گزشتہ ہفتہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا راجیہ سبھا
میں اپوزیشن لیڈر، مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور کانگریس پارٹی کے
سینئر رہنما، سابق بھارتی وزیر غلام نبی آزادکا بڑا جذ باتی منظر دیکھنے کو
ملا۔وہ 28سال تک راجیہ سبھا کے ممبر رہے۔ پارلیمنٹ کے ایوان زیرین لوک سبھا
کے 10سال تک رکن اورمقبوضہ کشمیر کے تین سال وزیراعلیٰ رہے۔15فروری پیر کے
روز میں راجیہ سبھا سے سبکدوش ہوئے۔گزشتہ ہفتہ اپنے الوداعی خطاب میں غلام
نبی آ زاد کا آنسو بہانا اور گجرات کے قصائی نریندر مودی کا بھی رو پڑنا
ایک ایسا مذاق ہے کہ جس کا اندازہ صرف کشمیر اور بھارت کے مسلمان ہی کر
سکتے ہیں۔غلام بنی آاد 2007میں مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اسی دور
میں نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر مسلمانوں کا قتل عام کر رہے
تھے۔ مگر آزاد کو کبھی توفیق نہ ہوئی کہ مسلمانوں پر مظالم کے خلاف کوئی
آواز بلند کریں۔ آزاد کا تعلق جموں خطے اور وادی کشمیر کے سنگھم میں واقع
وادی چناب کے بھدرواہ علاقے سے ہے۔مگر ان کی سیاست دہلی میں رہی۔ کانگریس
کے وفادار رہے۔ نریندرمودی نے غلام نبی آزاد کے متعلق کئی واقعات کا تذکرہ
کیاکہ یہ ایسے قائد ہیں جو نہ صرف اپنی پارٹی کے لئے بلکہ بھارت اور قوم کے
لئے ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں۔مگر سچ یہ ہے کہ بھارت میں چاپلوسی اور اپنی
عزت و وقار کو گروی رکھنے والے ، اپنے عوام کا سودا کرنے، کرسی اور اقتدار
کے لئے سب کچھ قربان کرنے والے ہی ترقی اور کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ آزادکا
اپنے ہندوستانی مسلمان ہونے پر فخر کرنا اور یہ کہنا کہ وہ ان خوش قسمت
لوگوں میں سے ہیں جو کبھی پاکستان نہیں گئے، ایسا ہے کہ جیسے بھارت میں
مسلمان سفید و سیاہ کے مالک ہوں۔ مودی نے تاریخی بابری مسجد مسلمانوں سے
چھین کر اس پر رام مندر تعمیر کرنے کا کام تیزی سے جاری رکھاہے۔ایسے میں
غلام نبی آزادمودی کی تعریف اور اپنے بھارتی مسلمان ہونے پر فخر کر رہے
ہیں۔40سال سے بھارت کی سیاست میں سرگرم آزاد نے کانگریس پارٹی کے مسلم چہرے
کی حیثیت سیشہرت پائی۔ اندارگاندھی سے لے راجیو گاندھی تک کے دورِ حکومت
میں وہ مختلف وزاتوں اور عہدوں پر فائز رہے۔
کم و بیش اپنے نصف صدی کے سیاسی سفر کے دوران انہوں نے کشمیریوں یا بھارتی
مسلمانوں کو کیا دیا۔ بھارت کی قومی سیاست میں رہتے ہوئے اپنی ریاست کی
عوام کے لئے کیا خدمات انجام دیں۔ مودی نے قائد ِ اپوزیشن کی جم کر تعریف
کی اور کہا کہ وہ ان سے کئی معا ملات میں مشورہ بھی لیتے رہے۔ کیا کبھی
کشمیریوں کے بارے میں بھی بھارتی وزیراعظم نے غلام نبی آزاد سے کوئی مشورہ
لیا۔تجزیہ کار ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد کا درست کہنا ہے کہ دنیا جانتی
ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے کشمیر ایک ایسی تجربہ گا ہ میں تبدیل
ہوگیا ہے جہاں ہر سیاسی پارٹی اپنا تجربہ آزماتے ہوئے وہاں کی عوام کو
دھوکہ دیتی رہی۔ نئی دہلی نے اپنے پسندیدہ قائدین کو کشمیرکے عوام پر مسلط
کیا ۔ کشمیریوں سے ہمیشہ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔کشمیریوں سے کئے گئے
وعدوں سے مکر جانے میں کانگریس پیش پیش رہے۔کشمیریوں میں دہلی حکومت کے
تئیں منفی جذبات پروان چڑھتے رہے اور آج کشمیر میں ہندوستان سے مکمل
بیگانگی پائی جا تی ہے۔کشمیر میں نہتے اور معصوم عوام کا قتل عام، خونریزی
اور ہلاکت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ کشمیر
ی عوام قابض فورسزکے غلام بنا دیئے گئے ہیں۔غلام نبی آزاد کے ساتھ مقبوضہ
