‎کاش کہ سلائی مشین سے چاکِ جگر بھی سِل سکتا

پربتوں سے پیار کرنے والے اور انہی سے اپنا روزگار حاصل کرنے والے جفا کش و جانباز علی سد پارہ کے خواب بھی انہی کی طرح بلند و بالا اور پر شکوہ تھے ۔ مثلاً دنیا کی چودہ میں سے آٹھ بلند ترین برفانی چوٹیاں سر کر لینے کے بعد باقی کی چھ کی بھی فتح اپنے نام کرنا ۔ وہاں بھی سبز ہلالی پرچم لہرانا اور کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرنا ، مشن کی تکمیل کے بعد اپنے گاؤں میں اسکول بنوانا ۔ مگر خواہشات بہت محدود اور معصوم سی تھیں ۔ مثلاً اپنی مہ پارہ کو ایک سلائی مشین لے کر دینا ۔ اب یہ محض ایک خواہش نہیں تو بھلا اور کیا تھی؟ مگر اس سادہ لوح کوہ نورد نے اسے بھی ایک خواب کا درجہ دے رکھا تھا شاید وہ اسے اپنی بساط سے بڑھ کر کوئی بہت مہنگی بہت جدید قسم کی مشین لے کر دینا چاہتا تھا اور اس کا بجٹ اسے اس عیاشی کی اجازت نہیں دیتا تھا ۔ مگر صرف اسی اتنی سی بات سے اس کا پورا معاشی پس منظر واضح ہو جاتا ہے ۔ اور جو وہ بظاہر ریوڑی بتاشوں کی طرح ، برفیلی چوٹیاں سر کرتا پھر رہا تھا تو وہ بھی اسے تھالی میں رکھ کر نہیں مل رہی تھیں ۔ اس کی تو پوری زندگی ہی مشقتوں صعوبتوں جفا کشی اور خود انحصاری کا استعارہ تھی ۔

2 فروری 1976 کو پہاڑوں کے دامن میں جنم لینے والے علی سد پارہ نے بطور پورٹر اور گائیڈ اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے کے بعد بطور کوہ پیما بغیر کسی سرپرستی کے 26 فروری 2016 کو پرانے متروک شدہ ساز و سامان کے ساتھ 50- ڈگری کی ہوشربا ٹھنڈ میں بِنا آکسیجن سپورٹ کے نانگا پربت پر پاکستانی پرچم لہرا دیا ۔ یہ ایک بہت ہی انوکھا عالمی ریکارڈ تھا جو سد پارہ نے اپنے نام کیا ۔

انتہائی محدود وسائل اور دشوار و صبر آزما حالات میں وہ عالمی اعزازات اپنے نام کرتا رہا دیس کا نام اونچا کرتا رہا پھر 5 فروری 2021 کو ایکبار پھر سرما میں آکسیجن کے بِنا کے ٹو کو مفتوح کرنے کی سعی میں وہ اپنے دو ساتھیوں سمیت لا پتہ ہو گیا ۔ اور ان کی بازیابی کے لیے دیس کی تاریخ کا سب سے بڑا ریسکیو آپریشن کیا گیا جس پر کروڑوں روپے کے وسائل صرف کیے گئے ۔ پھر بالآخر بارہ روز کی تلاش بسیار کے بعد 18 فروری 2021 کو ان کی ممکنہ موت کی سرکاری طور پر تصدیق کر دی گئی ۔ سد پارہ کی زندگی اور موت دونوں ہی موقعوں پر ماہ فروری کا ایک عجیب حیرت انگیز عمل دخل رہا ۔ سب بڑے بڑے کام اسی مہینے میں ہوئے ۔ اسی مہینے وہ ایک اور نیا عالمی ریکارڈ بنانے کی دھن میں اپنی جان کی بازی ہار گیا مگر اس کی قربانی رائیگاں نہیں گئی ۔ وہ مر کے بھی نہیں مرا اور یہ سب سے بڑا ایوارڈ ہے جو اس کے پچھلے تمام ریکارڈز پر بھاری ہے ۔ باقی جو رسم دنیا ہے ہمارا قومی دستور ہے اس کے مطابق اس کے شعبے سے متعلق ایک پورے ادارے کا قیام اس کے نام سے منظور کر لیا گیا ہے ۔ وہ ملک کے سب سے بڑے سول اعزاز کے لیے بھی نامزد کر دیا گیا ہے ۔ بچوں کے لیے ملازمت اور سرکاری سطح پر مالی کفالت ۔ اس کی بیوہ کے لیے 30 لاکھ روپے کی امداد ۔ جس نے یقیناً بہت دعاؤں اور خوش کن امیدوں کے ساتھ اسے ایک نئی مہم سر کرنے رخصت کیا ہو گا ۔ اور وہ سرپھرا پربتوں کا پرستار ہمیشہ کی طرح سرخرو ہو کر لوٹ آنے کی بجائے وہیں کہیں کسی کنج برف زار میں روپوش ہو گیا ۔ اپنی ایک جھلک بھی دکھلائے بِنا ۔ اسے پہاڑوں سے عشق تھا اس کا جسد خاکی ایک پہاڑ ہی کے سپرد آغوش ہو گیا ۔ اور اب اس کی تربت اس کی راحت ِجاں کے دل میں ہی بن گئی ہو گی جس پر وہ ساری عمر اشکوں کے ہار چڑھائے گی ۔ یادوں کا دھؤاں اور ٹوٹے خوابوں کا چراغاں ہو گا ۔ اس الم رسیدہ کے درد کی کوئی دوا نہیں ۔ اس دنیا میں کوئی ایسی سلائی مشین نہیں بنی ہے جو اس کے چاک ِجگر کو سی سکے ۔
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854162 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.