انسانی زندگی دو حصوں پرمشتمل ہے ، ایک حصہ آرام وراحت سے
متعلق ہے تو دوسرا حصہ تکلیف وپریشانی سے متعلق ہے یعنی انسان کو کبھی
زندگی میں آرام ملے گا تو کبھی وہ تکلیف میں بھی ہوسکتا ہے ۔ ایک مومن کے
لئے ان دونوں حالتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانب سے رہنمائی
موجود ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
عَجَبًا لأَمْرِ المُؤْمِنِ، إنَّ أمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وليسَ ذاكَ
لأَحَدٍ إلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إنْ أصابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكانَ
خَيْرًا له، وإنْ أصابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكانَ خَيْرًا له(صحيح
مسلم:2999)
ترجمہ:مومن کا معاملہ عجیب ہے،اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے اور
یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں ۔ اسے خوشی اور خوشحالی ملے توشکر
کرتا ہے۔ اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو (
اللہ کی رضا کے لیے ) صبر کر تا ہے ، یہ (ابھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے۔
اس حدیث میں انسانی زندگی کے اچھے اور برے دونوں حالات کا ذک
ر ہے اور بتایا گیا ہے کہ راحت وسکون والی حالت میں اللہ کا شکر بجالانا
اورمصیبت وپریشانی والی حالت میں صبر کرنا ثواب کا کام ہے ۔ سورہ بقرہ میں
دومقامات پر اللہ تعالی نے مومنوں کومصیبت میں صبر اور نماز کے ذریعہ مدد
طلب کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ایک جگہ ارشاد ربانی ہے :
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ
ۚوَإِنَّهَالَكَبِيرَةٌإِلَّاعَلَىالْخَاشِعِينَ (البقرة:45)
ترجمہ:اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو یہ چیز شاق ہے مگر ڈر رکھنے
والوں پر.
دوسری جگہ اللہ ارشاد فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ
ۚإِنَّاللَّهَمَعَالصَّابِرِينَ (البقرۃ:153)
ترجمہ:اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، اللہ تعالی صبر
والوں کا ساتھ دیتا ہے۔
سورۃ البقرہ کی ان دو آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مصیبت وپریشانی میں مومنوں
کو صبرسے کام لینا چاہئے اور مصیبت دور کرنے کے لئے نماز پڑھ کر اللہ سے
مدد طلب کرنا چاہئے ۔
نماز دین کا اہم ستون اور اسلام کا دوسرا رکن ہے ، یہ سکون حاصل کرنے،
پریشانی حل کرنے، مصیبت سے نجات پانے اور اللہ سے قریب ہوکر اس سے مدد
مانگنے کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔ اللہ نے المومنون کے نام سے ایک سورت نازل
کی ہے اور وہاں سب سے پہلے یعنی پہلی آیت میں مومنوں کی کامیابی کی بشارت
دی ہے کہ مومن ہی کامیاب ہونے والے ہیں پھر اللہ مومنوں کے اوصاف ذکرکرتے
ہوئے سب سے پہلے یعنی دوسری ہی آیت میں بتاتاہے کہ وہ اپنی نماز میں یکسوئی
قائم کرنے والے ہیں اور نویں آیت میں بتاتا ہے کہ وہ اپنی نمازپر ہمیشگی
برتنے والے ہیں ،چلیں اب ان آیات کو دیکھتے ہیں ۔
پہلی آیت جہاں اللہ مومنوں کو کامیابی کی بشارت دیتا ہے:قَدْ أَفْلَحَ
الْمُؤْمِنُونَ (المومنون:1)(یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی)
دوسری آیت جہاں اللہ کامیاب ہونے والے مومنوں کی پہلی علامت نماز میں خشوع
اختیار کرنے والا بتایا ہے ۔
الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (المومنون:2)ترجمہ: جو اپنی
نماز میں خشوع کرتے ہیں۔
