ایک زمانے سے اردو اور فارسی کے شعراء دِل
کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانی پھیلاتے اور ہمارے لیے تفنن طبع کا سامان
کرتے آئے ہیں۔ کبھی دل کے ہاتھوں مجبور ہونے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی دِل
ہی کو مجبور قرار دے دیا جاتا ہے۔ کبھی دِل میں ایک نئی دُنیا تلاش کی جاتی
ہے اور کبھی دِل کی دُنیا اجاڑنے والوں کو جی بھر کے کوسا جاتا ہے۔ ایک طرف
دِل کو ناگزیر قرار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اُس کا رونا بھی اِس قدر
رویا جاتا ہے کہ ذہن میں یہ اُلجھ پیدا ہو جاتی ہے کہ کِس کی مانیں اور کِس
کی نہ مانیں!
دِل چیز ہی ایسی ہے کہ بچوں اور بڑوں میں پھڈّا بھی کرادیتی ہے۔ جب ہم
چھوٹے تھے تب ایک بار خاندان کے ایک بزرگ نے کہا ”دِل لگاکر پڑھا کرو۔“ ہم
نے جان کی امان چاہتے ہوئے عرض کیا کہ جناب! دِل لگانے کے بعد بھی کبھی
کوئی پڑھ سکا ہے! ہماری اِس ”نکتہ سنجی“ پر اُنہوں نے جان کی امان کا وعدہ
بالائے طاق رکھتے ہوئے جو کچھ کہا وہ ہم خوفِ فسادِ خلق کے باعث اِس کالم
کی کاروائی سے حَذف کر رہے ہیں!
شعراءاور افسانہ نگاروں نے دِل کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے اُس کی
روشنی میں طرح طرح کی بیماریوں کا دِل کو لاحق ہونا کوئی حیرت انگیز امر
نہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ محبوب کے خیالوں میں گم رہنے سے بیمار پڑنے والا
دِل اِنہی خیالوں میں گم رہنے سے شفاء بھی پاتا ہے! آج کل کی لفظیات کے
مطابق اگر کسی کو یاد رکھنا ہو تو دِل کو ایکٹی ویٹ کیجیے، کسی کو بھولنا
ہو تو دِل کو ڈی ایکٹی ویٹ کیجیے! دِل نہ ہوا، سوئچ بورڈ ہوگیا! دُنیا کو
یہ فکر لاحق ہے کہ دِل کی بیماریوں کا کوئی حتمی عِلاج کب دریافت ہوسکے گا،
اور ہم یہ سوچ سوچ کر حیران ہوتے رہتے ہیں کہ دُنیا بھر کے دُکھ جھیل کر
دِل اب تک کیونکر زندہ ہے!
خیر، افسانہ نویسوں، ناول نگاروں اور شعراء نے کیا کوئی کسر چھوڑی تھی جو
اب دنیا بھر کے ماہرین دِل کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑگئے ہیں؟ اللہ کی بنائی
اور بسائی ہوئی اِتنی بڑی دُنیا میں طرح طرح کے انسان اور چیزیں ہیں جو
دادِ تحقیق دیئے جانے کے انتظار میں ہیں۔ مگر ماہرین کے دِل میں اللہ جانے
کیا سمائی ہے کہ دِل سے متعلق تحقیق کی جاں بخشی کے لیے تیار نہیں! آئے دن
دِل سے متعلق تحقیق کے بارے میں عجیب و غریب خبریں آتی رہتی ہیں اور ہم
تشویش میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں کیونکہ اللہ نے ایک عدد (صد شکر کہ) بگڑا
ہوا دِل ہمارے سینے میں بھی رکھ چھوڑا ہے! دِل کا بگڑا ہوا ہونا مقام شکر
اِس لیے ہے کہ آج کل ایسا ہی دِل کسی کام کا ہے! ہر سیدھا اور سادہ دِل
خواہ مخواہ اعتبار اور آسرے میں مارا جاتا ہے! ہمارا دِل کس حد تک عجیب و
غریب ہے یہ ہم خوب جانتے ہیں مگر ماہرین طرح طرح کے وسوسے پیدا کرکے اِس کی
”نیرنگی و تابانی“ میں اضافہ کرتے رہتے ہیں! کبھی کبھی تو ہمیں ایسا لگتا
ہے کہ ماہرین کو شاید تربیت ہی اِس بات کی دی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ
وسوسے پیدا کریں اور کسی بھی معاملے میں لوگوں کے پختہ یقین کی جڑیں ہلا
ڈالیں!
