بچھڑ گیا بس ساتھی دے کر پل دو پل کا ساتھ

جب بھی کسی کو ہسنتے دیکھتا ہوں دیکھ کر ایک کمی محسوس ہوتی ہے.   جب ان کی زندگی میں کوئی خاص ہوتا ہے ۔ دل چاہتا ہے کہ ان سے پوچھا جائے وہ اتنے خوش قسمت کیسے ہیں

 یہ جو عورت ذات ہوتی ہے نا یہ محبت نہیں جنگ کرتی ہے جیسے جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے نا کہ کسی طرح بس جیت ہو ۔
اسی طرح عورت ذات جس سے ایک دفعہ وفا کرتی ہے وہ چاہے جس کی بھی ہو جائے لیکن اس کا دل اپنی چاہت کے لیئے دھڑکتا ہے ۔
وہ ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ کسی طرح اس کی چاہت اس کو تسلیم کر لے اسکو اپنا جیون ساتھی بنا لے ۔
لیکن مرد کبھی سمجھ نہیں سکتا اس کے جذبات کو ۔ وہ صرف موقع دیکھتا ہے ۔جب تک پہلے پہل تو جان چھڑکتا ہے ، اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور اس کی ہر بات مانتا ہے ۔ جب وہ کامیاب ہوجاتا ہے اس کے دل میں جگہ بنانے کے میں ۔ پھر وہ اس کو ذات کا قیدی بنا دیتا ہے جس کی سوچ بس اس تک ہی محدود ہوتی ہے ۔ لیکن خود کسی اور کی تلاش میں نکل پڑتا ہے ۔
لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ عورت ذات تو سب ایک جیسی ہیں بس شکل تبدیل ہیں ۔ شاید غلطی عورت کی ہی ہوتی ہے جو کسی کی باتوں کا یقین کر لیتی ہے جبکہ اس کو پتا بھی ہوتا ہے کہ آگے والا فریب دے گا لیکن بس یہ سوچ کر اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو جھٹک دیتی ہے شاید کہ میرا محبوب سب سے الگ ہو گا ۔
ہاں ہمیں سزا ملنی ہی چاہیئے جو ہم کسی غیر پہ اعتبار کر لیتی ہیں ۔ شاید قیامت تک ہم بیوقوف رہیں گی اور بنتی رہیں گی ۔
بس ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہمیں دھوکہ ملتا ہے
دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ اس عورت میں کیا خاص ہوتا ہے جس کو جیون ساتھی بنایا جاتا ہے شاید وہ مرد ذات کو اس کی اوقات میں رکھتی ہے اس کے محبت کے دعویٰ کو جب تک تسلیم نہیں کرتی جب تک وہ قبول ہے قبول ہے اورقبول ہے کے لفظ نہیں سنتی ۔ ساری حیات تک نکاح نہیں ہو گا محبت نہیں ہو گی۔
میں نے یہ سنا تو بولا محترمہ میری جیون ساتھی بن جائیں نا آپ .
کیونکہ
ہم تمہیں کیسے بتائیں تم میں کیا کیا بات ہے
تم سے دل میں شاعری ہے عشق کی سوغات ہے ۔
اس نے جیسے یہ شعر سنا اور ہنس پڑی ۔
اور بولی مسعود ہماری
سچی محبت کو منزلیں نہیں ملتیں ۔ شاید ہمارا نصیب ایک جیسا نہیں ہے ۔ ہم بچھڑ جائیں گے دیکھ لینا ۔