جموں و کشمیر کے تین راجیہ سبھا ارکان رکنیت سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔اب راجیہ
سبھا میں مقبوضہ جموں وکشمیرکی نمائندگی با قی نہیں رہی ہے۔ مقبوضہ ریاست
میں اس وقت صدر راج ہے اور جموں و کشمیر اسمبلی کے نام نہاد انتخابات ہونے
کے کوئی آ ثار نہیں ہیں۔ بی جے پی حکومت نے5 اگست2019کوریاست کو خصو صی
حیثیت دینے والی دفعہ 370اور35اے کو ختم کرتے ہوئے ریاست کو دو حصوں میں
توڑ دیا۔ مودی حکومت کے اس فیصلہ نے کشمیر کو بارود کی ڈھیر پر لا کھڑا کر
دیا ہے۔ آج کشمیر میں ہر طرف حکومت کے اس اقدام کے خلاف ناراضگی پائی جا تی
ہے۔جموں وکشمیر کی بھارت نواز سیاسی پارٹیاں دفعہ 370کی بحالی اور ریاست کی
سابق حیثیت کو باقی رکھنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔بھارت نے دفعہ370کے تحت ہی
مقبوضہ جموں و کشمیر کو ہندوستان سے جوڑے رکھا تھا۔
عمران خان حکومت سے پہلے بھارت کی آزادی کے بعد سے کسی حکومت نے اس دفعہ کو
ختم کرنے کی کو شش نہیں کی۔ حتی کہ اس سے پہلے جب اٹل بہاری واجپائی ملک کے
وزیراعظم بنے، وہ بھی اس دفعہ سے چھیڑ چھاڑ نہ کر سکے۔سب جانتے تھے
دفعہ370کا خاتمہ کشمیر یوں کے جذبات کو بھڑکا دے گا جس کو بعد میں کنڑول
کرنا مشکل ہوجائے گا۔پی ٹی آئی کے دور حکومت میں آرٹیکل 370کو ختم کرکے اور
مقبوضہ ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں توڑ کر مودی حکومت نے اپنے
ایجنڈا کو پورا کرلیا۔ بھارتی پارلیمنٹ کی راجیہ سبھا میں کشمیرکے حق میں
کسی کو آواز اٹھانے کی جرائت نہ ہوئی۔کسی نے بھارتی فورسز کے قتل عام اور
دہلی کی عوام کش پالیسی کے خلاف آواز بلند نہ کی۔اب بھارتی پارلیمنٹ کا ایک
ایوان مقبوضہ ریاست کی نمائندگی سے محروم ہو چکا ہے ۔
اب یہ دعویٰ بھی غلط ہوجائے گا کہ راجیہ سبھا، بھارت کی ریاستوں کی
نمائندگی کرنے والا ایوان ہے۔ دفعہ 370کی تنسیخ کے بعد سے مقبوضہ ریاست میں
عملاً مارشل لاء ہے۔ لیفٹننٹ گورنر نے ریاست کا سارا نظم ونسق سنبھال رکھا
ہے۔ حریت کانفرنس سمیت حریت پسند قیادت جیلوں میں سڑ رہی ہے۔ کشمیر کے ٹکڑے
کر کے مودی حکومت نے اس ریاست کی تاریخی حیثیت کو ختم کر دیالیکن اس سے
کشمیریوں کے زخم اور تازہ ہو گئے۔ مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت
کی بنیاد پرمقبوضہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔لیکن اس سے ریاست کے
مسائل سلجھنے کے بجائے اور الجھ گئے۔بھارت نواز نیشنل کانفرنس کے قائدین
فاروق عبداﷲ اور عمر عبداﷲ کے علاوہ پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی اور
دیگر سیاسی قائدیں مہینوں زیر ِ حراست رکھے گئے۔ پھر بھی بھارتی حکومت کا
دعویٰ ہے کہ دفعہ 370کی تنسیخ کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں امن و سکون
کا ماحول پایا جا رہا ہے اور عوام مودی حکومت کے فیصلہ سے خوش ہیں۔ اگر اس
بات میں سچائی ہوتی تومقبوضہ ریاست کو مرکز کے زیر ِ انتظام نہ لایاجاتا۔
نریندرمودی نے ناسک(مہاراشٹرا) میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر تے ہوئے 19
ستمبر2019کو کہا تھا ''ہمیں ہر کشمیری کو گلے لگانا ہوگااور ایک نئی جنت
تخلیق کرنا ہوگا''۔اس موقع پر مودی نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ''دفعہ
370کی منسوخی کا فیصلہ، ہندوستان کے اتحاد کے لئے ایک فیصلہ ہے''۔سوال یہ
ہے کہ گز شتہ ڈیڑھ سال کے دوران کشمیریوں کو گلے لگانے کے لئے مودی نے کون
سے انقلابی اقدامات کئے۔ کیا واقعی کشمیر نئی جنت ِ ارضی بن گئی؟ کشمیریوں
کے حقوق اور ان کی آزادیوں کو چھین کر ان کو گلے لگانے کی بات جملہ بازی
توہو سکتی ہے مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ مودی مگر مچھ کے آنسو