نویں آیت جہاں اللہ ذکر کرتا ہے کہ مومن ہمیشہ نماز قائم کرتے رہتے اور اس
پرمحافظت کرتے ہیں ۔
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (المومنون:9)ترجمہ: جو
اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔
آگے دس و گیارہ آیات میں اللہ یہ بھی ذکر کرتا ہے کہ ایسے لوگ ہی اصل میں
جنت الفردوس(اعلی جنت)کے وارث ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ ان باتوں کو
تفصیل سے ذکر کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ آج مسلمان اس لئے پریشان ہیں کہ
وہ رب کی بندگی نہیں کرتے اور جو چند لوگ رب کی بندگی کرتے ہیں ان کی
اکثریت شرک وبدعت میں مبتلا ہے ،ایسی صورت میں یقینا مسلمان پریشان ہی رہیں
گے ۔ نماز مقصدحیات اور دفع بلا کا ذریعہ ہے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
حزن وملا ل اور گھبراہٹ وپریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہوجایا کرتے تھے
۔
عن حذيفةَ قالَ كانَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ إذا حزبَهُ
أمرٌ صلَّى(صحيح أبي داود:1319)
ترجمہ: حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
کوئی کام مشکل اور غم میں ڈال دیتا تو آپ نماز پڑھاکرتے یعنی فوراً نماز
میں لگ جاتے۔
"إذا حزَبَه أمرٌ صلَّى أي إذا أحزَنَه أمرٌ أو أصابه بالهمِّ لجَأ إلى
الصَّلاةِ" یعنی جب آپ کو غمگین کرنے والا کوئی معاملہ درپیش ہوتا یا کوئی
غم لاحق ہوتا تو آپ نماز کی طرف متوجہ ہوتے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز پریشانی دور کرنے کا نبوی نسخہ ہے ، آپ نے
کفار کی طرف سے اذیت و پریشانی کے وقت نماز میں قنوت نازلہ پڑھی ہے ، سور ج
وچاند گرہن (جوکہ اللہ کی دونشانیاں ہیں اور ان نشانیوں سے اللہ بندوں کو
ڈراتا ہے) کے وقت نماز کی طرف جلدی کرنے کا حکم دیا ہے ، اسی طرح جب بارش
نہ ہونے سے لوگ پریشان ہوں تو صلاۃ الاستسقا ءپڑھنے کا حکم دیا ہے ۔
غزوہ بدر کا موقع مسلمانوں کے لئے بہت سنگین ونازک تھابلکہ یوں کہہ لیں کہ
مسلمانوں کی قلیل سی جماعت کےلئے اتنابڑا خطرہ کبھی اسلامی تاریخ میں نہیں
آیا اور نہ آسکتا ہے ، ایسے موقع سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ
سے دعا کرتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے
زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں بچے گا۔ اس پرخطر اور پریشان کن
موقع پر بدر کی رات سے متعلق حضرتِ علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی کیفیت بیان کرتے ہیں:
ما كان فينا فارسٌ يومَ بدرٍ غيرُ المقدادِ ، ولقد رأيتُنا وما فينا إلا
نائمٌ ، إلا رسولُ اللهِ تحت شجرةٍ ، يصلِّي ويبكي ، حتى أصبحَ(صحيح
الترغيب:3330)
ترجمہ:بدر کے دن ہم میں صرف حضرتِ مقدار رضی اللہ عنہ گھڑ سوار تھے اور
رسول اللہﷺ کے سوا ہم سب سوگئے۔ آپ ایک درخت کے نیچے صبح تک نماز پڑھتے
اور روتے رہے۔
ہمارے اسلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل پیرا رہے بلکہ
آپ سے پہلے بھی نیک لوگ پریشانی کے وقت نماز پڑھ کر اللہ سے مدد مانگتے تھے
۔
سورہ بقرہ کی ۴۵ نمبر آیت کی تفسیر میں بیان ہے کہ جب ابن عباس رضی اللہ
عنہما کو حالت سفر میں اپنے بھائی قثم کی خبروفات ملتی ہے تو آپ انا للہ
وانا الیہ راجعون پڑھ کر ، راستے سے ایک طرف الگ ہٹ کر اور اونٹ بٹھاکر دو
رکعت بہت لمبی نماز پڑھتے ہیں پھر اپنی سواری کی طرف جاتے ہوئےیہ آیت پڑھتے
ہیں ۔ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ
ۚوَإِنَّهَالَكَبِيرَةٌإِلَّاعَلَى الْخَاشِعِينَ (البقرة:45)صبر اور نماز