تم میری قدر نہیں کرتے ہو نا دیکھنا ایک دن مجھے یاد کر کے آنسو بہایا کرو گے ۔
اچھا مسعود یہ بتاو ہماری محبت کی خوشبو کیا ہے ؟ کیا محبت کی بھی خوشبو ہوا کرتی ہے ؟ اگر ہوتی ہے تو مجھے محسوس کیوں نہیں ہوتی ہے شاید محسوس کرتی بھی ہوں تو پتا کیوں نہیں چلتا ؟ شاید مجھے محبت ہی نہیں ہوئی ہے !
میں اس کی باتوں پہ ہنس رہا تھا ۔ میں نے گہری سانس لی اور بولا تم ہمیشہ مجھے عجب امتحان میں ڈال
دیتی ہو ۔
پھر میں کچھ لمحے خاموش رہا اور بولا محترمہ کبھی تم نے بارش کے بعد کچی مٹی کی خوشبو کو محسوس کیا ۔ کیسے بارش کے ننھے ننھے قطروں کو اپنے اندر جذب کر کے مٹی جو بھینی بھینی خوشبو سے مہکتی ہے نا تو دل کرتا ہے
کہ انسان اس میں سما جائے اس کو بس وہ لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو کچے گھروں میں رہتے ہیں ۔
اسی طرح محبت کی خشبو ہوا کرتی ہے جب دل میں کوئ مطلب رکھے بغیر کسی کی چاہت میں خود کو فنا کر دیا جائے تو تب جو احساس محبوب کو پانے اور اس کی عقیدت کا ہوتا ہے نا اسکو محبت کی خوشبو کہتے ہیں ۔ یہ خوشبو تب ہی محسوس ہوتی ہے جب مٹی کا گھڑا کچا ہو مطلب انسان مٹی کے گھڑے کے ماند ہے اور کچے گھڑے کی خاصیت یہی ہوتی ہے اس کو محبت کی جتنی تپش دی جائے وہ برداشت کر لیتا ہے جبکہ اگر گھڑا پکا ہو گا نا تو وہ محبت کی تپش سے بکھر جائے گا ۔ اسی لیے محبت جب کی جائے تو کسی کامل ذات سی کی جائے وہ کچے گھڑے کو عشق عقیدت سے منور کر دے گا اور تم کو محبت کی خوشبو کا ہر پل احساس ہو گا جبکہ اگر تم مجھ سے محبت کرو گی تو تم کو کبھی یہ خشبو محسوس نہیں ہو گی کیونکہ میں کامل نہیں ہوں ۔
میں ہوں ساری حیات بس ٹھہرا اک انسان جو فقط دھوکہ دیتے ہیں ۔وہ بولی مسعود ہم ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ" ﭘﮩﻠﮯ " ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮتے ہیں؟؟
میں نے کہا تا کہ ﺍﺱکے ﺩﻝ کی ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﺍﺱ ﺩﻝ ﮐﻮ " ﺍﯾﮏ " ﮐﺎ ﮨﻮ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿں؟ ﯾﮧ ﺟﻮ ﻣﺠﺎﺯﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻧﺎ
ﺑﺲ ﭘﮩﻼ ﻗﺪﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﻗﻄﺮﮦ۔ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺬﺏ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔پتہ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ۔ ﺑﺲ ﭘﮭﺮ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠّﮧ

