ظریفانہ: دیسی للن اور پردیسی کلن کی نوک جھونک

کلن کو انگڑائی لیتے ہوئے دیکھ کر للن نے کہا اٹھ جا بھیا کتنا سوئے گا ؟
کلن بولاٹرین تو کل صبح ہے نا؟ پھر کیا جلدی ہے؟؟
ارے بھائی ،اس سے پہلے بھی تو بہت کام ہے۔ دیکھ تیرے لیے چائے تیار ہے اور اس کے ساتھ گرم گرم کاندا پوہا ۔ چل جلدی کر ۔
ہاں یار بھوک تو لگ ہی رہی ہے۔ میں ابھی منہ دھو کر آتا ہوں ۔
چائے پیتے ہوئے للن نے کہا تجھے یاد ہے ہم لوگ جب ممبئی میں نئے نئے آئے تھے تو چوپاٹی گھومنے جایاکرتے تھے۔
جی ہاں لیکن تو اب بھی تو جاسکتا ہے۔ مسئلہ کیا ہے؟
جاتو سکتا ہوں لیکن من نہیں کرتا ۔
نہیں کرتا تو مت جا ۔ کوئی زبردستی تھوڑی نا ہے؟
لیکن آج بڑے دنوں کے بعد پتہ نہیں کیوں چوپاٹی جانے کا من کررہا ہے۔
کلن بولا ہاں یار میں تو چوپاٹی بھول ہی گیا ۔ چل چائے پی کر چلتے ہیں ۔
صرف چائے نہیں پہلے ناشتہ کر پھر چائے ۔
ٹھیک ہے تو بھابی اور بچے کو بھی تیار کرلے ۔ان کا بھی دل بہل جائے گا ۔
نہیں میں تیرے ساتھ ایک خاص بات کرنا چاہتا ہوں اس لیے ان کا آنا ٹھیک نہیں ہے۔
ٹھیک ہے ان کو تو پھر کبھی لے جانا۔ میں کپڑے بدل کر ابھی آیا ۔
چوپاٹی کی ریت پر مونگ پھلی اور گنڈیری لینے کے بعد للن بولا، دوست سب کچھ کتنا بدل گیا ہے؟
کلن نے مونگ پھلی والے کی جانب اشارہ کرکے جواب دیا ہاں یار لیکن نہ یہ بدلا اور نہ ہم بدلے خیر یہ بتا کہ وہ خاص بات کیا ہے؟
بات ذرا پرسنل ہے، تو برا تو نہیں مانے گا؟
بھائی للن، مجھے تو تیری بری باتیں بھی اچھی لگتی ہیں۔ میں امریکہ میں رہتا ہوں تو کیا ہوا؟ میں ہوں تو وہیں کلن جو تیرے ساتھ کبڈی کھیلا کرتا تھا ۔
جی ہاں مجھے پتہ ہے۔ دراصل کل فون پر تجھ سے بات کرنے کے بعد میں نے تیرے گھر فون کیا تھا ۔
اچھا ! کہیں پاروتی نے میری کوئی شکایت تو نہیں کردی ؟
یہ پاروتی کون ہے؟
ارے وہی تمہاری بھابی یعنی بیلن پارو ۔ اس کا اصل نام پاروتی تھا لیکن پہلے تو میں نے اس کو مختصر کیا اور پھراس کی بیلن بازی نے اسے نیا نام دے دیا۔
ہاں بھائی ہم تو اسے بیلن بھابی کے نام سے ہی جانتے ہیں ۔ ایک بار اس کا نشانہ چوکا تو میں بھی شکار ہوگیا ۔
اب تم اچانک دروازے پر پہنچ گئے تو اس کا قصور ؟
للن ہنس کر بولا جی ہاں مجھے پتہ غلطی ہمیشہ بیلن کھانے والے کی ہوتی ہے مارنے والے کی نہیں ہوتی ۔
جی ہاں لیکن فون پر ایسا خطرہ نہیں ہوتا۔
خیر بات دوسری جانب نکل گئی ۔ کل میں نے بیلن بھابی کوبتایا کہ تو آرہا ہےاورپوچھا وہ کیسی ہے؟
اچھا تو وہ کیا بولی ؟
اس نے کہا مجھے پتہ ہے لیکن کیا فائدہ ؟ تین سال بعد آئیں گے اور تیس دن بعد چلے جائیں گے ۔
للن بولا لیکن تیس دن بھی تو بہت ہوتے ہیں بھابی ؟
بیلن نے جواب دیا جی ہاں جب وہ نہیں ر ہتے تو ایک مہینہ بہت طویل ہوتاہے لیکن جب آجاتے تو اس کو نہ جانےکیا ہوجاتا ہے ؟
للن نے پوچھا کس کو کیا ہوجاتا ہے؟
بیلن بولی اس چھٹی کی مدت کو جو پلک چھپکتے گزر جاتی ہے ۔
کلن نے پوچھا اچھا تو تم نے کیا کہا ؟
میرا دل بھر آیا ۔ میں نے سلام کرکے فون بند کردیا اور کل دن بھر اداس رہا ۔