کے ساتھ مدد طلب کرو یہ چیز شاق ہے مگر ڈر رکھنے والوں پر (فتح الباري لابن
حجر:3/205)
عبداللہ بن محمد بن حنفیہ کہتے ہیں:
انطَلَقتُ أنا وأبي إلى صِهرٍ لنا من الأنْصارِ نَعودُه، فحَضَرتِ
الصَّلاةُ، فقال لبَعضِ أهْلِه: يا جاريةُ، ائْتُوني بوَضوءٍ، لَعلِّي
أُصلِّي فأسْتَريحَ، قال: فأنْكَرْنا ذلك عليه، فقال: سَمِعتُ رسولَ اللهِ
صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يقولُ: قُمْ يا بلالُ، فأَرِحْنا بالصَّلاةِ(صحيح
أبي داود:4986)
ترجمہ:میں اور میرے والد انصار میں سے اپنے ایک سسرالی رشتہ دار کے پاس اس
کی (عیادت) بیمار پرسی کرنے کے لیے گئے، تو نماز کا وقت ہو گیا، تو اس نے
اپنے گھر کی کسی لڑکی سے کہا: اے لڑکی! میرے لیے وضو کا پانی لے آتا کہ میں
نماز پڑھ کر راحت پا لوں تو اس پر ہم نے ان کی نکیر کی، تو انہوں نے کہا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:اے بلال اٹھو اور
ہمیں نماز سے آرام پہنچاؤ۔
اسی طرح صحیح بخاری (2482) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی
اسرائیل کے جریج نامی ایک شخص کا واقعہ بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
جب جریج کو نماز میں مشغولیت اور والدہ کی آواز کا جواب نہ دینے کی وجہ سے
والدہ نے غصہ میں بددعا دیدی ۔ اے اللہ! اسے موت نہ آئے جب تک کسی بدکار
عورت کا منہ نہ دیکھ لے۔ چنانچہ ایک بدکارعورت نے جننے والے بچے کا اس پر
الزام لگایا کہ یہ بچہ جریج کا ہے۔ قوم کے لوگوں نے جریج کا عبادت خانہ توڑ
دیا، وہاں سے اسے باہر نکالا اور گالیاں دی۔ اس واقعہ میں آگے مذکورہے
:فَتَوَضَّأَ وصَلَّى ثُمَّ أتَى الغُلامَ، فقالَ: مَن أبُوكَ يا غُلامُ؟
قالَ: الرَّاعِي یعنی جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اس لڑکے کے پاس آئے۔
انہوں نے اس سے پوچھا۔ بچے! تمہار باپ کون ہے؟ بچہ (اللہ کے حکم سے) بول
پڑا کہ چرواہا۔ یہاں بھی نماز کے ذریعہ اللہ کی مدد ملتی ہے اور اللہ کے
حکم سے دودھ پیتا بچہ بول پڑتا ہے۔
ابراہیم علیہ کے واقعہ میں بھی نماز پڑھنے کا ذکر ہے جب آپ اپنی خوبصورت
بیوی سارہ کو لیکر سفرپر نکلے اور ایک ظالم بادشاہ کے ملک سے گزر ہوا تو اس
نے بدنیتی سے سارہ کو طلب کرلیا جیساکہ اس کا پیشہ تھا اس پریشانی میں
ابراہیم علیہ السلام نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں اور جب سارہ کو لوٹتے دیکھتے
ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں ، کیسا معاملہ رہا؟ سارہ نےجواب دیا: خَيْرًا،
كَفَّ اللَّهُ يَدَ الفَاجِرِ، وَأَخْدَمَ خَادِمًا(صحيح مسلم:2371) یعنی
سب خیریت رہی، اللہ تعالیٰ نے اس بدکار کا ہاتھ مجھ سے روک دیا، اور ایک
لونڈی بھی دلوائی۔
ان باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مصیبت اور پریشانی کے وقت نماز قائم کرکے اللہ
سے مدد طلب کرنی چاہئے ، دن ورات کی پانچ نمازیں فرض ہیں ، انہیں ہر حال
میں ادا کرنا ہی ہے ان فرائض اور مصیبت کے وقت نوافل ادا کرکے اللہ سے مدد
طلب کرنی چاہئے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے ۔ افسوس ہے کہ
آج معاشرے میں پریشانی دور کرنے کے لئے کوئی تعویذ لٹکاتاہے تو کوئی
انگوٹھی پہنتا ہے تو کوئی مزار پر چادر چڑھاتا ہے تو کوئی میت کے نام سے
بکرے ذبح کرتا ہے بلکہ آج کل سماج میں آن لائن استخارہ بھی آگیا ہے ۔ مصیبت
دور کرنے کے یہ سارے طریقے غیرشرعی بلکہ شرکیہ اور بدعیہ ہیں ، ہمیں ان سے
دور رہنا چاہئے اور رسول اللہ کی سنت اپنانی چاہئے ۔
|