گھاگ لیکن پھر بھی۔۔۔ نوخیز

گل نوخیز کے بارے میں ایک عرصہ تک ہمارا خیال تھا کہ یہ لڑکی ہے بعد میں معلوم ہوا ”ٹھرکی“ ہے ۔ ہمارے دوست ”ب “ المعروف شاہ صاحب کاگل نوخیزکے بارے میں کہنا ہے ”نام لڑکیوں جیسا کام ”ٹھرکیوں“ جیسا “ ۔ لڑکیوں کے بارے میں نوخیز کے وہی خیالات ہیں جو مرزا غالب کے آم کے بارے میں ۔ ہماری نوخیز سے پہلی ملاقات ادبی بیٹھک میں ہوئی جہاں ایک خوبصورت لڑکی بار بار قہقہے لگاتی ہوئی نوخیز کے ہاتھ پر ہاتھ مار رہی تھی کچھ دیر بعد جب اس نے ٹانگ کو ہاتھ سمجھ لیا تو ہم چپکے سے وہاں سے چلے آئے بعد میں معلوم ہوا کہ نوخیز بھی بھاگ آیا تھا ۔موصوف خواتین کی بہت عزت کرتے ہیں ایک دن کہنے لگے اگر کوئی خاتون صرف دو پیگ کے بعد ”پینا “ بند کر دے تو سمجھ جاؤ وہ شریف ہے بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے دوست ”ب“ المعروف شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ جو مرد چار پیگ کے بعد کہے دنیا بہت حسین ہے تو سمجھ جائیں وہ شوہر ہے ۔

شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ نوخیز مرد کی زبان ہے ۔ بچپن میں بہت شرارتی تھا ، جوانی بھی ایسے ہی گزار دی اور اب جب کہ بڑھاپے کی شاہراہ پر گامزن ہے تو بھی پہلے جیسا ہے۔ جب اسے نیا نیا یہ احساس ہوا کہ یہ جوان ہو گیا ہے تو اس نے ایک لڑکی کو ”لو لیٹر“ دیا ، وہ پڑھ کے شرمائی اور کہنے لگی ”آپ بہت شرارتی ہیں “ دو ماہ بعد جب اس کی شادی کا کارڈ ملا تو نوخیز نے کہا ” تم بھی بہت شرارتی نکلی“۔۔۔ اس کی شرارتوں کا اکثر دوستوں میں چرچا رہتا ہے ۔نوخیز کی شرارتوں کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس کی ایک کتاب بھی ”شرارتی“ ہے ۔

گل نوخیز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے بہت محنت کی تب کہیں جا کر اسے یہ مقام ملا ، شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ اس کے گرد بیٹھی حسیناﺅں کو دیکھ کر بھی یہی لگتا ہے کہ اس نے بہت محنت کی ہو گی ۔ اس کی شکل و صورت ایسی ہے کہ پشاور جانے سے احتیاط کرتا ہے ۔شاید ڈرتا ہے کہ وہاں راستہ بھول گیا یا اغوا ہو گیا تو بعد میں شاید گھر والوں کو پہچاننے میں مشکل ہو ۔نوخیز ور سٹائل بندہ ہے یہ کوٹ پہنے تو بزنس مین لگتا ہے جبکہ پھٹی ہوئی بنیان اور ٹوٹی ہوئی چپل پہن لے تو پٹھانوں کے ہوٹل کا ”چھوٹا“ لگتا ہے لیکن شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ نہ تو بزنس مین ہے اور نہ ہی چھوٹا ، یہ ”میسنا“ ہے ۔ نوخیز کی شرارتیں اور حرکتیں اپنی جگہ لیکن اس کا کبھی سکینڈل نہیں بنا شاہ صاحب کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ سکینڈل بھی تب بنتا ہے جب ایسی کوئی بات پہلے چھپائی جائے اور پھربعد میںنا چاہتے ہوئے ظاہر ہو ۔

گل نوخیز اختر بہت اچھا مزاح نگار ہے اتنا اچھا کہ شاہ صاحب کے مطابق اگر یہ لکھاری نہ ہوتا تو ”مراسی“ ہوتا ۔اپنی تحریروں میں جتنا بڑا جملہ باز ہے عام زندگی میں اس سے بھی کہیں آگے ہے اس حد تک کہ سہیل احمدبھی اس کی جملہ بازی سے تنگ ہیں ویسے تنگ تو وہ اپنی پرانی پتلون سے بھی ہیں ۔ نوخیز نے اپنی ڈارلنگ کے ذریعے بہت کمایا ، یہاں تک کہ لوگ کہنے لگے نوخیز ڈارلنگ کی کمائی کھاتا ہے ۔شاہ صاحب کہتے ہیں نوخیز اگر ڈارلنگ کی کمائی نہیں کھاتا تو ڈارلنگ لکھنا بند کر دیتا کیونکہ وہ اس معاملے میں بہت سخت اصولوں کا مالک ہے ۔ نوخیز ایک ہفتے میں 6 اقساط لکھتا ہے اور ساتویں دن گاڑی کی ا قساط ادا کرتا ہے ۔ میڈیا میں اسے پرانے اور گھاگ لکھاریوں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن کہلاتا پھر بھی نوخیز ہی ہے ۔

