلق فاؤنڈیشن والوں کے پاس بھی گیا وہاں بھی وہی رویئے ہوتے تھے، انہی اداروں کی طرح کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں کے پاس بھی گیا ، جہاں کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس وقت میری کیفیات ۔ ۔ ۔ ناقابل بیاں ہی کہونگا، یہ نام نہاد سماجی و فلاحی تنظیمیں صرف نام کی ہی تنظیمیں ہیں ان میں سے کوئی بھی مظلوموں کیلئے ضرورتمندوں کیلئے کام نہیں کرتے ، سبھی کا ایک ہی مقصد اور وہ مقصد پیسے جمع کرنا ہے، کئی کئی روز جب صبح سے شام تک بیٹھارہا کرتا تھا اس وقت کسی بھی ذمہ دار کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوا کہ میرے مسائل کو حل کرئے ، انتظار ،انتظار اور طویل مدت انتظار کے سوا کچھ نہیں ملا ان خیراتی اداروں سے ۔۔۔جب کوئی فنڈز دینے کیلئے آتا تھا تو اس کیلئے نہ وقت دیکھا جاتا تھا اور نہ ہی رش ، بڑے ہی تعظیم کے ساتھ اسے چائے پلائی جاتی تھی اور جب تک وہ چیک یا کیش پیسے نہیں دیتا تھا اس وقت تک اس ڈونر کی آؤبگت کی جاتی تھی۔ یہ نقطہ ان تمام غیر سیاسی ، سماجی اورخیراتی اداروں کا مشترک ہے۔ اس وقت عجب کیفیت تھیں نہ بیٹوں نے پوچھا اور نہ ہی کہیں سے سر چھانے کو جگہ مل پائی ، مایوسی کا غلبہ تیزی کے ساتھ بڑھتا رہا ، مجھے نہ گھر کی فکر ہوتی نہ ہی گھروالوں کی ، نہ زخموں کی اور نہ علاج کی ، بس وقت کو دھکا دے رہاتھا کبھی کہاں تو کبھی کہاں پڑا ہوا ہوتا تھا ۔ اس پارک میں بھی درجنوں راتیں گذاریں اور یہ اس پارک والوں کی مہربانیاں ہیں کہ انہوں نے مجھے آج اس مقام تک پہنچایا۔ اس پارک میں یہ دس فٹ کا کمرہ جسے میں گھر کہتا ہوں بناکر دیا اور طویل عرصے تک کھانے پینے کا بھی خیال رکھا۔ یہاں رہتے ہوئے ایک سال سے زائد ہوگیا ہے اور اب میں نے اس کمرے میں یہ ٹافیاں ، بسکٹ، چھالیہ ، پاپے اور دیگر چیزیں رکھی ہوئی ہیں ، انہیں بیچتا ہوں اور وقت کو اچھی طرح سے گذار رہاہوں۔ اپنی بیٹیوں کے گھروں پر جاتاہوں ، بیٹے نہ آتے ہیں نہ پوچھتے ہیں اور نہ ہی میں جاتا ہوں۔ روزانہ صبح اٹھ کر قرآن کی تلاوت کرتا ہوں اور اچھا رہنے کے ساتھ اچھے کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

اپنی داستان الم سناکر یہ نام کا مجاہد صرف نام کا مجاہد نہ لگا بلکہ کام کا بھی مجاہد نکلا ، وہ اٹھے اور چلے گئے اور میں اس مجاہد کو دیکھتا رہا ۔ وہ اک خاموش مجاہد کی طرح اپنا کام کر رہا تھا اور اسی کی طرح وہ مالی بابا بھی اک خاموش مجاہد کی طرح اپنی ذمہ داری کو پورا کررہا تھا ۔ اس باغ کا سبزا اس مالی کی کارکردگی کا عکاس تھا۔ لیکن ایسے کردار ایسے مجاہد ہمارے معاشرے میں کسی کو نظر نہیں آتے ہیں۔صرف ایک شعبہ زندگی میں نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ایسے کردار موجود ہیں جو خاموش مجاہد کی طرح اپنی زندگیوں کو صرف مقاصد کیلئے نہیں بلکہ اعلی مقاصد کیلئے گذار رہے ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسیے کرداروں تک ایسے خاموش مجاہدوں تک پہنچنا چاہئے اور ان کی اپنے انداز میں امداد کی جانی چاہئے ۔ ایسے ہی اپنی ذات میں مجاہد جب سب کے سامنے آئیں گے تو معاشرے میں مثبت از م کا اضافہ ہوگا ، منفی اور مثبت کی خاموش جنگ کو اس انداز میں خاموش مجاہد اپنے مجاہدانہ انداز میں جیتیں گے۔ ان کی زندگیاں سبق آموز ہونگی اور ان سے نئی نسل کو اچھے خاموش کردار دیکھنے اور سمجھنے کو ملیں گے۔ نام نہاد فلاحی ، سماجی تنظیمیں ہیں جو چندہ جمع کرتی ، اس چندے کیلئے اپیلیں کرتی نظر آتی ہیں۔دیکھاوئے کیلئے کچھ کام بھی کرتی ہیں تاہم وہ کام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ناکافی ہیں۔ ۔ ۔

 

Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 195 Articles with 163023 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More