کلن بولا میرے آنے کی وجہ سے تم خوش ہونے کے بجائے غمگین ہوگئے ؟
جی ہاں کلن ایسا ہی ہوا۔ بیلن بھابی کے کرب نے مجھےغمزدہ کردیا ۔ تم ایسا کرو کہ اس بار ان کو بھی اپنے ساتھ لے جاو۔
کلن سوچ میں پڑگیا ۔ اس نے کہا یارمیں بھی یہی چاہتا ہوں لیکن اب یہ ناممکن ہے ۔
کیسی بات کرتے ہو کلن ؟ جو چیز مجھ جیسے غریب کے لیے ممبئی میں ممکن ہوگئی وہ تمہارے لیے امریکہ جیسے خوشحال ملک میں کیوں نا ممکن ہے ؟
ہاں یار میں نے وہاں ایک ایسی غلطی کردی ہے کہ اب یہ کام ناممکن ہو گیا ہے۔
اچھا ! تم نے وہاں ایسا کیا کردیا جو بیلن بھابی کو اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے؟
میں نے وہاں شادی کرلی ہے دوست، تو سمجھتا کیوں نہیں؟
تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ ایک گوری اور ایک کالی ۔ ویسے بیلن بھابی کا رنگ بھی گورا ہی ہے ۔ انگریزی فراک میں انگریز لگیں گی ۔
کلن نے کہا مسئلہ رنگ یا لباس کا نہیں تعداد کا ہے ۔
اچھا سمجھ گیا لیکن وہ اپنے جمن جوشی کو دیکھ ۔ وہ کویتا سے دوسری شادی کرنے کے لیے مسلمان ہوگیا ۔ تو بھی وہی کرلے کیا فرق پڑتا ہے؟
ارے للن ۔ میں ہندوستان نہیں امریکہ میں ر ہتا ہوں ۔ وہاں مسلمانوں کو بھی ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔
اچھا تو کیا وہاں پرسنل لاء نہیں ہے؟ وہاں یکساں سول کوڈ نافذ ہے کیا؟
امریکہ میں یکساں سول کوڈ تو نہیں ہے۔ ہر ریاست کا اپنا قانون ہے لیکن سب نے تعدد ازدواج پر پابندی لگا رکھی ہے۔
یار میں تو سنا ہے کہ امریکہ پوری طرح سے آزاد ملک ہے ۔ وہاں کوئی پابندی نہیں ہے اور تو کہہ رہا ہے کہ سبھی صوبوں میں پابندی ہے۔ یہ کیا چکر ہے؟
دیکھ للن ،پابندیاں تو وہاں بھی ہیں لیکن ممنوع قرار دینے سے قبل اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہہ کر پابندی لگا دی جاتی ہے ۔
یار یہ اچھا ہے کہ کسی کو بھی پاگل قرار دے کر گولی ماردو تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
لیکن کیا بیلن بھابی انسان نہیں ہے؟ اس کا کوئی حق نہیں ہے؟ اور مساوات کی حق دار نہیں ہے؟
دیکھو للن وہاں کے حساب سے نینسی میری پہلی بیوی ہے۔ اب اگر میں بیلن کو لے جاوں تو وہ دوسری ہوگی اوران کے خیال میں یہ نینسی کی حق تلفی ہوگی
لیکن جب بیلن کو لے جانا تو نینسی کو چھوڑ دینا ۔ یعنی طلاق دے دینا ۔
یہ آسان نہیں ہے۔ پہلے تو عدالت سے طلاق لینے کے لیے بہت پیسہ خرچ ہوگا اور پھر زندگی بھر اس کو نان نفقہ بھی دینا ہوگا ۔
زندگی بھر ! یہ تو بہت مشکل ہے۔اچھا تو کیا وہاں سب لوگ صرف ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرتے ہیں ؟ کوئی دوسری عورت کی جانب نگاہِ غلط نہیں ڈالتا ؟؟
ارے بھائی یہ نہ پوچھ کہ وہاں لوگ کیا کیا کرتے ہیں ۔ بس یہ سمجھ لے کہ دوسری شادی نہیں کرسکتے؟؟ باقی جو مرضی میں آئے کرتے ہیں۔
اچھا تو وہ دوسری عورت کو کیا کہتے ہیں ؟
وہ اس کو اپنا پارٹنر یعنی شراکت دار کہتے ہیں۔
اچھا یہ بتا کہ شراکت دار اور شریک حیات میں کیا فرق ہے؟
ارے بھائی ایک دائمی رفاقت ہے اور دوسری عارضی شرارت ہے۔ ۔ آج ہے کل نہیں بات ختم۔