واہ مسعود تم تو دانشور بن گئے ہو ۔ میں ہسنا اور بولا
تم جو ہر بات پہ قدر قدر کہتی ہو نا یہ قدر ہی تو ہے جو تمہیں اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتا ہوں یہ تم بھی جانتی ہو اور میں بھی ! خیر بتا دو کیوں میرے ساتھ ایسا کر رہی ہو ؟
وہ بولی مسعود تم کو یقین آئے یا نا آئے مجھے بلڈ کینسر ہے ۔
میں تم کو اکثر کہا کرتی تھی نا کہ مسعود جب میرپور جایا کرو تو کچھ پرندے خرید کہ آذاد کیا کرو ۔ تم کو آذادی کی قیمت کا اندازہ ہو گا ۔ میں آذاد ہونا چاہتی ہوں ۔
میرا بلڈ کینسر آخری سٹیج پہ ہے تم ہمیشہ میری باتوں کو مزاق میں لیتے ہو ۔ لیکن میں چاہتی ہوں کہ ہم دور ہو جائیں ۔
مجھے لگتا ہے کہ میرے دن پورے ہو گئیے ہیں ۔ ایک بات یاد رکھنا رونے سے انسان کے نصیب نہیں بدلتے بس یہ میری زندگی کا اختتام ہی ہے ۔ میں تم کو کھونا نہیں چاہتی لیکن مجبور ہوں ۔
اس کا وہ لحجہ اور آخری باتیں مجھے اب تک یاد ہیں میں اسکو بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن خاموش تھا ۔
اس نے مجھ سے ملنا اور آنا جانا چھوڑ دیا میں نے بہت بار رابطہ کرنے کی کوشش کی اس کے گھر بھی گیا تو پتا چلا کہ وہ واپس برطانیہ یو کےچلے گئے ہیں ۔
لیکن قسمت کے امتحانات کچھ عجیب ہی تھے ۔ چند دن کے بعد پتا چلا کہ محترمہ اس دنیا کو چھوڑ گئ ۔
وہ سچی تھی اس کو آذادی مل گئ جبکہ میں ان دیکھی زنجیروں میں قید ہو گیا ۔
جب بھی کسی کو ہسنتے دیکھتا ہوں دیکھ کر ایک کمی محسوس ہوتی ہے. جب ان کی زندگی میں کوئ خاص ہوتا ہے ۔ دل چاہتا ہے کہ ان سے پوچھا جائے وہ اتنے خوش قسمت کیسے ہیں ۔ کون سی ایسی نیکی ہے جس کی وجہ سے ان کو انکا خاص مل گیا۔ بعض لوگ سفر میں ہی رہتے ہیں ۔ چاہے ان کو ان کا خاص ہی کیوں نا مل جائے ۔ بس پوری زندگی اس آس میں گزر جاتی ہے کہ کبھی تو اسکو بھول جاوں گا ۔ کبھی تو وہ خواب میں آکے کہے گی مسعود تم یوں ہی پریشان رہتے ہو میں ہر پل تمہارے ساتھ ہوں لیکن افسوس دکھوں نے اس گھر کی راہ دیکھ لی ہے ۔ بس وہ کبھی گلے لگائے گا تو یہ غم کا بادل جو آنکھوں سے برستا ہے نا تھم جائے گا ۔
سنو محترمہ !
اب ہوش مجھ نا آئے تو بہتر ہے تم نے ہے لوٹ کر آنا ہی نہیں اب تو لوگ مجھ سے کہنے لگے ہیں۔ تم کو تو بہت گھمنڈ تھا۔ اب کہاں گیا وہ شخص۔ کتنا چھپائوں اپنی آنکھوں کو آپ نظر آتے ہو ان میں۔ ہوش مجھ کو نہیں اب میرا کوئی پتہ نہیں کہاں کھویا ہوا ہوں میں۔۔۔۔ اب تو لوٹ آو نا۔ کیا تم بھی زمانے سے ڈر گئے کیا۔ زمانے کا کام تو صرف باتیں ہی بنانا ہے۔ میں چاہتا ہوں اب کے یہ عید تمہارے سنگ مناوں۔ تمہیں یاد ہے نا جب تمہیں میں تنگ کر تا تھا۔ کہ میں چلا جاوں گا چاند کے اس پار جہاں سپنے سچ ہو جاتے ہیں۔ ہر شب افق پہ جو بڑا سا تارا نظر آئے گا وہ میں ہوں گا۔ تم میرے کاندھے پہ سر رکھ کر کہتی تھی تم وہ تارا بنو یا نہ بنو میں ضرور بن جاوں گی۔ تم جیت گئی۔ دیکھو میں بدل گیا ہوں اب ضد بھی نہیں کرتا۔ وہ گلاب کا پودا جو تم نے اور میں نے لگایا تھا نا اس پہ بہار آ گئ ہے۔
لیکن افسوس میری زندگی میں خزاں کا موسم ہی ہے ۔
