خوشی اک تمنا ہے ،اک طلب ہے ،ہر انسان کی آرزو ہے ۔ہر کوئ
خوش رہنا چاہتا ہے ۔لیکن اس کی تلاش کے طریقے اور میدان مختلف ہیں ۔ایک
باغبان کے لئے خوشی کسی غنچے کو کھلتے ہوئے دیکھنا ہے ۔ایک پرندے کی خوشی
آزاد فضا میں اڑان بھرنا ہے ۔کسی پیاسے کے لئے خوشی ،پانی کا ایک گلاس ہے
تو کسی بچے کے لئے خوشی ایک رنگین غبارے کا حصول ہے۔ایک ماں کے لئے خوشی
اپنے بچے کو نوالے کھلانا ہے تو باپ کے لئے خوشی گھر آتے ہوئے ضرورت کا
سامان خرید کر لانا ہے۔کسی بیمار کی خوشی ،بیماری سے نجات اور صحت کا حصول
ہے تو کسی ضعیف کی خوشی اپنے پوتوں اور نواسوں سے ملاقات ہے ۔انسان ساری
زندگی خوشی کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔کسی تنہا انسان کے لئے خوشی کسی
دوست یا رفیقِ حیات کا مل جانا ہے۔ ~تیرے آنے سے یوں خوش ہے دل جوں کہ بلبل
،بہار کی خاطر ! ایک فرانسیسی قلم کار آندرے زیدے (Andre Guide) کا کہنا ہے
کہ "خوش رہنا صرف ہماری ذاتی بقا کے لئے مفید نہیں بلکہ یہ ہماری اخلاقی
زمہ داری بھی ہے ،کیوں کہ ہمارے رویہ کا اثر ہماری ذات تک محدود نہیں ہوتا
بلکہ دوسروں پر بھی اپنا اثر ضرور چھوڑتا ہے ۔" ایک اور دانشور سے پوچھا
گیا کہ خوشی کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا:" زندگی میں ایک غم سے دوسرے غم کے
درمیان جو فاصلہ ہے اسے خوشی کہتے ہیں "- دراصل خوشی اپنی خواہشات کو
بڑھانے میں نہیں بلکہ اپنے پاس موجود نعمتوں کو محسوس کرنے میں ہے ۔خوشی ،شکر
گزاری میں رکھ دی گئ ہے ۔ خوشی اور شکر کا باہمی تعلق ہے ۔خوشی اس میں ہے
کہ جو کچھ آپ کے پاس موجود ہے ،آپ اس پر راضی رہیں ۔اپنا موازنہ دوسروں سے
نہ کریں ،نہ اپنے سٹیٹس اور ان کے سٹیٹس میں فرق دیکھ کر دل چھوٹا کریں ۔آج
کے دور کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک انسان کی خوشی دوسرے کی تکلیف بن جاتی ہے
۔ بقول شاعر:۔ ~خوشی میری کانچ جیسی ہے نہ جانے کتنوں کو چبھتی ہے ! حال ہی
میں کرونا وبا نے دنیا کو اپنے شکنجے میں لیا تو خوشی نے اپنے معانی ہی بدل
لئے ۔وہ ساری آسائشات اور معمولات زندگی جو ہمیں خوش کرتے تھے ،وہ بہت
محدود ہوکر رہ گئے۔انسانیت نے موت و حیات کی کشمکش میں خود کو ڈوبتے ابھرتے
دیکھا۔ اچھے بھلے صحت مند نوجوان لوگ کرونا میں مبتلا ہوۓ تو دنوں میں اس
دارفانی سے کوچ کر گئے،جبکہ کئ کمزور اور بڑھاپے کی دہلیز کو چھونے والے ،
کرشمہ ء الہی سے اس وبا کے جال سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔انسانیت نے
مشرق و مغرب میں سواۓ خدا کے کوئ سہارا و مددگار نہ پایا ۔میڈیکل سائنس اور
ٹیکنالوجی بازیچہ ءاطفال ثابت ہوۓ۔لاک ڈاؤن اور معاشی زوال نے قوموں کو بقا
اور زندگی کے لئے نئے راستے اور روزگار کے نئے مواقع تلاش کرنے پر سرگرداں
کیا۔ ان کٹھن حالات میں کچھ لوگ اپنی جمع پونجی کو بچا بچا کر رکھتے ہوئے
پاۓ گئے وہاں کچھ درد مند مخیر افراد نے دکھی انسانیت کی خاطر ، نبیء
مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی میں ،اپنے خزانوں کے منہ
کھول دئیے۔اس سخت آزمائش میں لوگوں کو خوراک ،علاج اور تعلیم کی مد میں
تعاون دے کر اپنے رب کو منانے میں لگے رہے ،سچ ہے : رب راضی تو سب راضی !
حاصل کلام یہ ہے کہ "سچی خوشی چاہیے تو اپنے رب کو خوش کرو "۔ ~نہ دولت سے
نہ دنیا سے ،نہ گھر آباد کرنے سے تسلی دل کو ہوتی ہے ،خدا کو یاد کرنے سے !
|