تو کیا انسان جتنے چاہے پارٹنرس رکھ سکتا ہے ؟
جی ہاں اس کی کھلی چھوٹ ہے ۔
یار دوسری جائز بیوی پر پابندی اور بے شمار ناجائز رشتوں کی آزادی ؟ بات سمجھ میں نہیں آئی۔
ارے بھائی جائز رشتے کے حدود ہیں اور ذمہ داریاں بھی ہیں ۔ ناجائز تعلقات لامحدود ہیں اورشتر بے مہار پر کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہے ۔
اچھا تو یہ تو کرسکتا ہے کہ بیلن بھابی کو اپنا پارٹنر بنا لے ؟
ہاں لیکن بیلن اس ناانصافی کو کیسے برداشت کرے گی؟
تو دونوں کے ساتھ عدل کرنا تو ناانصافی کی بات اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔
ارے بھائی میں مال اور وقت کے معاملے میں تو عدل کروں گا لیکن مسئلہ حیثیت کا ہے ۔ وہ اسے اپنی توہین سمجھے گی ۔
میں اسے سمجھا دوں گا۔ یہاں بھی لوگوں کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں ۔ مجھے لگتا ہے وہ مان جائے گی ۔
مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس بات پر راضی ہوجائے گی کہ نینسی تو لائف پارٹنرہو اور وہ صرف پارٹنر ۔ یہ توہین وہ برداشت نہیں کرے گی ۔
لیکن پھر اس مسئلہ کا علاج کیا ہے؟
اس کا علاج انتظار ہے ۔ نینسی اگر مجھے ازخود چھوڑ کر چلی جائے تو میں بیلن کو اپنے پاس بلا سکتا ہوں۔
ورنہ بیلن بھابی کو اس طرح انتظار کرنا ہوگا ؟ تو ایسا کرکے نینسی کو تنگ کرکے بھگا دے۔
وہ آسانی سے نہیں ایسا کرے گی ۔
کیوں اس کو تم سے اچھا کوئی اور نہیں ملے گا؟
مل تو جائے گا لیکن وہ میری طرح شادی کی جھنجھٹ میں نہیں پڑے گا ۔ وہاں پر یہ رحجان دن بہ دن کم ہوتا جارہا ہے۔
ارے! اس سے تو دونوں کے لیے مشکل ہے ۔
جی ہاں لیکن خواتین کے لیے زیادہ کیوں کہ باپ تو اپنے بچے سے دامن چھڑا سکتا ہے مگر ماں یہ نہیں کرسکتی ۔
ہاں یار میں تو ابھی تک میاں بیوی کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ اصل مسئلہ تو بچوں کا ہے ؟
جی ہاں للن اسی لیے اب وہاں لوگ بچوں کو نعمت نہیں زحمت سمجھنے لگے ہیں ۔ خاندانی نظام ٹوٹ کر بکھرنے لگا ہے۔
للن یہ سن کر چونک پڑا ۔ اس نے کہا لیکن اپنی آئندہ نسل کو زحمت سمجھنے والوں کا مستقبل کیسے روشن ہوسکتا ہے؟
دیکھو للن تم کبھی ماضی اور کبھی مستقبل میں چلے جاتے ہو۔ وہاں پر لوگ ان دونوں سے کٹ کر صرف حال میں جیتے ہیں ۔ کیا سمجھے ؟
للن بولا لیکن یاریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حال کا ہر لمحہ مستقبل سے نکل کر آتے ہی ماضی بن جاتا ہے ۔ ہم ان دونوں سے سے کیسے کٹ سکتے ہیں ؟
یہ جاننے کے لیے تمہیں امریکہ آنا پڑے گا میرے دوست ۔ دیکھو کافی اندھیر ا ہوگیا ہے۔
جی ہاں تمہاری بھابی کا بار بار فون آرہا ہے۔ لگتا ہے کھانے کے لیے بلا رہی ہوگی چلو چلتے ہیں ۔
کلن بولا بھوک تو نہیں لگ رہی مگر بیلن کے ڈر سے کھانا تو کھانا ہی پڑے گا ۔
بیک وقت دونوں کا قہقہہ بلند ہوا اور وہ گھر کی جانب چل پڑے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1202698 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.