پتا ہے مجھے قسمت سے گلا نہیں ہے ہاں میرے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا ۔ ایک میں ہی تھا جو آپ کو دیکھتے ہی ہوا میں اُڑنے لگ جاتا تھا ۔ پتا ہے میں اپنے آپ کو دنیا کا خوش نصیب ترین انسان سمجھتا تھا ۔ کیونکہ میرے ساتھ آپ تھی لیکن پتا نا تھا کہ ایسا بھی موڑ آنا تھا ۔ جانے کس نے نظر لگا تھی مجھے
میرا سفر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔میں سفر میں اب بھی ہوں لیکن ہم سفر ہی نہیں ہے مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا تھآ لیکن اب اندھیرے سے خوف نہیں آتا کیونکہ تم کو کھونا میرا آخری ڈر تھا۔ اب لوگوں سے نہیں خود سے سہم جاتا ہوں بس ایک تکلیف سی ہوتی رہتی ہے سینے میں شاید آنسو ہونگے ہاں یقیناً آنسو ہی ہونگے ۔ بس فرق اتنا ہے کہ پہلے جب نکلتے تھے تو خود پہ رشک آتا تھا کیونکہ تم اس بہانے آنسو پونچ دیتی تھی لیکن اب یہ نکل پڑتے ہیں تو خود کو بے بس سمجھتا ہوں ۔ پتا ہے اب کوئی بھی دل توڑ جائے درد نہیں ہوتا ۔
جب پرندہ کئ برس قید میں رہتا ہے نا تو چاہے اس کو آذاد کیوں نا کر دیا جائے یا اس کے پنجرے کا دروازہ کھول دیا جائے۔ اس کو اس آذادی سے غرض نہیں رہتا کیوں کہ وہ اڑنا بھول چکا ہوتا ہے ۔ وہ کوشش کرتا ہے لیکن اس کا عشق پنجرے سے ہو چکا ہوتا ہے ۔
اور اسی طرح جب کوئی انسان کسی کی محبت میں قید ہوتا ہے نا تو اپنا سب کچھ اپنے محبوب کو وار دیتا ہے لیکن جب پتا چلتا ہے کہ وہ محبوب تو فقط سراب تھا تو انسان ایسی ان دیکھی زنجیروں میں قید ہوجاتا ہے کہ اس کو پل پل اس کی یاد ستاتی ہے ۔
لیکن پرندے اور انسان میں بس ایک چیز مشترک ہوتی ہے کہ پرندہ بھی زندہ رہتا ہے اور انسان بھی زندہ رہتا ہے لیکن پرندہ اڑنا بھول جاتا ہے اور انسان سانس لینا ۔
پتا ہے اب تک تمہاری خوشبو میرے سانسوں کو مہکا رہی ہے۔ اب بھی یاد ہے مجھے جب تم برطانیہ واپس لوٹتے وقت بچھڑنے لگی تھی تو کہنے لگی تھی مسعود آج تمہارے اور میرے ظرف کا امتحان ہے ۔ رونا نہیں ہے ، جب تم میرے قریب آئی تو تمہاری آنکھوں میں پرسکون سمندر بہتا ہوا دیکھا ، جس کی موجیں ٹھاٹھیں مارے بغیر بہہ رہی تھیں ۔ جو اس بات کا ثبوت تھا کبھی بھی طوفان آ سکتا ہے۔ تمہاری آخری مسکراہٹ اب بھی یاد ہے اس میں اتنا قرب تھا جو میرے علاوہ کوئی دیکھ نا سکتا تھا ۔ تم کہتی تھی نا بھول جانا مجھے ! میں ہنستا اور کہتا تجھ کو بھول پائوں یہ ہو نہیں سکتا اور تمہارے ساتھ بیتایا ہوا وقت میرے زندگی کا سرمایہ ہے ۔ تم چپ گئ تھی اور اب بھی یاد ہے تم نے رات کے اندھیرے میں میری ہتھیلی پہ
اپنی انگلی سے لکھا مجھے پیار ہے تم سے
جانے کیسی سیاہی تھی
وہ لفظ مٹے بھی نہیں اور آج تک
دکھائی بھی نہیں دیے ۔
وہ مر گئ وہ میری پہلی محبت تھی ۔ جو مجھے لکھاری بنا گئ ۔ جو میرے الفاظ کو پہچان دے گئ ۔
اپنے الفاظوں کو یہی پہ ختم کروں گا اور اپنے اللہ ربلعزت سے یہی دعا کروں گا کہ اللہ کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

محمد مسعود نوٹنگھم یو کے


 

Mohammed Masood
About the Author: Mohammed Masood Read More Articles by Mohammed Masood: 61 Articles with 166829 views محمد مسعود اپنی دکھ سوکھ کی کہانی سنا رہا ہے

.. View More