بہانے اور جملہ بازی میں مہارت کے ساتھ شہرت بھی رکھتے ہیں۔مودی نے بھارتی
مسلمانوں اور کشمیریوں کے حقوق پامال کئکر رکھے ہیں اور ان کے ساتھ غیر
منصفانہ بر تاؤ کیا جارہا ہے۔
مودی کی آنکھ میں جو آنسو غلام نبی آزاد کی وداعی کے موقع پر آئے،کیا وہ
حقیقی آ نسو تھے۔ راجیہ سبھا میں وزیراعظم مودی اور قائد ِ اپوزیشن غلام
نبی آزادکے آنسوکشمیریوں کو انصاف کی شکل میں حق خود ارادیت دینے سے راہ
فرار کے سوائے کچھ نہیں۔ بھارتی مسلمان ان اشکبار آنکھوں کے مکر و فریب سے
دھوکہ کھا گئے اور ایک فیصلہ کن جدوجہد کے لئے میدان میں نہ آئے تو حالات و
واقعات گواہ ہیں کہ بھارت میں ہر مسجد کا انجام بابری مسجد جیسا ہی ہوسکتا
ہے۔
بھارتی مسلمانوں میں بابری مسجد کی شہادت کے بعدکچھ بیداری پیدا ہوئی تھی
مگر یہ بیداری سمندر کی جھاگ کی طرح غائب ہو گئی۔ وہ پھر سے اپنے اپنے
مسائل میں دب کر رہ گئے ہیں۔ وہ یکجا اور متحد نہیں۔ ان کی آواز نقار خانے
میں طوطی کی آواز بن گئی ہے۔ دوسری طرف آر ایس ایس کے نظریات سے مغلوب ہندو
انتہا پسند بھارت میں مسلمانوں ہی نہیں بلکہ سکھ، عیسائی، بدھ، جین، سمیت
تمام اقلیتوں کے کھلے دشمن بنے ہیں۔ مودی کی حکمرانی مسلمانوں اور پاکستان
سے نفرت اور ہیجان انگیزی کی دین ہے۔ گائے کا گوشت کھانے یا لے جانے کے
الزام میں لا تعداد مسلمانوں کو ہندو انتہا پسندوں کے ہجوم نے قتل کر دیا۔
بھارت کے نئے شہریت قوانین (سی اے اے) کے خلاف مزاحمت کرنے والے ایک سو سے
زیادہ مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کرانے والے نریندر مودی کے آنسو معصوموں
کے خون پر جشن منانے اور خوشی کے آنسو ہو سکتے ہیں مگر ان کا کسی بہتری کا
موجب قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
\
بھارت میں مسلمانوں کی شہریت کی جانچ پڑتال جا ری ہے۔ یہ عمل نیشنل
پاپولیشن رجسٹر(این پی آر)اور نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنز(این آر سی)کے تحت تیز
کیا گیا ہے۔ جس کا غیر قانونی تارکین وطن مسلمانوں کی نشاندہی کر کے ان کو
بھارت بدر کر دیا جائے۔ آر ایس ایس کا منصوبہ پاکستان، بنگلہ دیش اور
افغانستان سے بھارت آنے والے مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی ہے۔ مگر در حقیقت
بھارت کے مسلمانوں میں ڈر اور خوف پیدا کیا جا رہا ہے تا کہ ان کے ساتھ روا
رکھا جانے والا امتیازی سلوک جاری رہے۔ مسلمان منظم نہ ہو سکیں اور انہیں
کسی جدوجہد کے لئے متحد ہونے کی فرصت ہی نہ مل پائے۔ سٹوڈنٹس مومنٹ آف
انڈیا(سیمی)جب گزشہ برسوں میں ذرا منظم ہونے لگی اور بابری مسجد کی شہادت
کے بعد مسلمان متحرک ہوئے تو طلباء کی اس تنظیم کے ارکان کو چن چن کر قتل
کرا دیا گیا۔ بھارتی مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کرانے والے مودی اور ان کے
انتہا پسند کارکن پارلیمنٹ میں غلام نبی آزاد کی رخصتی کے موقع پر بہائے
گئے آنسوؤں کا مکر و فریب خوب جانتے ہیں۔ مودی نے اپنی مکاری اور فریب کاری
سے عرب حکمرانوں کو جھانسہ دیا ۔ وہ عربوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو
گئے، عرب بھی ہزاروں مسلمانوں کے قاتل سے اپنے مفاد میں دھوکہ کھاگئے۔ جو
مسلمان بت خانے اور صنم خانے ڈھانے کے روادار تھے، وہی آج مندر تعمیر کرنے
اور بتوں کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں۔ مودی اپنے مگر مچی آنسوؤں سے پوری
دنیا کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو چکا ہے مگر وہ مظلوم کشمیریوں کو کبھی
دھوکہ نہیں دے سکتے۔ کشمیری اپنی جدوجہد کو ہر صورت میں جاری رکھیں گے۔ ہو
سکتا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد بھارتی مسلمانوں کی آزادی کے لئے بھی کوئی
راستہ کھول دے۔
|