’حسد‘ عربی کا لفظ ہے۔ اس کے لْغوی معنی کینہ، جلن، ڈاہ،
بدخواہی یاکسی کا زوال چاہنے کے ہیں۔ اِصطلاحِ عام میں حسد اْن خداداد
نعمتوں اور ترقیات و بلندیِ مدارج کے زوال یا ان کے اپنی طرف منتقلی کی
آرزو و تمنا یا سعی و کوشش کو کہتے ہیں، جو کسی ہم پیشہ، پڑوسی یا ہم عصر
کو علم وہْنر ، دولت و ثروت، عہدہ ومنصب، عزت ونام وری یا کاروبار وتجارت
کے طورپر حاصل ہوئے ہوں۔ یہ نہایت رذیل اور بدترین خصلت ہے۔ یہ بیماری پست
ذہن وفکر رکھنے والوں کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔
’کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا
یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام حسد ہے۔‘‘
الحدیقۃ الندیۃ ،الخلق الخامس عشر۔۔۔الخ ،ج۱ ،ص۶۰۰۔
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (اَمْ یَحْسُدُوْنَ
النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ
اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا
عَظِیْمًا(۵۴))(پ۵، النساء: ۵۴ )
ترجمۂ کنزالایمان: ’’یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں
اپنے فضل سے دیا تو ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی
اور انہیں بڑا ملک دیا ۔‘‘…..ابو داود، کتاب الادب، باب في الحسد، ج۴، ۳۶۰،
حدیث: ۴۹۰۳۔
حسد و کینہ ایسی بری عادت ہے جس کی مذمت میں بہت سی اَحادیث بیان ہوئی
ہیں۔یہ تو ظاہر ہے کہ حسد نعمت پر ہی ہوا کرتا ہے۔ پس جب اللہ تبارک
وتعالیٰ کسی بندہ کو کوئی نعمت عطا فرمائے تو دوسرے شخص کو اْس کے پاس وہ
نعمت بْری معلوم ہو اس کو حسد کہیں گے۔حضرت سیّدنا آدم ں کی تخلیق کے بعد
سب سے پہلے حسد کرنے والا ابلیس ہے اور یہ حاسدین کا قائد ہے۔ حضرت آدم
علیہ السلام کی اَولاد میں حسد کی آگ میں جلنے والا قابیل ہے جس نے اپنے
بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔
حسد کے تین درجے ہیں پہلا درجہ یہ ہے کہ حاسد دوسروں کی نعمت کا زوال چاہے
کہ خواہ مجھے نہ ملے مگر اِس کے پاس سے بھی جاتی رہے۔ اِس قسم کا حسد
مسلمانوں پر گناہ کبیرہ ہے اور کافر فاسق کے حق میں حسد کرنا جائز مثلاً
کوئی مالدار اپنے مال سے کفر یا ظلم کر رہا ہے‘ اْس کے مال کی اِس لئے
بربادی چاہنا کہ دْنیا اس کے کفر و ظلم سے بچے‘ جائز ہے۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ حاسددوسرے کی نعمت خود لینا چاہے کہ فلاں کا باغ یا
اْس کی جائیداد میرے پاس آ جائے یا اُس کی ریاست کا میں مالک ہوں یہ حسد
بھی مسلمانوں کے حق میں حرام ہے۔تیسرا درجہ یہ ہے کہ حاسد اس نعمت کے حاصل
کرنے سے خود تو عاجز ہے اِس لئے آرزو کرتا ہے کہ دوسرے کے پاس بھی نہ رہے
تاکہ وہ مجھ سے بڑھ نہ جائے یہ بھی منع ہے۔
حسد کے کل سات اَسباب ہیں پہلا سبب عداوت اور بغض ہے جس سے کسی کو اِیذاء
پہنچ جائے۔ پہلے تو وہ بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے اور مجبور ہو کر چاہتا ہے
کہ اِس پر غیبی مار پڑے اِس کی مصیبت سے خوش اور آرام سے ناخوش ہوتا ہے
جیسا کہ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ”اگر آپ ﷺ کو بھلائی پہنچے تو اُن کو بُرا لگتا ہے“۔ (آل عمران:۰۲۱)
دوسرا سبب تکبر ہے کہ حاسد اپنی بڑائی کا خواہشمند ہے۔ اِرشادِ خداوندی ہے:
”کیوں نہ اُتارا گیا یہ قرآنِ (مجید) اِن دو شہروں کے کسے بڑے آدمی پر“۔
(الزخرف:۱۳)
تیسرا سبب سرداری کی خواہش ہے کہ حاسد چاہتا ہے کہ سب میرے حاجت مند
ہوں۔چوتھا سبب غصب اور بڑائی ہے۔ حاسد دوسرے کو نعمت کا نااہل سمجھتا ہے‘
اِس لئے چاہتا ہے کہ اْس کے پاس نہ رہے۔پانچواں سبب یہ ہے کہ حاسد دوسروں
کے کمال میں اپنا زوال سمجھے کہ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو میں ناکام ہو جاؤں
گا۔ جیسے کہ آج ہم اپنے ہم پیشہ سے اِسی قسم کا حسد رکھتے ہیں۔ چھٹا سبب‘
حبِ حکومت ہے کہ حاسد چاہتا ہے کہ میں اپنے کمال میں بے نظیر رہوں کہ میرے
