الیکشن کمیشن کا آج کا حوصلہ مند فیصلہ دیکھ کر لگتا ہے
کہ پاکستان کچھ بدلہ بدلہ لگ رہا ہے مگر یہ فیصلہ چند دن بعد ہی ہوگا کہ اب
یہ نیا پاکستان ہے یا پرانا بہرحال تصدیقی بیانات سے کچھ تبدیلی کی خبر
ضرور مل رہی ہے۔ تو پتا چلا کہ اگر دباو نہ ہو تو اس طرح کے فیصلے ہوتے ہیں۔
حکومتی اداروں کو چین نصیب ہو گا کہ اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر کام
کرنے کا موقع میسر آیا ہے ۔ اور حکومت کے بھی اقتدار اور اختیار کے بے جا
تفخرانہ ڈول ڈال میں کمی آئے گی ۔
آج سپریم کورٹ کے جذبات بھی کچھ اصلی اصلی لگ رہے تھے مگر نیب کے مزاج کا
چند دنوں تک پتا چلے گا لیکن حکومت کے بیان سے لگ رہا ہے کہ وہ اپنے زور
بازو کے اثر پر پشیمان پشیمان ہیں اور سراپا دندان ہیں کہ اگر اس کا
استعمال بوقت ضرورت کام نہ آئے تو اس کا فائدہ ہی کیا؟
بہر حال ابھی ماحول اجنبی اجنبی سا لگ رہا ہے شاید یہ اچانک تبدیلی عادت سے
ہٹ کر ہے اس لئے لیکن مجھے تو ابھی بھی خدشات ہیں کہ یہ تبدیلی دائمی بھی
ہے یا کوئی ٹیسٹ کیا جا رہا ہے کہ اگر اس طرح سے پاکستان کو آزادی سے چلنے
دیا جاتا ہے تو کیا صورتحال بن سکتی ہے ۔
سہمے سہمے صحافی بھی آجکل سمندر پار بیٹھے بے خطر صحافیوں کے انداز میں
بات کر رہے ہیں۔ جیسے ان کے ذہنوں سے بھی غداری کے الزام کا ڈر ختم ہو گیا
ہے ۔ سیاستدان بھی بولتے کم مگر اچھلتے زیادہ نظر آرہے ہیں حکومتی تو اب
بولنے کی بجائے لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ پر اکتقا سے ہی کام چلا رہے ہیں۔
مولانا تو ایک پر اسرار خاموشی میں کسی گہری سوچ میں شاید آنے والے ماحول
کا گہری سوچون سے جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کے اپنی ہی جماعت سے ان کے نقاد بھی
اپنے اپنے مسکنوں میں گھس گئے ہیں۔
پنجاب نے تو اپنے سینٹ کے الیکشن کو منطقی انجام تک پہنچا لیا ہے اور ان کی
اس حکمت عملی نے اچھل اچھل کر پارلیمان کو بدنام کرنے والوں کے جذبات کو
کافی حد تک سرد کر دیا ہے اور اب سینٹ سے کوئی بہت بڑی تبدیلی کے اثرات فی
الحال محسوس نہیں ہو رہے۔ اس میں چوہدری برادران اور مسلم لیگ کی سنجیدہ
سیاست قابل ستائش ہے۔
پچھلے کئی ہفتوں سے پارلیمنٹیر ین کو بدنام کرنے کا شورو غوغا اور ڈرامہ
بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ اور کچھ طاقتوں کے
نظام میں تبدیلی اور تجربات کے بے مقصد جوش و خروش میں بھی لگتا ہے ٹھہراو
آجائے گا ۔
پہرحال فی الوقت جیسا بھی ہے نظام کے اندر چیک ان بیلنس سسٹم اپنے اصلی
انداز کی طرف بڑھتا ہوا نظر آتا ہے اور اگر اسی طرح سے اس کو چلنے کا
حوصلہ دکھایا گیا تو امید ہے کہ بہتری آئے گی اور اس نظام پر انگلیا ں
اٹھانے والے تماشبینوں کو یقینا شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔
اب حکومت ، اپوزیشن اور اداروں کو مجبورا ہی سہی اپنی اپنی آئینی حدود کے
اندر رہ کر اپنی انا کے خول سے باہر نکل کر عوام اوراس ملک کی بہتری کے لئے
کوشش کرنی چاہیے ۔ ایک دوسرے کو گرانے اور نکالنے کی بجائے تعاون کی پالیسی
پر عمل کرتے ہوئے قریب ہونا چاہیے اور اس وقت پہل حکومت کو کرنی چاپیے اور
اگر سمجھیں تو ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل بھی باقی بچا ہوا نظر
نہیں آتا۔ب
|