خیر، یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ (ماہرین کا ذکر چھڑ جائے تو جملہ ہائے
معترضہ خود بہ خود بنتے چلے جاتے ہیں!) برطانوی ماہرین نے ایک ایسی دوا
تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس کی مدد سے دِل اپنے کسی بھی نقصان کی تلافی
خود کرسکے گا۔ چوہوں پر اِس دوا کی کامیاب آزمائش کی جاچکی ہے۔ اِس نوعیت
کے تجربات پر مرزا تنقید بیگ سخت چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا
”یہ بات ہم آج تک سمجھ نہیں پائے کہ طبی ماہرین کی نظر میں انسان اور چوہے
برابر کیوں ہیں! کوئی بھی دوا چوہوں پر اُسی وقت آزمائی جانی چاہیے جب اُسے
صرف شادی شدہ مردوں کے لیے تیار کیا جارہا ہو۔“
جب ہم نے چوہوں اور شادی شدہ مردوں کے درمیان تعلق کی وضاحت چاہی تو مرزا
نے کمال مہربانی سے ہمیں سمجھایا ”بیشتر شادی شدہ مرد گھر کے ماحول کو
خوشگوار رکھنے کی خاطر چوہوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں!“
ہم نے عرض کیا کہ مرزا! آپ کی یہ بات ہمارے شادی شدہ مرد قارئین کو بُری لگ
سکتی ہے۔ یہ بات سن کر مرزا نے کہا ”اگر یہ جملہ کسی کی طبیعت پر گراں گزرے
تو عرض ہے کہ تم جیسے صحافی و کالم نگار دوستوں کی صحبت کے فیض سے ہم بھی
اپنی گفتگو کی رنگینی بڑھانے کے لیے اُس میں تھوڑا بہت جھوٹ ضرور شامل
کرلیتے ہیں مگر چونکہ مرنے کے بعد اللہ کو منہ دِکھانا ہے اِس لیے محض شادی
شدہ لوگوں کو خوش کرنے کے نام پر سفید جھوٹ نہیں بول سکتے!“
موقع غنیمت جان کر ہم نے عرض کیا کہ مرزا! شادی شدہ تو آپ بھی ہیں۔ تو کیا
آپ بھی چوہے۔۔ ہم ابھی یہیں تک پہنچے تھے کہ مرزا نے تجربہ کار ٹی وی
اینکرز کی طرح دخل در معقولات کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے وضاحت فرمائی
”شادہ شدہ تو ہم بھی ہیں مگر ہم نے اِس معاملے میں اپنے آپ کو بقلم خود
استثنٰی دے دیا ہے!“ اِس ”حسن استثنٰی“ کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش نہ رہی!
چوہوں پر آزمائی ہوئی دوا کو، مرزا کے دلائل کی روشنی میں، شادی شدہ مردوں
پر آزمانے کی ضرورت نہیں۔ گویا براہِ راست دی جاسکتی ہے! مگر تمام انسانوں
نے ماہرین کا کیا بگاڑا ہے جو اُنہیں چوہوں کا ہم مشرب سمجھ لیا گیا ہے!
خیر، ماہرین کہتے ہیں کہ ایک نئی دوا کے استعمال سے دل کو پہنچنے والے
نقصان کا ازالہ خودکار عمل کے ذریعے ہوگا۔ اب تک یہی کہا جاتا رہا ہے کہ
دِل کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں۔ اِس معاملے میں بھی مرزا کو
ماہرین سے اختلاف ہے۔ اُن کا استدلال ہے کہ ماہرین خواہ مخواہ محنت اور وقت
ضائع کر رہے ہیں۔ نقصان زدہ دِل کا عِلاج پاکستان میں چند سال قبل دریافت
کیا جاچکا ہے۔ ہم نے حیران ہوکر پوچھا کہ وہ کیا عِلاج ہے جس سے دُنیا اب
تک آشنا نہیں! مرزا نے ایک بار پھر شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وضاحت فرمائی
”پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیوں نے موبائل فون پر جو پیکیج متعارف کرائے ہیں
وہ دِل کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کی بہترین صورت ہیں۔ نئی نسل کے ٹوٹے
ہوئے دِل جوڑنے اور صحت مند دِل ایک دوسرے کے قریب لانے میں یہ پیکیج جادو
کا سا اثر رکھتے ہیں! دیکھنے والی آنکھ ہے تو دیکھ سکتے ہو کہ دِلوں کو
تقویت بہم پہنچانے اور جوڑنے کا عمل رات رات بھر جوش و خروش سے جاری رہتا
ہے!“
محض تین چار روپے میں موبائل فون پر گھنٹہ بھر بات کیجیے اور دِل کو پہنچنے
والے ہر نقصان کا ازالہ کیجیے۔ ایسا آسان نُسخہ دُنیا بھر میں کہاں ملے گا؟
واضح رہے کہ اِس معاملے میں سمعی ملاقات ہی اِکسیر ہے۔ فون پر آواز اکثر
دھوکا دے جاتی ہے اور فریق ثانی طرح طرح کے تصورات میں کھو جاتا ہے۔ بعض
آوازیں ”عُمر چور“ ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر آواز سے
متاثر ہوکر کوئی نوجوان کسی لڑکی سے ”مَرئی و بَصَری“ ملاقات کا اہتمام
کرتا ہے تو طے شدہ مقام پر کسی آنٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے! ایسی صورت میں
دِل کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ دُنیا کا کوئی پیکیج، کوئی نُسخہ نہیں
کرسکتا! |