ویسے تو ایک ماہ میں بجلی کی قیمتوں میں تیسری بار اضافہ
ہورہا ہے گیس کی قیمتوں میں بھی اچھا خاصا اضافہ ہوا ہے ان اعصاب شکن خبروں
کے بیچ ہی میں کچھ اچھی خبریں بھی سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں اسلام
آباد میں سرکاری ملازمین کے احتجاج میں تشدد کا رنگ شامل ہوگیا تھا حکومتی
خزانے کی صورتحال تو پہلے ہی سے بڑی نازک چل رہی ہے لیکن دوسری طرف سرکاری
ملازمین کا احتجاج بھی جائز تھا کہ کہ پچھلے تین سال سے ان کی تنخواہوں میں
کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا جبکہ اس درمیان میں بے تحاشہ مہنگائی نے لوگوں کا
جینا محال کردیا تھا سرکاری ملازمین کی بہت بڑی اکثریت وہ ہے جو دیانتداری
سے کام کرتے ہیں اور اپنی اسی تنخواہ میں گزارہ کرتے ہیں اس لیے ان کی
مشکلات بڑھتی جارہی تھیں ۔اسلام آباد میں پولیس سے ان مظاہرین کی جو جھڑپ
ہوئی اور ابتدائی مرحلوں میں مذاکرات ناکام ہوئے اس سے ایسا لگنے لگا کہ
بھارت میں کسانوں کے احتجاج کی طرح کہیں ان ملازمین کا احتجاج بھی طوالت نہ
اختیار کر جائے ۔ملازمین کا مطالبہ تھا کہ تنخواہوں میں 50%اضافہ کیا جائے
اور دیگر مطالبات میں ایک یہ مطالبہ بھی تھا کہ ایک سے بائیس گریڈ تک اس
احتجاج میں شامل ہیں ،دوسری طرف حکومت صرف ایک سے سولہ گریڈ تک کہ مسائل و
مطالبات سننا چاہتی تھی بہرحال دونوں طرف کچھ لو اور کچھ دو کے جذبے کے تحت
مذاکرات ہوئے اور گریڈ ایک سے انیس تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں پچیس
فیصد اضافے پر مذاکرات کامیاب ہو گئے ۔ایک اندازے کے مطابق 50ارب سے زائد
کا ملکی خزانے پر اس کا بوجھ پڑے گا اب اسکے لئے حکومت نئے ٹیکس لگانے پڑیں
گے یا قرضہ لینا پڑے گا یا نوٹ چھاپنے پڑیں گے جس سے افراط زر میں اضافہ ہو
گا ۔
دوسری ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کے ترقیاتی فنڈ کے حوالے سے
سپریم کورٹ نے جو نوٹس لیا تھا اس پر بھی مسئلہ اس طرح حل ہوگیا کہ سپریم
کورٹ نے وزیر اعظم کی اس تحریری یقین دہانی پر ممبران اسمبلی کو کوئی
ترقیاتی فنڈ نہیں دئے جائیں گے اس کیس کو نمٹا دیا ۔جمعرات کو سپریم کورٹ
کے پانچ رکنی بنچ نے وزیر اعظم کے دستخط شدہ اس بیان کو منظور کرلیا جس میں
کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت ارکان پارلیمنٹ میں سرکاری فنڈز تقسیم نہیں
کررہی اور میڈیا میں اس حوالے سے آنے والی اطلاعات درست نہیں ۔بیان میں کہا
گیا تھا کہ ترقیاتی اسکیموں کے لئے ارکان پارلیمنٹ کوئی رقم نہیں دی جائے
گی اس کے بعد عدالت میں اس کیس پر مزید کوئی کارروائی نہیں کی ۔
اس کے علاوہ ایک اور معاملہ بھی تھا جس میں تحریک لبیک نے آئندہ ہفتے اسلا
م آباد مارچ کی دھمکی دے رکھی تھی پارٹی کا الزام ہے کہ حکومت نے 16نومبر
2020کوجو وعدہ کیا تھا وہ اب اس سے پیچھے ہٹ رہی ہے ۔یہ وہ معاہدہ تھا جس
کے بین الاقوامی سطح پر نتائج سامنے آسکتے تھے ،شیخ رشید اور وزیر مذہبی
امور نور الحق قادری نے تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے ممکنہ خطرے کوبھی
زائل کردیا اور ان کے ساتھ معاہدے کی تجدید کر لی جس سے حکومت کو 20اپریل
2021تک کی مہلت مل گئی ۔تحریک لبیک کا مطالبہ ہے کہ فرانس کے سفیر کو ملک
بدر کیا جائے اور فرانسیسی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جائے ۔
وزیر اعظم کو ایک اور ریلیف اس طرح سے ملا کہ ان کے خلاف چلنے والا ایک اور
کیس نمٹا دیا گیا ․اس کیس کی سماعت جسٹس فائز عیسی کررہے تھے ۔چیف جسٹس
پاکستان نے قرار دیا کہ عدم تعصب اور شفافیت کے اصول کی بالا دستی کے لئے
جسٹس عیسی ایسے ٰ کیس کی سماعت نہ کریں جووزیر اعظم پاکستان سے متعلق ہوں
اور یہ انساف کے تقاضوں کے لیے ضروری ہے کیونکہ انھوں نے پہلے ہی وزیر اعظم
پاکستان کے خلاف پٹیشن دائر کر رکھی ہے ۔
ایک اور دل کو خوش کرنے والی خبر یہ کہ پاک بحریہ 45ممالک کے ساتھ مل کر
جنگی بحری مشقیں کررہی ہے ایک وقت تھا جب ہماری ایئر فورس بہت مضبوط تھی
اور اب بھی ہے اس کے بعد بری فوج ،پاک بحریہ ان دونوں سے کچھ کم ڈیلیور
کررہی تھی ۔ہم نے بحریہ ٹاؤن تو بنالیا لیکن پاک بحریہ کو جدید تقاضوں کے
مطابق نہ بنا سکے ۔اب اس میں کچھ بہتری آئی ہے پاک بحریہ نے جو بحری مشقیں
45ممالک کے ساتھ مل کر شروع کی ہیں اس میں تین بڑے طاقتور ممالک امریکا روس
اور چین بھی شامل ہیں ۔پچھلے سال بھارت نے جو بحری مشقیں کی تھیں اس میں
33ممالک شریک ہوئے تھے ،اور یہ تاثر دیا گیا تھا کہ پاکستان عالمی برادری
میں تنہا رہ گیا لیکن اب جو مشقیں شروع ہوئی ہیں اس میں 51ممالک کی شرکت
متوقع تھی بہر حال کراچی میں جب اس کا آغاز ہوا تو 45ممالک کے جھنڈے لہرائے
گئے پاک بحریہ کے سربراہ کا تحریری بیان پڑھ کر سنایا گیا ۔ان مشقوں سے پاک
بحریہ کو اعتماد حاصل ہو گا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عالمی برادری میں
پاکستان کی تنہائی کا تاثر ختم ہوا ہے۔
|