بیٹھے ہیں ”بس کی چَھت“ پہ ہم

چند غیر ملکی سیاح کراچی آئے۔ شہر کے مختلف علاقوں کی سیر کے بعد انہوں نے اپنے گائیڈ سے کہا کہ مقامی حکومت نے شہریوں کی تفریح کے لیے خاصا چلتا پھرتا بندوبست کیا ہے۔ گائیڈ نے وضاحت طلب کی تو سیاحوں نے کوچ کی چھت پر سفر کا حوالہ دیا! بے چارے غیر ملکی سیاح یہ سمجھ بیٹھے کہ کوچ کی چھت پر سفر کرنے والے مقامی حکومت کے مقرر کردہ ہیں اور عجیب و حرکتوں سے شہریوں کی تفریح طبع کا اہتمام کرتے ہیں! جھوم اور مٹک کر چلتی گاڑی کی چھت پر بیٹھنا کس اعتبار سے سرکس کے کسی کرتب سے کم ہے؟

کوچ کی چھت پر سفر بہت سے مقاصد کے تحت ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے پھیپھڑوں میں تازہ ہوا داخل کرنے اور دیگر مسافروں کے ساتھ گپ شپ کے نام پر دل کی بھڑاس نکالنے کی خاطر چھت کا رخ کرتے ہیں۔ بعض احباب کوچ کی چھت پر چڑھنے اور اُترنے کے عمل کو ورزش پر محمول کرتے ہیں! یہ اُن کے لیے اپنی ورزش ہوگی، ہم تو اِس عمل کو گاڑی کی ورزش سے تعبیر کرتے ہیں! اگر جاپانی آٹو میکرز اپنی تیار کی ہوئی گاڑیوں میں کوئی ایسا نظام نصب کریں جو گاڑی کے جذبات منظر عام پر لائیں تو یقین کیجیے پاکستان بھر کی سڑکوں پر ’شونگ پنگ شانگ“ کے آہنگ میں جاپانی گاڑیوں کی آہیں اور سِسکیاں سُنائی دیں گی!

بعض منچلوں کے لیے چھت کا سفر محض مہم جوئی ہے۔ اب شہری حکومت قدم قدم پر پہاڑوں کا اہتمام و انتظام تو کرنے سے رہی، لہٰذا لوگ کوہ پیمائی کا شوق کوچز کی چھت پر چڑھ کر پورا کرتے ہیں! اور سڑک پر چلنے والوں کے لیے اِن بلند و بالا مسافروں کو دیکھنا عشرتِ نظارہ ہے! بعض افراد اپنے بھاری بھرکم جسم کے ساتھ جسم کوچ کی چھت پر چڑھ رہے ہوتے ہیں تب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے گاڑی کی فٹنس چیک کی جارہی ہے! اگر جاپانی اپنی بنائی ہوئی گاڑیوں کو ایسی آزمائش سے گزرتی ہوئی دیکھیں تو شاید گھنٹوں (اپنے) سر پیٹیں!

مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں کہ ہماری حکومت کو اب تک خیال نہیں آیا کہ کوچز کی چھتیں رصد گاہ کا کردار بخوبی ادا کرسکتی ہیں! اِن پر سفر کرنے کی صورت میں کائنات کی وسعتیں بے حجابانہ ہمارے سامنے آتی ہیں، بلکہ آتی رہتی ہیں۔ سُنا ہے جن کے سر پر ہر وقت کوئی نہ کوئی افسر یا بدمزاج بیوی سوار رہتی ہے وہ کچھ دیر کوچ کی چھت پر سفر کر کے اندر بیٹھے ہوئے مسافروں کے سروں پر سوار ہونے کے احساس سے سرشار ہو لیتے ہیں! غریبوں کی بس یہی تو چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں!

ٹھنڈی ہوا، آزادی کا تصور اور دوسروں سے بلند ہونے کا احساس۔۔ یہ تمام حقائق مل کر چھت پر سفر کرنے والوں کو دُنیا سے ممتاز کرتے ہیں۔ ہم روزانہ کوچ کی چھت پر لوگوں کو چڑھائی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو مارشل لا نافذ کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی سرکاری عمارات کو کنٹرول میں لینے کا منظر یاد آنے لگتا ہے! بیشتر نوجوان کوچ کی چھت پر چڑھنے میں ایسے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں جیسے اندر بیٹھنے والوں کی ساری بلائیں اپنے سر لے لیں گے، حالانکہ چھت کا سفر بجائے خود (بس اور اُس کی چھت کے لیے) بلائے جاں ہے! جس طرح بس کے اندر پسندیدہ سیٹ کے حصول کی کوشش دلچسپ مناظر کو جنم دیتی ہے بالکل اُسی طرح چھت پر بھی پسندیدہ مقام کے حصول کی جدوجہد قابل دید مناظر کی راہ ہموار کرتی ہے! اِس کشمکش میں مسافر جس احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ بھی قابل دید ہوتا ہے کیونکہ ذرا سی گڑبڑ سے زندگی داؤ پر لگ سکتی ہے! چھت پر پسندیدہ جگہ کا حصول ضبطِ نفس کے ساتھ کشمکش کا بہترین منظر پیش کرتا ہے! یہ وہی وصف ہے جو سفارت کاروں کو بڑی محنت سے سکھایا اور ذہن نشین کرایا جاتا ہے!