نوخیزکا شمار ان لوگوں میں کیا جاتا ہے جو اپنے کام سے مخلص ہوتے ہیں ۔یہ اپنا کام بہت توجہ سے اور دل لگا کر کرتا ہے ۔کام عشق سمجھ کر کرتا ہے جبکہ عشق کام سمجھ کر کرتا ہے ۔زمانہ شناس بندہ ہے اس لیے اگر کسی کو اس سے کام ہو توسگریٹ مانگ کر پیتا ہے اگر اسے کام ہو تو منگوا کر پلاتا ہے ۔ پولیس والوں کی طرح اس کی بھی دوستی اور دشمنی دونوں ہی خطرناک ہیں ۔اگر یہ دوستی کی آڑ میں جگتیں لگانا شروع کر دے تو انسان دشمنی پر آمادہ نظر آنے لگتا ہے لیکن یاد رہے دشمنی کے بعد اسے آپ کی ہجو کا اخلاقی جواز مل جائے گا ویسے بھی اس کے اکثر اخلاقی جواز اس کے خود ساختہ ہیں جنہیں آپ کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کر سکتے ۔کوئی لڑکی اس کے پاس بیٹھی ہو تو لڑکے خود بخود دور چلے جاتے ہیں کیونکہ اس وقت پاس بیٹھنے کا مطلب ہے کہ آپ اس کی دم پر پاﺅں رکھنے لگے ہیں دم پر پاﺅں سے آپ نے جس جاندار کا سوچا ہمارا مطلب وہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اس وقت یہ زخمی شیر بن جاتا ہے ۔ایک ایسا شیر جو جنگل میں ہو تو جانور اس کی جگتوں سے ہی مر جائیں ۔ایسا کوئی موقع ہو یہ 90 سال کے بابوں کو بھی لڑکا ہی شمار کرتا ہے اس لیے محتاط رہیے نوخیز لا علاج ہے !

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نوخیز ایک اچھا انسان ہے ۔فیلڈ میں آنے والے نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، انہیں چائے پلاتا ہے ، فیلڈ اور میڈیا کی اونچ نیچ سے آگاہ کرتا ہے اور مختلف پہلوﺅں سے آگاہ کرنے کے بعد یہ کہہ کر بھگا دیتا ہے کہ ہر سال یونیورسٹیوں سے ہزاروں لوگ ڈائریکٹر بننے کے لیے آ تے ہیں وہ سب کہا جائیں گے سو میاں ! تم css کے پیپر دو اللہ ترقی دے گا ۔

نوخیز نے بہت سے لوگوں کا خاکہ لکھا بلکہ خاکہ اڑایا ،اور خاکہ بھی ایسا ایسا لکھا کہ وہ خود کہتا ہے کہ لوگوں نے مجھے اتنے عدالتی سمن بھیجے کہ میرا کمرہ سمن آباد ہو گیا ۔بعد میں پتا لگا کہ ان دنوں اس کا کمرہ سمن آباد ہوا تھا لیکن وہ سمن عدالتی نہیں تھی ۔ہم نے اس کا خاکہ اس لیے بھی لکھ ڈالا کہ چلو سمن نام کی کسی چیز کے دیدار تو ہوں چاہے وہ عدالتی ہی ہو ویسے ہمیں امید ہے نوخیز عدالتی سمن سے پرہیز کرے گا اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ وہ خود مزاح نگار ہے ، دوسری اور اہم وجہ یہ کہ اسے علم ہے کہ اس سمن پر اسے کوئی منافع نہیں ہو گا کیونکہ ہم زیادہ سے زیادہ ہرجانے کے طور پر اپنی پھٹی بنیان ہی دے پائیں گے اور ہم سے زیادہ موٹا ہونے کی بنا پر وہ ا س کے لیے بےکار ہو گی۔ویسے اگر نوخیز نے ہمیں کوئی سمن بھیج دیا تو اس کی ایک ہی وجہ ہو گی وہ یہ کہ گاڑی صاف کرنے والا کپڑا اس سے کہیں کھو گیا ہو گا!!
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 54433 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.