برابر کوئی دوسرا نہ نکلے۔اور سب سے بڑھ کر حاسد کی کم ظرفی اور کمینہ پن
یہ ہے کہ اْس سے کسی کا خوشحال ہونا دیکھا نہیں جاتا۔ حضرت انس بن مالک ص
سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:-”آپس میں حسد
نہ کرو اور قطع تعلقی نہ کروایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ایک دوسرے سے دشمنی
نہ کرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بنے رہو۔ (مسلم جلد۲باب تحریم
التحاسد والتباغض والتدابر رقم۳۲‘ السنن الکبریٰ للبیہقی جلد۷ص۳۰۳‘ شرح
السنة جلد۶ ص۶۹۴‘ ابن ماجہ حدیث نمبر۹۴۸۳)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشادِ مبارک
فرمایا: ”تم حسد کی بیماری سے بہت بچو حسد اِنسان کی نیکیوں کو اِس طرح کھا
جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے“۔ (مشکوٰة حدیث نمبر ۰۴۰۵‘ ابوداؤد
حدیث نمبر۳۰۹۴‘ مرقاة جلد۹ص۲۴۲)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم
روٴف و رحیم ﷺ نے فرمایا: ” نہ مال و دولت کی حرص میں ایک دوسرے سے آگے
بڑھنے کی کوشش کرو اور نہ آپس میں حسد کرو“۔ (بخاری ‘ مسلم ‘ ابوداؤد ‘
مسنداحمد‘ کنزالعمال )
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی
کریم ﷺ نے فرمایا: ” حسد کرنے والا، چغل خور اور کاہن میرے ساتھ کوئی تعلق
نہیں رکھتا اور نہ میرا اُس کے ساتھ تعلق ہے پھر رسولِ کریمﷺ نے یہ آیت
کریمہ تلاوت فرمائی:-
ترجمہ: ”وہ لوگ جو اذیت پہنچاتے ہیں اِیماندار مردوں اور اِیمان دار عورتوں
کو حالانکہ اْنہوں نے اَیسا کوئی (بُرا) کام نہیں کیا تو اِن (اذیت پہنچانے
والوں) لوگوں نے اپنے سروں پر بہتان باندھنے اور کھلے گناہ کا بوجھ اُٹھا
لیا“۔ (الاحزاب:۸۵الترغیب والترہیب )
حضرت عبداللہ بن کعب اپنے والد ِ گرامی سے روایت کرتے ہیں‘ فرماتے ہیں‘
رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا ہے ”دو بھوکے بھیڑئیے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ
دئیے گئے ہوں وہ بکریوں کا اِتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال کی حرص اور حسد
مسلمان کے دین کا نقصان کرتے ہیں“۔ (الترغیب والترہیب)۔ح
حسد اور رشک
کبھی کبھی لوگ اپنی کم فہمی، لاعلمی اور کج روی کی وجہ سے حسد اور رشک کو
ایک ہی خانے میں رکھ کر طرح طرح کی بے جا اور بعیداز فہم تاویلیں کرتے ہیں
اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جوکچھ کررہے ہیں وہ حسد نہیں ہے۔
حالاں کہ حسد ایک روحانی بیماری ہے، جو انسان کے اندر بزدلی ، پست ہمتی، کم
ظرفی اور پست وارذل ماحول میں رہنے، پلنے بڑھنے اور پروان چڑھنے کی وجہ سے
پیدا ہوتی ہے، جب کہ رشک ایک صالح اور پاکیزہ جذبہ ہے، جو کسی کے اندر صالح
و پاکیزہ تربیت، ذہنی وفکری بلندی اور معیاری خاندانی اثرات سے پیدا
ہوتااور پروان چڑھتا ہے۔ اِسے ہم چراغ سے چراغ جلنے یا جلانے سے بھی تعبیر
کرسکتے ہیں۔ رشک وہ اعلیٰ جذبہ ہے، جس کی وجہ سے انسان کسی پڑوسی، ہم سایے،
ہم پیشہ یا ہم عصر کی ترقی و بلندی اور رفعت وعظمت کو دیکھ کر خوش ہوتاہے
اور وہ یہ جاننے کے لیے بے چین اور مضطرب ہوجاتاہے کہ اْسے جو ترقی اور خوش
حالی نصیب ہوئی ہے، اس کے لیے اْسے کیا کیاکرنا پڑا ہے اور وہ کن مراحل سے
گزرکر اس مقامِ بلند تک پہنچا ہے۔ یہ سب جان لینے کے بعد وہ بھی محنت ومشقت
اور سعی و کاوش کرکے خوشی و مسرت، شہرت و نام وری اور خوش حالی و نیک نامی
کے اس مقام بلندتک پہنچتا یا پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کسی کو پست و ذلیل
یا زوال پزیر کرنے کا نہیں بلکہ اعلیٰ ظرفی، بلند ہمتی اور روحانی طہارت
وپاکیزگی کاجذبہ ہے۔ اسلام نے اِس جذبے کی تحسین بھی کی ہے اور ترغیب بھی
دی ہے۔ قرآنِ مجید میں اِسے تنافس سے تعبیر کیاگیا ہے
اللہ سب کو آ قا کریم ﷺ کی تعلیمات پرعمل کرنے کی توفیق دے آمین |