کوچ کی چھت پر سفر کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان خود کو ایک بڑے ویڈیو گیم کا کردار سمجھتا ہے۔ یہ وہی فرق ہے جو اسٹیڈیم میں تماشائی کی حیثیت سے مقابلہ دیکھنے اور میدان میں اُتر کر کھیلنے میں ہے! میدان میں اُترنے کے بعد جوہر دکھانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ چھت کے سفر میں مگن بیشتر افراد حسب توفیق و مزاج بولتے، بلکہ چیختے ہیں۔ چھت کے ماحول میں کسی کے ڈسٹرب ہونے کا خدشہ نہیں ہوتا۔

بہت سے نوجوان کوچ کی چھت پر سفر کو انٹرٹینمنٹ میں شمار کرتے ہیں۔ مگر خیر، اِس میں اپنی انٹرٹینمنٹ کم اور دوسروں کی زیادہ ہوتی ہے! چھت پر سفر کرنے والے سمجھتے ہیں کہ بس اسٹاپ پر کھڑے ہوئے لوگوں کو دیکھنا تفریح ہے اور سڑک پر کھڑے ہوئے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چھت پر طرح طرح کے نمونے کچھ اُنہی کی تفریح طبع کے لیے نصب کئے گئے ہیں!

شہری حکومت سڑکیں اور فٹ پاتھ بناتی ہے تو کبھی کبھار ان کی صفائی بھی کرا ہی دیتی ہے، مگر تزئین و آرائش کا اہتمام بھول کر بھی نہیں کیا جاتا۔ کاغذات میں ہماری سڑکیں اور فٹ پاتھ شاید لندن اور پیرس کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں کے لیے قابل رشک ہوں مگر حقیقت کی دُنیا کچھ اور ہی فسانہ سناتی ہے۔ سڑکوں اور فٹ پاتھوں کی آرائش کا منصب کوچز کی چھتوں پر سفر کرنے والوں نے کچھ اس انداز سے سنبھالا ہے کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں! بالائی مسافروں کی جانب سے تھوکی جانے والی پیک سڑک اور فٹ پاتھ پر تجریدی آرٹ کے خاصے دل کش اور دل فریب نمونے بناتی ہے۔ تجریدی آرٹ کو یاروں نے بہت بدنام کر رکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس آرٹ سے دلچسپی رکھنے کے لیے دنیا سے بیزار ہونا لازمی شرط ہے۔ اللہ بھلا کرے کوچز کی چھتوں پر سفر کرنے والوں کا جنہوں نے پان کی پیک تھوک تھوک کر سڑکوں اور فٹ پاتھوں کو اِس قابل بنادیا ہے کہ عوام اُن میں دلچسپی لیکر تجریدی آرٹ کی مائل ہوں! اِس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تجریدی آرٹ کے نمونے تیار کرنے والوں کا دُنیا سے بیزار ہونا لازم نہیں، بلکہ اُن کی زندگی دِلی تو قابل دید اور قابل داد ہے!

چھت پر سفر کا ایک فائدہ اور بھی ہے جو کم از کم ہم تو اپنائے جانے کے قابل نہیں سمجھتے! ہر جمعرات کو کراچی کی بیشتر کوچز کی چھتوں پر لوگ بڑی تعداد میں سوار ہوکر کلفٹن جاتے ہیں۔ پہلے مزار پر قوّالی سُنتے ہیں اور پھر ساحل کر چکر لگاتے ہیں۔ جب وہ واپس آتے ہیں تب پولیس اہلکار راستے میں گاڑی رکوا کر چھت پر سوار نوجوانوں کو اُتارتے اور اُن کے سانسوں کی مہکار کا جائزہ لیتے ہیں۔ غایت اِس کی یہ ہے کہ مزار پر قوّالی کے دوران اگر بتی اور عطر کی مہک سے سرشار ہونے کے بعد بہت سے نوجوان ساحل کا بھی ایک آدھ چکر لگاتے ہیں اور وہاں کیف و سرور کے چند لمحات سے ہمکنار ہوکر جب وہ رات کے ڈھائی تین بجے اپنے گھروں کو روانہ ہوتے ہیں ان میں چند ایک جھومتی گاڑی کی چھت پر چرس کے نشے میں جھوم رہے ہوتے ہیں! چھت پر بیٹھے بیٹھے یہ خاصی بلند پرواز کرنے لگتے ہیں اور کبھی کبھی کوئی نیچے کو لُڑھک کر بہت اُوپر بھی چلا جاتا ہے! زمین سے دس فیٹ اوپر کا سفر زمین سے تین فیٹ نیچے بھی لے جاتا ہے، بس یہی سوچ کر ہم کبھی کوچ یا بس کی چھت پر نہیں چڑھتے اور لوگوں کی تفریح طبع کا اہتمام کرنے سے گریز کرتے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486427 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More